بِلا عنوان۔۔حسن نثار

نہ دین اجازت دیتا ہے نہ آئین، لیکن ایسا بہت کچھ سرعام ہمارے پیارے اسلامی جمہوریہ میں صبح و شام پریکٹس ہو رہا ہے لیکن کوئی نہیں جو اس کی فہرست تیار کر سکے۔ فرمایا—–’’شرک کے بعد بدترین گناہ ایذا رسانی خلق ہے‘‘۔

’’ایمان کے بعد افضل ترین نیکی خلق خدا کو آرام دینا ہے۔ ‘‘’’جو چیز تو اپنے لئے پسند نہیں کرتا، کسی دوسرے مسلمان کے لئے بھی پسند نہ کر۔ ‘‘’’تیرا کسی چیز کو چاہنا تجھے اندھا اور بہرہ کر دیتا ہے۔‘‘’’صبر ایمان سے ایسے ملا ہوا ہے جیسے سر جسم سے۔‘‘

’’دو بھوکے بھیڑیئے جو بکریوں میں چھوڑ دیئے جائیں، وہ اس قدر فساد برپا نہیں کرتے جس قدر انسان کی دولت اور منصب کیلئے حرص اس کے دین میں فساد پیدا کرتی ہے۔ ‘‘’’مظلوم کی بد دعا سے ڈرو کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔‘‘

’’تم سے پہلی قوموں نے اپنے پیغمبروں اور بزرگوں کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا۔ دیکھو تم ایسا نہ کرنا۔ میں تم کو منع کرتا ہوں۔ ‘‘’’دو لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا صدقہ ہے، کسی کو سہارا دے کر سوار کرا دینا یا اس کا مال لدوا دینا بھی صدقہ ہے، اچھا قول بھی صدقہ ہے۔ راستے سے اذیت دینے والی شے اٹھا دینا بھی صدقہ ہے۔ ‘‘

’’علم بغیر عمل وبال ہے اور عمل بغیر علم گمراہی ہے۔‘‘’’لوگوں کو ان کی منزلوں پر اتارو یعنی حفظ مراتب کا خیال رکھو۔‘‘’’اگر کوئی مشرق میں مارا جائے اور دوسرا شخص مغرب میں اس کے قتل پر راضی ہو تو وہ دوسرا بھی اس کے قتل میں شریک ہو گا۔‘‘

’’مومن کا چہرہ بشاش رہتا ہے لیکن دل غمگین۔‘‘’’رستوں میں بیٹھنے سے پرہیز کیا کرو۔‘‘’’جب تین لوگ بیٹھے ہوں تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آپس میں سرگوشی نہ کریں کہ وہ اس سے آزردہ ہو جائے گا۔‘‘’’سوار پیدل کو، چلنے والا بیٹھنے والے کو اور تھوڑے بہتوں کو سلام کریں۔‘‘’’جس نے جہالت سے عبادت کی اس کا فساد، اصلاح سے زیادہ ہوتا ہے۔‘‘’’عبادت کے دس جزو ہیں۔9ان میں سے طلب ِ رزقِ حلال ہے۔‘‘

’’جو شخص اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ وہ کہاں سے مال کما رہا ہے۔ اللّٰہ اس کی پروا نہیں کرے گا کہ اس کو کہاں سے دوزخ میں داخل کرے۔‘‘قارئین!لمحہ بھر کیلئے رک کر مندرجہ بالا دونوں احکامات پر غور فرمایئے اور اپنے اردگرد (خود اپنے سمیت) کا جائزہ لیجئے اور محسوس کرنے کی کوشش کیجئے کہ ہمیں کیسی صورتحال کا سامنا ہے، ہمارا رخ کس طرف ہے؟

منزل یعنی انجام کیا ہے؟—–فرمایا’’جو شخص ایک کپڑا دس درہم کو خریدے اور اس قیمت میں ایک درہم بھی حرام ہو تو وہ پورا کپڑا جب تک اس کے بدن پر رہے گا، اللّٰہ اس کی نماز قبول نہیں کرے گا۔‘‘’’آگ خشک لکڑی میں اتنی جلد نہیں لگتی جتنی تیزی سے غیبت انسان کے حسنات کو خشک کر دیتی ہے۔‘‘

’’دنیا حلال بھی عذاب ہے مگر یہ حرام کی نسبت خفیف ہے۔‘‘’’سخی گنہگار خدا تعالیٰ کے نزدیک بخیل عابد سے اچھا ہے۔‘‘’’سخی کا کھانا دوا ہے اور بخیل کا مرض۔‘‘’’جو چیز اولاد کیلئے بازار سے لائے، پہلے لڑکی کو دے پھر لڑکے کو۔‘‘’’کسی نے سوال کیا ’’گناہ کیا ہے؟‘‘ فرمایا ’’جو دل کو کھٹکے۔‘‘’’تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے۔ اگر کوئی کسی میں برائی دیکھے تو اسے ہٹا دے یا بتا دے۔‘‘

ہر حکم، ہر ہدایت اک معیار ہے اور دیکھنا یہ ہو گا کہ ہم کتنے فیصد معیاروں پر پورا اترتے ہیں۔ ٹھنڈے دل اور غیر جانبداری و دیانتداری سے غور کریں تو یہ جاننا بے حد آسان ہو گا کہ ہم پر آیا ہوا نحوستوں کا یہ عذاب و سیلابِ مسلسل ختم ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہا، نحوستوں کے سائے اتنے گھمبیر، گھنے اور طویل کیوں ہیں، ہمارے حالات بہتر ہونے کی بجائے بتدریج بد سے بدتر اور بدتر سے بدترین کیوں ہو رہے ہیں؟

انگریزی کا محاورہ ہے”THE BEST WAY TO SOLVE YOUR OWN PROBLEM IS TO HELP SOMEONE ELSE SOLVE HIS.”لیکن یہاں تو منظر ہی اور ہے۔معاشرہ اک ایسے جسم میں تبدیل ہو چکا جس کے اعضاء خود ایک دوسرے سے بری طرح متصادم ہیں مثلاًایک سلاٹر ہائوس غیرقانونی کاموں میں ملوث ہونے پر سیل کیا جاتا ہے۔

فوڈ اتھارٹی کے افسروں پر بااثر افراد تشدد کرتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ انہیں اغوا کر کے نامعلوم مقام پر لے جانے کے بعد برہنہ کر کے ان کو ٹارچر کیا جاتا ہے اور یہ سلاٹر ہائوس دوبارہ یہی کام شروع کر دیتا ہے—– کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب کسی سلاٹر ہائوس کے ’’شہری‘‘ ہیں جو ایک دوسرے کی سلامتی کی بجائے سلاٹر میں مصروف ہیں۔

دوسری طرف چند روز قبل ہی یہ خبر بھی نمایاں طور پر شائع ہوئی کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی اربوں روپے مالیت کی جائیدادوں پر دہائیوں سے قبضے برقرار ہیں جن کی تفصیلات ہوشربا ہیں۔ ہر روز اخبارات میں ایسی بیشمار خبریں موجود ہوتی ہیں کہ انسان حیران پریشان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی انسانی معاشرہ ان حالات میں کب تک اور کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔

اسی لئے اس کالم کے آغاز پر عرض کیا تھا کہ قدم قدم پر کہرام مچا اور ایسا کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو مل رہا ہے جس کی اجازت نہ دین دیتا ہے نہ آئین، تو یہ زمین ہم پر تنگ کیوں نہ ہوتی چلی جائے گی۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply