امن ایک نعمت ہے۔۔۔۔آصف محمود

امن بہت بڑی نعمت ہے ۔یہ اللہ کا انعام ہے۔ اس کی قدر ان سے پوچھیے جنہوں نے جنگیں دیکھ رکھی ہیں ۔ برصغیر میں رہتے ہوئے ہم نے اس نعمت کو سنبھالنا ہے تو اس کے لیے دو کام ناگزیر ہیں۔ اول: ہمیں جنگ کی تیاری کرنا ہو گی۔ دوم : ہمیں جنگ کے لیے تیار رہنا ہو گا۔سافٹ امیج ، میٹھے میٹھے اقوال زریں نہ عالمی برادری میں آپ کے موقف کی حقانیت ،آخری تجزیے میں یہ صرف آپ کی اپنی قوت ہوتی ہے جو آپ کو جارحیت سے بچاتی ہے اورامن کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ کتابوں میں یہی بات اچھی لگتی ہے کہ دلیل دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے ۔سچائی مگر یہ ہے آج بھی دنیا میں طاقت ہی سب سے بڑی دلیل ہے۔اقوام عالم اقوال زریں سنانے میں تو بہت ماہر ہیں ، روز دیوانوں پہ دیوان لکھے جاتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ دلیل کی قوت اور اقوال زریں کا حسن آج بھی کسی کو کسی کے شر سے بچانے کی ضمانت نہیں بن سکتے۔ فریق کمزور ہو تو اس کے دلائل جتنے بھی طاقتور ہوں ردی کے انبار میں اضافے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔محض موقف کی سچائی پر معاملہ ہو تا تو اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور انٹر نیشنل لاء کے ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے یروشلم پر قابض نہ ہوتا۔ بھارت بھی کب سے کشمیریوں کو حق کود ارادیت دے چکا ہوتا۔ ملا عمر کے افغانستان کا سب سے بڑا جرم کیا تھا؟ کیا آپ کے خیال میں اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کرنا ہی جرم تھا؟ ہر گز نہیں ۔ جرم یہ تھا کہ وہ کمزور بہت تھا۔ اس کے پاس سد جارحیت کی قوت نہیں تھی۔ وہ ڈیٹرنس سے محروم تھا۔ قندھار کے اسلحہ خانے میں دو تین درجن ایسے میزائل ہوتے جو واشنگٹن اور نیویارک تک پہنچ سکتے تو یہ معاملہ سفارت کاری سے حل ہو جانا تھا۔جوابی وار کا خطرہ ہوتا تو افغانستان میں ڈیزی کٹر مارے جاتے نہ بموں کی ماں پھینکی جاتی۔امریکہ نے اگر روس کے ساتھ طویل عرصہ تمام تر تلخی کے باوجود جنگ کے بغیر گزار لیا تھا تو وہ یہاں بھی ایسا ہی کر سکتا تھا۔مگر کابل کیوبن میزائل کرائسز پیدا کرنے کے قابل نہ تھا ۔اس قابل ہوتا تو ملا عمر یا ان کا کوئی نمائندہ بھی اقوام متحدہ میں خردشیف کی طرح میز پر جوتا مار رہا ہوتا اور امریکہ صبر سے اس کا مشاہدہ فرما رہا ہوتا۔ جاپان پر ایٹم بم کیوں گرائے گئے؟ یہی تسلی اور اعتماد تھا کہ شہروں کو لمحے میں بھسم کر دینے کی یہ صلاحیت جاپان کے پاس نہیں ہے۔ چنانچہ معلوم انسانی تاریخ کا یہ پہلا سرنڈر تھا جس میں جاپانی فوجیوں سے کہا گیا تمام کپڑے اتار کر ننگے ہو جائیں اور امریکیوں کو سجدہ کر یں۔ جیرمی پیکسامین کی کتاب 20th century : Day by day میں اس سرنڈر کی تصویر موجود ہے اور کتاب پاکستان میں دستیاب ہے۔جاپان کے پاس بھی اگر ایک ایٹم بم ہوتا، چلیں بم نہ ہوتا صرف ایک خدشہ سا ہوتا کہ شاید جاپان کے پاس بھی بم ہے اور جواب میں امریکہ کے دو چار شہر بھی بخارات کی صورت تحلیل ہو سکتے ہیں توکیا امریکی صدر کی جرأت ہوتی کہ وہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر قیامت ڈھا سکتا؟کیا لٹل بوائے اور فیٹ مین اسلحہ خانوں میں ہی نہ پڑے رہ جاتے؟آپ بے شک اقوام عالم کی پیٹھ پر سی ٹی بی ٹی اور این پی ٹی کے اقول زریں لاد دیں، آپ اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے کہ ایٹم بم صرف اس وقت استعمال ہوا جب وہ صرف ایک ملک کے پاس تھا۔ جب یہ صلاحیت دوسرے ممالک کے پاس بھی آ گئی اس کے بعد کسی کو جرات نہیں ہو سکی اس کا استعمال کر سکے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی بڑی قوتیں آج تک جنگ کی صورت آپس میں نہیں الجھیں۔کبھی آپ نے غور کیا کس چیز نے انہیں روکے رکھا؟ ایک دوسرے کو برباد کر دینے کی صلاحیت نے۔ یہی سد جارحیت کی قوت کہلاتی ہے اور یہی امن کی ضمانت دیتی ہے۔چنانچہ دیکھ لیجیے ان قوتوں نے جب بھی وحشت اور خون کا کھیل کھیلا کسی کمزور ملک کے ساتھ کھیلا۔مسلم دنیا اور مسلم معاشروں کو میدان جنگ بنا دیا گیا۔ کیوں؟ کیوں کہ ان کے پاس سد جارحیت کی وہ قوت نہیں تھی جو دشمن کو روکتی؟ افراد ہی کا نہیں،اقوام کا بلڈ پریشر بھی صرف اس وقت ہائی ہوتا ہے جب سامنے والا کمزور ہو۔ ہمیں بھی امن چاہیے۔ سچ پوچھیے تو ماضی کی یہ کہانیاں سن کر اچھا لگتا ہے کہ کیسے پچاس کی دہائی میں لوگ تانگے پر بیٹھ کر لاہور سے امرتسر اور امرتسر سے لاہور آتے جاتے تھے ۔جی چاہتا ہے یہاں امن ہو۔ ہم بھی جائیں ، وہ بھی آئیں۔ لیکن خواہش ایک چیز ہے اور حقیقت بالکل دوسری چیز۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاشی اور عسکری حجم کے ساتھ دنیا کا سب سے جاہل اور جنونی سماج بھارت کا ہے۔تہذیب نفس سے محروم ، معاشی ہی نہیں شعوری طور پر بھی پسماندہ۔ایسے معاشرے میں جنون کا زہر انڈیل دینا ہمیشہ ہی آسان رہتا ہے۔کبھی یہ کام سردار پٹیل کرتا ہے تو کبھی مودی۔اس وحشت اور جنون کے مظاہر آپ کے سامنے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں خود بھارت میں کشمیریوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے حصے میں کیسا پڑوس آیا ہے۔ یہ پڑوسی کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ وہ بھیڑیا ہے جو بلندی پر کھڑا ہو کر نشیب میں پانی پیتے میمنے سے کہتا ہے کہ تم پانی گدلا کیوں کر رہے ہو۔جب میمنا کہتا ہے کہ پانی تو آپ کی جانب سے میری طرف آ رہا ہے میں اسے گدلا کیسے کر سکتا ہوں تو وہ حملہ کر دیتا ہے۔ابھی اس نے پاکستان کا پانی روکنے کا اعلان کیا ہے۔ یہی کام یہ افغانستان کے ذریعے بھی کر رہا ہے اور دریائے کابل پر ڈیم بنوا کر پاکستان کو اس کے پانی سے محروم کرنا چاہتا ہے۔یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ امن سے رہنے کے لیے آپ کا سافٹ امیج کام آئے گا نہ رونا دھونا۔ امن چاہیے تو راستہ ایک ہی ہے: جنگ کی تیاری کرنا ہو گی اور جنگ کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہو گا۔آپکے پاس بھارت کو برباد کر دینے کی صلاحیت جتنی بڑھتی جائے گی امن کے امکانات اتنے ہی روشن ہوتے جائیں گے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply