بیرون ملک مقیم کشمیریوں کے مسائل

یوں تو پاکستان کے زیرانتظام کشمیر مسائل کا گھر ہے لیکن ایک اہم مسلہ جو ہمارے معاشرتی بگاڑ کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے. جو کہ نا صرف گھریلو مسائل کی وجہ بنتا ہے بلکہ معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا بھی موجب مردوں کا ذریعہ معاش کے لیے گهروں سے دور رہنا ہے. ہم اپنے اردگرد دیکهیں تو زیادہ تر گھروں میں ایسے ہی ہے کہ مرد حضرات گهروں سے دور قید کی زندگی گزار رہے ہوتے اور بیویاں بچے کشمیر میں متاثر ہو ریے ہوتے.
میں پہلے اس مسلے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی کرنا چاہوں گا .
گھریلو مسائل :- ایک مرد جب شادی کر کے اپنی بیوی کو گھر میں لاتا ہے تو کشمیر میں جائنٹ فیملی سسٹم ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کی باقی فیملی کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کا اپنی چهٹی کا ایک ماہ یا دو ماہ اسی دوڑ میں اور فکر میں گزرتے کہ امی اور میری بہنیں بھائی میری بیوی کے ساتھ گل مل جائیں اس کے لیے اس کا دیا جانے والا وقت بھی اسے لکچر دینے گزرتا کہ بس تم کمپرومائز کرنا. اسے اپنی فکر نہیں ہوتی بس یہی ہوتا میری فیملی سے میری بیوی کی کوئی شکایت نا آ جائے . اس کے بعد جب وہ واپس اپنی جاب پر جاتا ہے تو اس کو اپنی ماں بہن بهائیوں اور بیوی کی انڈرسٹنڈنگ کی فکر کھائے جاتی ہے کہ کوئی مسلہ نا ہو جائے اور اس کا بیوی کو ہی لکچر ہوتا کہ بس تم کمپرومائز کرنا اور ماں کو یہی کہتا شکایت کی صورت کے میں اس کو ڈانٹوں گا.
اس کا کیا ذمہ دار مرد ہے؟ ہرگز نہیں اس کا ذمہ دار معاشرہ ہے جس میں اگر وہ بیوی کی جائز حق کی خاندان سے بات کرے گا تو رن مرید اور بیوی کے بعد ماں کو بھولنے والا سمجھا جائے گا ہر طرف سے اس پر انگلیاں اٹھائی جائیں گی.
اخلاقی گراوٹ کی وجہ :- اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا کیا تو کچھ جبلتیں اس میں رکھی ہیں ان میں ایک جسمانی خواہشات بھی ہیں جو مرد اور عورت میں یکساں ہوتیں ہیں اگر ایک عورت کو شادی کے بعد خاندان بھی اچھا ملے پیسے کی ریل پیل ہو لیکن اس کا شوہر تین تین سال گھر نا آئے اور اسے صرف صبر کی تلقین کرے شوہر تو صبر تو کر لے گی وہ لیکن نفسیاتی مریض بن جائے گی یا پھر غیر اخلاقی طور پر اپنی خواہشات کی تکمیل کرے گی کیوں کے انسان ایک اخلاقی وجود ہے اور ضروری نہیں کی اس کی خواہشات شعور کے تابع ہی ہوں وہ کبھی کبھی نفس اور خواہشات کے آگے مغلوب ہو جاتا ہے اس کی مثالیں کشمیر میں دیکھی بھی جا سکتی ہیں کہ کافی تعداد میں ایسے کیس سامنے بھی آتے کہ جن کے شوہر زیادہ وقت کے لیے گھر سے دور ہوں وہ عورتیں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث پائی گی ہیں.
اولاد کی تربیت :- ایک بچے کی پرورش اور تربیت خالی ایک عورت کبھی نہیں کر سکتی جب تک مرد ساتھ نا دے لیکن ہمارے ہاں ایک عورت کو خاندان کو بھی سنبھالنا ہوتا اور بچوں کو بھی جو کہ وہ ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتی پھر بچے عدم توجہ کی وجہ سے تربیت کی کمی کا شکار رہتے ہیں تهوڑا بڑے ہو کر بچوں کو ماں کا کوئی ڈر نہیں ہوتا لڑکے آوارہ گردی منشیات اور دوسری غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں جو کہ مثال ہمارے کشمیر میں دیکھی جا سکتی دوسری طرف ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی حرکات اور کرپٹ پائی جانے والی لڑکیوں میں 80% سے پوچھا جائے ابو کدھر ہوتے تو جواب ملتا بیرون ملک ( میرا ذاتی تجزیہ درست ہونا ضروری نہیں). ایسا کیوں ہے اس لیے کہ ایک ماں شعور کی سطح پر آنے اور اس کے بعد جوانی ہیں قدم رکھنے تک اولاد کی کسی حد تک تربیت کر سکتی جب اولاد خودمختار ہو جائے تو پھر اسے باپ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے کوئی ڈر نہیں ہوتا یہ بھی ایک المیہ ہے ..
مرد پر اثرات :- کبھی کبھی ہم سنتے تھے کے جلا وطنی ایک سزا ہوتی لیکن کیا آپ سب مجھے بتائیں یہ جلاوطنی کی ایک قسم نہیں کیا خاندان اور دوستوں سے دور دیار غیر میں مزدوری کرنا میں جب نوازشریف کی سنتا کہ مجھے جلاوطن کیا گیا میں نے جلاوطنی کی سزائیں کاٹی ہیں تو کیا ان کی سزا ہمارے بیرون ملک مقیم کشمیریوں کی سزا سے زیادہ ہے؟ ہرگز نہیں کیوں کہ اس سے کہیں زیادہ سخت اذیت کا سامنا کرتے ہیں ہمارے پردیسی دوست ..
اس کا حل :-
یہ ایک ایسا مسلہ ہے جس کو فوری حل ممکن نہیں یہ دولت کی غیرمساوی تقسیم اور امیر کا امیر ہوتے جانا اور غریب کا غریب ہوتے جانا اسی سسٹم کی وجہ سے ہے. پاکستان میں وصولی ٹیکس کا کهوکهلا ڈھانچا امیر کو امیر تر کر رہا سیل ٹیکس کی صورت لوڈ غریب پر ہے اور امیر انکم ٹیکس سے معمولی رشوت سے مبراہ ہو جاتا جس کا لوڈ غریب پر ہی پڑتا. اور کی درستگی شاید کہیں سال یا کوئی انقلاب ہی تبدیلی لا سکتا ہے. انفرادی طور پر بیرون ملک مقیم لوگ اپنے وطن کا رخ کریں اور کاروبار کریں اپنے تهوڑی محنت کے بعد بندا اسی مقام پر پہنچ جاتا ہمارے پردیسی مردوں کو بھی بند لفافے میں تنخواہ لینے کی عادت ہے وہ ذمہداری سے کام کرنے سے کتراتے ہیں اور ایک ایک پیسا جوڑنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ سب کو کوئی نا کوئی حل اس مسلے کا ڈهونڈنا چائیے تاکہ عوام کی بہتر رہنمائی میں اپنا کردار ادا کیا جا سکے اور عوام کو کوئی متبادل ذرائع معاش کی طرف راغب کیا جا سکے۔

Facebook Comments

فہیم اکبر
راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے خطے کے بنیادی مسائل کو رونا رونے والا ایک سائل

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply