ایک پرانی تصویر۔۔عاطف ملک

ایک پرانی تصویر کسی نے بھجوائی ہے تو کیا کیا یادیں بھاگی بھاگی آن پہنچی ہیں۔ یہ زندگی شروع کرتے کچھ لڑکے اکٹھے کھڑے ہیں۔ لڑکے؟ مرد ؟ نوجوان؟ یہ کون ہیں، یہ تو عام سے لڑکے ہیں، گندمی رنگ، بال سنوارے، شیو بنائے، داڑھی مونچھ تراشے، عام سے لڑکے، کسی گلی کے موڑ پر کھڑے آوارہ گرد، روایتی، رواجی سے لڑکے۔ ان جیسوں سے ہر بازار بھرا پڑا ہے۔ غور سے دیکھیے، تصویر پر توجہ دیجیے۔ کچھ نظر آیا؟ ان کی آنکھوں کی چمک دیکھیے۔ یہ کون ہیں؟

یہ بکھری کہانیاں ہیں؟ یہ زندگی شروع کرتی کچھ کہانیاں ہیں، کہانیاں، جی کہانیاں، متوسط طبقے سے تعلق رکھتے، اپنے وطن سے ہزاورں میل دور، ایک اجنبی زبان بولتے بیگانے معاشرے میں روشن مستقبل کی آس میں اپنے گھر بار سے دور نکلے طالب علم ہیں۔ طالب علم ؟ نہیں، یہ طالب علم نہیں ہیں۔ کیوں جھوٹ بولتے ہو، یہ محنت کش ہیں، مزدور، مستقبل کی اُجرت کے وعدے پر پہاڑ کاٹتے تیشہ زن ہیں، یہ کان کن ہیں۔ مجھ سے مت جھوٹ بولو، یہ طالب علم نہیں ہیں۔ انہوں نے دیارِغیر میں پڑھنا ہوتا ہے، اپنا خرچہ نکالنا ہوتا ہے، اپنی فیسیں ادا کرنی ہوتی ہیں، پیچھے دیس میں منتظر خاندان کے لیے پیسے بھجوانے ہوتے ہیں، اپنی گیلی آنکھیں خشک کرنی ہوتی ہیں۔ مجھ سے جھوٹ مت بولو، یہ طالب علم نہیں ہیں، یہ محنت کش ہیں۔

یہ بکھری کہانیاں ہیں۔ کہانیاں جو کبھی یکجا ہوئی تھیں اور اب نگر نگر بکھر گئی ہیں، نگر نگر، قریہ قریہ، ادراہ بہ ادارہ، ائیر بس کی کمپنی سے یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا تک اب یہ کہانیاں بکھری ہیں۔

یہ تصویر یونیورسٹی کے سالانہ عالمی فوڈ فیسٹیول کی ہے، جب یونیورسٹی میں دیس دیس سے آئے طالبعلم اپنے علاقوں کا کھانا پکا کر لاتے ہیں۔ جب برازیلی طالبعلموں کے سٹال سے گڑ مل جاتا ہے، ترک طالبعلم لسی کے گلاس پیش کررہے ہوتے ہیں، پاکستانی چنے اور بریانی لگائے ہوتے ہیں، تب پتا لگتا ہے کہ بکھرنے کے باوجود اولادِ آدم ایک ہی ہے۔
فوڈ فیسٹیول کے بارے میں بات پھر کریں گے، مجھے اس تصویر کے بارے میں بتاؤ۔ سندھی ٹوپی پہنے سے لے کر دائیں طرف دیکھتے لڑکے سب کی کہانی سناؤ۔
کہانیاں لمبی ہیں۔ کہانیاں لمبی ہی ہوتی ہیں۔ مختصر کہانیاں بھی لمبی ہوتی ہیں، تم نے سنا نہیں کہ ہلکے کفن ہی سب سے بھاری ہوتے ہیں۔

میں تمہیں ان لڑکوں کی کہانیاں نہیں سنا سکتا، مگر چلو تمہیں میں اس تصویر کا بتاتا ہوں۔ ان میں ایک لڑکا مین ریلوے اسٹیشن کے سامنے اٹالین ریسٹورنٹ میں کام کرتا ہے، ہر شام چار بجے سے رات ایک بجے تک،یہ وہاں برتن دھوتا ہے، میزیں صاف کرتا ہے، گندی پلیٹیں اٹھاتا ہے، گوشت، پیاز کاٹتا ہے، آگ کے سامنے کھڑے ہوکر برا بھلا پکاتا ہے۔ کبھی کھڑے ہونا پھر تمہیں پتہ لگے گا کہ ٹانگیں بھی بولتی ہیں۔

ٹانگیں؛ اٹالین ریسٹورنٹ کے ساتھ والی سڑک پر تمہیں کئی ٹانگیں نظر آئیں گی، ننگی ٹانگیں۔ مین ریلوے اسٹیشن کے ساتھ کا علاقہ نشیوں، جواریوں، طوائفوں کا علاقہ ہے۔ اس سڑک پر ہر دو قدم پر طوائفیں کھڑی ہیں، ننگی ٹانگوں اور کھلے گریبانوں کے ساتھ، ہر آتے جاتے کو پُر امید نگاہوں سے دیکھتیں۔ عجب ڈائیلما ہے، پُرامید نگاہوں کو جُھٹلانا بھی عجب مشکل ہے۔ کبھی کسی سے بات کرکے پوچھنا، وہ تمہیں بتائے گی کہ کھڑے ہو تو پتہ لگتا ہے کہ ٹانگیں بھی بولتی ہیں۔

اس تصویر کے لڑکوں میں سے ایک ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ، جی وہی ٹوبہ ٹیک سنگھ جس کے بارے میں منٹو نے پاگل بشن سنگھ کے حوالے سے اپنے افسانے میں لکھا تھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ ہجرت ہو جائے تو پتہ نہیں لگتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ نقشے سے اتر کر دل میں شہر آبستا ہے، اور آخر میں بشن سنگھ کی مانند سوجی ٹانگیں وزن نہیں اٹھا پاتیں اور زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا نام نہیں ہوتا مسافر گر پڑتا ہے۔ سنیں، تو ٹانگیں بھی بولتی ہیں، بس سننے کی حس ہونی چاہیے۔

اسی تصویر میں ایک اور بھی کھڑا ہے، وہ جو منفی نو درجہ حرارت میں اپنی دو سال کی بیمار بیٹی کو لے کر ڈاکٹر کی کلینک کو نکلا تھا۔ منفی نو، یہ بھی کیا درجہ حرارت ہوتا ہے۔ درجہ حرارت ؟ کیوں جھوٹ بولتے ہو، حرارت تو منفی نو میں کہیں نہیں ہوتی۔
سنو، تحقیقات کو چھوڑو، کہانی سنو۔
وہ اور اس کی بیوی بس سے بیمار بچی کو لے کر ڈاکٹر کو کلینک کو جارہے تھے اورغلط سٹاپ پر اتر گئے۔ غلط سٹاپ پر اتر جاو تو خمیازہ تو بھگتنا پڑتا ہے۔
سخت سردی یا منفی نو کہوں؟ منفی نو ہی کہو۔
جی، منفی نو میں وہ دونوں کئی کلومیٹر بیمار بچی کے ساتھ برف میں پیدل چلے تھے کہ اُن کے پاس صرف واپسی کے ہی پیسے تھے۔ جوتے برف میں گیلے اور ٹانگیں چور ہوگئی تھیں۔ سالہا سال گزر گئے مگر وہ وقت اُن میں جم سا گیا ہے۔
تم درست کہہ رہے ہو، یہ طالب علم نہیں بلکہ محنت کش ہیں۔
مگر ان کی آنکھیں دیکھو، انکی چمک بتاتی ہے کہ کہانیاں اور بھی ہیں۔

بالکل، کہانیاں اور بھی ہیں۔ یہ چمک بتاتی ہے کہ یہ شرارتی لوگ ہیں۔ ٹھیک کہہ رہے ہو، شرارت ضروری ہے۔ شرارت نہ ہو تو تھکا آدمی بہت تھک جاتا ہے، اور پھر تھکے، گرے آدمی کو اٹھایا نہیں جاسکتا۔

اس تصویر میں کہانیاں ہیں، پانامہ کی رہنے والی خوبصورت لڑکی کی کہانی، جو جب ہنستی تھی تو ارد گرد ہنستا تھا، جب وہ مسکراتی تھی تو تھکے ہارے بھی مسکرا اٹھتے تھے۔ وہ اس تقریب میں شریک تھی۔ وہ اسی تقریب میں تھی جب اُسے اِن سامنے کھڑے دو شرارتیوں نے راضی کیا تھا کہ وہ سب کے سامنے اُن میں سب سے کم گو کے گال کو چوم کر اُس سے لپٹ جائے گی۔ اور پھر کیا ہنگامہ ہوا تھا۔ بے فکروں کے قہقے اور اردو کی گالیاں سب فضا میں ایسی ملی ہوئی تھیں کہ علیحدہ نہ ہو پائیں۔ کم گو کچھ ایسا بھی کم گو نہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سے اگلی کہانی بھی دلچسپ ہے کہ ایک بھارتی ناری اور دو پاکستانی عشاق دو بدو تھے۔ کہانی دلچسپ اور رنگین بھی ہے کہ وجود زن سے تصویر کائنات میں ہی نہیں کہانی میں بھی رنگ آجاتا ہے۔
اگلی کہانی کب سناو گے۔ جلد ، کہ کہانی نہ سنا پانا بڑا جرم ہے۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply