صرف ہمت اور محبت، زندگی آسان ۔۔۔نذر محمد چوہان

لکھاری لوگ اللہ تعالی کے بہت خاص لوگ ہوتے ہیں کائنات کا بہت خوبصورت حُسن ۔ وہ اپنی لکھائیوں سے اپنی اور لوگوں کی کہانیاں سنا کر اپنی بھی ہمت بندھا رہے ہوتے ہیں اور پڑھنے والوں کی بھی ۔ ایک اُستانی نے پاکستان سے لکھا کہ  وہ پچھلے دو دن سے بہت پریشان تھی ، بلاگ پڑھ کر بہت سکون ملا۔ ہم سارے ایک دوسرے کے لیے اپنی زندگیوں کا آئینہ ہوتے ہیں ۔ ہم سب ایک ہی کائنات کا حصہ ہیں اور ایک ہی رشتے میں پروئے ہوئے ہیں ۔ الیزبتھ برگ امریکہ کی بہت مشہور ناولسٹ ہیں ۔ ۱۹۷۵ کے اپنے ایک ناول the dream lover میں کیا خوبصورتی سے اس فلسفہ کو بیان کیا ؛
No matter their station in life, people were united by virtue of their humanity. We all rise to the same sun and sleep beneath the same moon..
کیا بات کی ہے ، دل چھُونے والی ، میں اکثر کہتا ہوں کہ  دکھائیں کہیں بھی دنیا کے کسی کونے میں اور قسم کے انسان رہتے ہوں ؟ وہی احساسات ، وہی ایک دل والے ، جو پوری کائنات کے ساتھ دھڑکتا ہے ، وہی بادل وہی بارش ، وہی خوشیاں وہی غم ، وہی سکھ وہی درد۔۔
پاکستان کے ٹی وی چینلز نے بڑے فخر سے ان والدین کے احساسات نشر کیے جن کے بچے سعودی حکومت کی بدمعاشی سے جیلوں میں تھے اور بادشاہ کو کُنا گوشت کھلانے کے عوض رہائی  پا گئے ۔ کاش یمن کے ان ایک کروڑ بچوں کو بھی دکھایا جاتا جو بھوک اور ننگ سے بلک بلک کر مر رہے ہیں ، کیا وہ بچے نہیں ؟ کیا وہ کسی اور خدا کی مخلوق ہے ؟ کیا ان پر “الرحمن الرحیم” صادق نہیں ہوتا ؟
اس ناول میں الیزبتھ برگ اس تفریق کو ایک آنسوؤں بھری کہانی کے  ذریعہ بیان کرتی ہے ۔ انیسویں صدی کے آغاز کا فرانس جب نیپولین جنگی مہموں میں لگا ہوا تھا اور انسانیت کے انقلاب کے باوجود رشتے ٹوٹ رہے تھے ، لیکن معاشرتی تفریق وہیں قائم تھی ۔ شاہی خاندان اور ایلیٹ کے لیے عورت رکھیل سے کم نہیں تھی ۔ یہ کہانی ہے ایک بیٹی کی جو اس وقت پیدا ہوئی جب اس کا باپ ایک کلب میں وائلن بجا رہا تھا ، ماں کو لیبر پین ہوئی  اور اسی کلب کے ایک بیڈ پر ہی بیٹی کو جنم دیا ۔ ماں ایک جنرل کی رکھیل تھی جس سے باپ جو لفٹین تھا نے دوڑا کر ماں کی مرضی کے بغیر شادی کی ۔ لفٹین کی والدہ شاہی خاندان سے تھی ، اس کا دادا پولینڈ کا بادشاہ رہا ۔ اس بیٹی کے لیے شناخت کے کارن  زندگی عذاب ہی بنی رہی ۔ ایک جیل ایک قید
I could not remove my shoes and stockings for the feel of green grass beneath my feet ..
دادی نے کبھی قبول نہیں کیا ، چھوٹا بھائی جب وہ تین سال کی تھی مر گیا اور باپ جب وہ تیرہ سال کی تھی ۔ ایک وقت آیا کہ والدہ نے بھی اس سے علیحدگی اختیار کر لی اور شہر منتقل ہو گئی ، کیونکہ وہ اپنی ایک اور مرد سے بیٹی کو سنبھالنے میں مصروف تھی ۔ اس لڑکی کی جب شادی ہوئی  تو خاوند نے سرد مہری اختیار کر لی ۔ لیکن اس نے حوصلہ رکھا اور ہمت نہیں ہاری ۔ خاوند ، ایک بیٹا اور بیٹی کو چھوڑ کر پیرس اپنے محبوب لکھاری کے پاس آ جاتی ہے جو نہ تو لکھنے میں اس کی مدد کرتا ہے اور اوپر سے پیار میں بھی خیانت ۔ ایک دن ایک اور خاتون کے ساتھ سویا پایا گیا ۔
اس کے باوجود وہ لکھاری بننے کی  ٹھانی رکھتی ہے ۔ اس کے نزدیک لکھائی کبھی دھوکہ نہیں دیتی ؛
Writing is a reliable kind of love, one that engaged my heart, my mind, and my spirit completely, and one that did not betray ..
اپنے پہلے ہی ناول کا ڈرافٹ لے کر جس بھی پبلشر کے پاس جاتی وہ کہتا
“Make babies not books ;
جین جیکوئس روسو کا قول اس کا فیورٹ؛
“We are all born good and capable of self improvement “
یہی قول اس کا حوصلہ بنتا ہے ، کیا ہمت یہ عورت دکھاتی ہے ۔ آخرکار جب ایک ناول پبلشر کو بہت پسند آتا ہے اور لکھاری کے نام کی بات ہوتی ہے تو پھر جذبات کی قیامت برپا ہو جاتی ہے ۔ کہتی ہے کہ  میری والدہ اور میری دادی میرا اصل نام کسی بھی طرح لکھے جانے کے خلاف ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ  معاشرے میں ان کی ناک کٹ جائے ۔ آخر کار یہ فیصلہ ہوتاہے کہ  کوئی  مردانہ نام رکھ لیا جائے ، جارج سینڈ ، نام کا فیصلہ ہوتا ہے پبلشر نے کہا؛
You are what men should be
ناول بہت ہٹ ہوتا ہے ، مداح اس کے گھر کے دروازے توڑتے ہیں ملنے کے لیے ۔ ایک عورت اس سے پوچھتی ہے کہ  کیا آپ لکھنے سے پہلے سوچتی ہیں ؟ جب وہ کوئی  جواب نہیں دیتی تو وہ عورت خود ہی جواب دیتی ہے کہ “لکھاری لکھنے سے پہلے سوچتے نہیں “ اس ناول میں ایک رکھیل کی کہانی ہوتی ہے جو سچائی  کی تلاش میں ہوتی ہے ۔ اس وقت کے ، ہوُگو اور بلزاک جیسے لکھاری بہت تعریف کرتے ہیں بلکہ سب لوگ کہتے  ہیں کہ
She would be compared to Balzac for her unstinting way of showing the reality behind the illusion ..
اس کے سارے ناول اسی ایک فلسفہ پر ہوتے ہیں کہ ؛
Feel the spirit of God, in the beauty of nature ..
سینڈ کے نزدیک ، وہ ایک ڈریمر ہے ؛
I am a lazy sort of romantic dreamer whose greatest pleasure is to read and make up my own stories ..
مجھے یہ پڑھ کر ایسا لگا جیسا کہ میرے بارے میں لکھا ہے ، کیونکہ مجھے بھی صرف پڑھنے کا شوق ہے اور اس سے پھر اپنی زندگی کی کہانیاں بنانے اور تحریر کرنے کا ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ  آج کے ڈرامہ اور کہانیاں بھی مادیت کے گرد گھومتے ہیں ۔ مشہور جرمن لکھاری اور شاعر گوئیٹے نے کہا تھا کہ ؛
“Every day one ought to hear a little song, read a good poem, see a fine picture, and if it were possible, to speak few reasonable words”
الیزبتھ برگ نے اس ناول میں لکھا کہ وہ مزید گوئیٹے کے ان الفاظ پر need to love کا اضافہ کرے گی کیونکہ اس کے بغیر تو rest is dust والا معاملہ ہے ۔
الیزبتھ برگ کا   یہ ناول  مجھے بے حد پسند ہے گو کہ  مجھے فکشن سے اتنا لگاؤ نہیں اور بہت کم پڑھتا ہوں ۔ مجھے بھی اس بات کا یقین ہے کہ اس دنیا میں اگر ہے نہیں تو صرف حوصلہ اور محبت ۔ یہ پوری دنیا مادیت کے گرد گھومتی ہے اور یہاں صرف دیہاڑی بنانے کا معاملہ ہے ۔ سارے رشتہ ، پیار اور محبت ، نیلامی پر لگے ہوئے ہیں ، چند ٹکوں کی خاطر ۔ کتنی آسانی سے ، مال و دولت ، طاقت اور عہدوں کی بھینٹ چڑھا دیے جاتے ہیں ۔ الیزبتھ برگ اسی ناول میں لکھتی ہے ؛
Love and happiness are not for sale, that what is on your back and on your plate is second to what is in your heart ..
کیا کمال کی بات کی ، دل کو تو کوئی  لفٹ ہی نہیں ، جائے بھاڑ میں ، ایک ملین ڈالر کا بنگلہ بچ جائے اور ۴۵ کروڑ کی کلائی  والی گھڑی ۔ اور الیزبتھ نے یہ لکھ کر تو  اخیر ہی کر دی کہ۔۔
It was not wealth that brought contentment..
ڈینور میں امریکہ کی ایک مشہور pagan لکھاری میلانی مارکوئز رہتی ہے ، وہ مجھے اکثر کہتی ہے کہ  اس کا دل کرتا ہے کہ  وہ یا mermaid بن جائے یا پھر کسی تمہارے جیسے لکھاری کے ساتھ صحرا میں منتقل ہو جائے ، رات کو ستاروں سے باتیں کیا کرے اور دن کو کتابیں لکھا کرے ۔
یہ کہانیاں ہی زندگی ہیں ، لیکن وہ کہانیاں جو دل کے ساتھ لکھی گئی ہوں جو سچ پر مبنی ہوں چاہے وہ سچ جتنا مرضی تلخ یا ناقابل قبول ہو ۔ وہی اصل زندگی ہے ، جسے الیزبتھ برگ کہتی ہے ؛
Life not Lived in Truth is Life Forfeited…
جی ہاں ، باقی سب دھوکہ ہے ، فراڈ ہے ، illusion ہے ۔ اس سے خدارا بچیں ، آپ کی شناخت آپ کی پوتر روح ہے وہی رب کے ساتھ منسلک ہے اور پوری کائنات کی  اکائی کے ساتھ بھی ۔
بھلُیا رب اوناں نُوں ملدا
بھی نیتاں جیناں دیاں سچیاں
He is only found by those who are pure at heart

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply