لیاری۔۔۔ذوالفقار علی زلفی/قسط8

بی ایس او کی تقسیم پر سینکڑوں صفحات لکھے جاچکے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گےـ 1967 کی اس صاف ستھری حماقت کا بار کسی نے سردار کے گلے ڈالا اور کوئی اسے مڈل کلاس کے کندھوں پر تلاش کرتا رہاـ افسوس ہے تو بس اتنا یہ تقسیم کراچی کی فضاؤں میں ہوئی اور طلبا قوت کو دو متحارب دھڑوں میں تقسیم کرکے لیاری میں قومی سیاست کا جنازہ نکال دیا گیاـ

میر غوث بخش بزنجو زیرک سیاست دان تھے مگر وہ اس معاملے میں قائدانہ کوتاہی کے مرتکب ہوئےـ مانتے ہیں قبائلی سماج کے بنیادی اصولوں کے تحت طلبا کو سیاسی میدان میں مادر پدر آزادی دینا سرداروں کے لئے ممکن نہ تھاـ ان کی سیاسی مجبوری مادی لحاظ سے قابلِ توجیح ہے مگر میر بیزن بزنجو اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کے ذریعے طلبا سیاست کو زیرِ نگیں لانے کی جو کوشش کی گئی اس سے بزعمِ خود دانش ور طلبا کا مشتعل ہوکر ردعمل کی سیاست میں کودنا فطری تھاـ نیپ کو جلد بازی سے کام لینے کی چنداں ضرورت نہیں تھی، بی ایس او، لینن گراڈ اور ادبی تحریک کے سہارے ہی چل رہی تھی اور یہ دونوں دھارے نیپ کے ہمنوا تھےـ جلد یا بدیر بی ایس او کو نیپ کی چھتری تلے آنا ہی تھاـ سردار کی قبائلیت اور آمرانہ مزاج کو مگر کہاں رکھا جائے؟

تکلیف دہ امر یہ ہے تقسیم کے عمل میں مڈل کلاس سیاست کی نمائندگی کے دعویدار بزنجو نے پرجوش حصہ لیاـ بزنجو دھیرج رکھتے تو نہ عبدالرحیم ظفر کو موقع ملتا اور نہ ہی نام نہاد اینٹی سردار گروپ بھٹو کے قدموں میں سجدہ ریز ہوکر بلوچ طلبا قوت کا شیرازہ بکھیرتاـ اینٹی سردار گروپ یقیناً غلط جگہ کھڑی تھی مگر اسے وہاں تک پہنچانے کی ذمہ داری بابائے استمان کی جلدبازی پر عائد ہوتی ہےـ نیپ نے بلوچستان کو قابو میں رکھنے کے لیے لیاری بھٹو کو بخش دی ـ دلچسپ بات یہ ہے مکران کا بلوچ سیاسی کارکن آج بھی معصومیت سے پوچھتا ہے لیاری جئے بھٹو کی بجائے جئے بلوچ کی طرف کیوں نہیں آتا؟ تاریخ کا غیر مادی مطالعہ اسی قسم کے نتائج تک ہی پہنچاتا ہےـ

بی ایس او تقسیم کے بعد دو دھڑوں میں بٹ گئی ـ اکثریتی حصہ نیپ کی حمایت میں سردار کی ہم قدم ہوگئی اقلیتی گروہ نے پیپلزپارٹی کو چُن کر سرکار کی بس پکڑ لی ـ وہ طلبا جو شبِ ظلمت کو شکست دینے نکلے تھے آپس میں ہی بھڑ گئےـ لیاری کے بیشتر سیاسی کارکن نیپ سے ہی وابستہ رہے مگر تقسیم نے ان کو کافی حد تک کمزور کردیا تھاـ بحث کا رخ لیاری کی فکری ترقی سے ہٹ کر ماسکو بیجنگ اور سردار و اینٹی سردار کی جانب نکل گیاـ

دونوں گروہوں کے پاس کراچی کے بلوچوں کے حوالے سے کوئی پروگرام نہ تھاـ کراچی کا بلوچ حاشیہ نشین بنتا جارہا تھا، وہ شہر کی بدلتی ہوئی ڈیموگرافی سے خائف تھاـ نیپ کے قومی سوال سے اسے فکری سطح پر ہمدردی تھی مگر قومی سوال اس کا ترجیحی مسئلہ نہ تھاـ کراچی کے تضادات مختلف تھےـ لیاری شعوری لحاظ سے نیپ کے ہمراہ تھا ضرورت انتخابی میدان میں بھی اسے اپنے ساتھ جوڑنے کی تھی ـ انتخابی سیاست آخری تجزیے میں مقامی ہوتی ہےـ نیپ کے پاس مقامی ووٹر کے لیے کوئی پالیسی نہیں تھی ـ جئے بلوچ، جئے بلوچستان جیسے نعرے دلوں کو گرما سکتے تھے مگر بنیادی ضروریات کا ہرگز ہرگز مداوا نہیں بن سکتے تھےـ نیپ لینن اسٹ پروگرام کو لے کر محنت کشوں کو طبقاتی لحاظ سے منظم کرکے قومی سوال کو ساتھ لے کر چلتی تو شاید لیاری کے لیے اس کا ساتھ دینا ممکن ہوتا لیکن نیپ کی نظریں کوئٹہ پر تھیں ـ آگے چل کر نیپ کے رہنماؤں نے اپنے عمل سے اس کو طشت از بام بھی کردیاـ

1967 کو جہاں بی ایس او تقسیم کے مرحلے سے گزر رہی تھی وہاں دوسری جانب سندھی طلبا نے ون یونٹ کے خلاف جنگ کا طبل بجا دیاـ چار مارچ 1967 کو کمشنر حیدرآباد کے خلاف سندھی طلبا کے احتجاج کو جام ساقی اور بائیں بازوں کے دیگر رہنماؤں نے ایوب و ون یونٹ مخالفت کی جانب موڑ کر اسے سندھ بھر میں پھیلا دیاـ ون یونٹ کے خلاف سندھیوں کی تحریک لیاری کے غیر بلوچ علاقوں سے ہوتے ہوئے بلوچ خطے تک پہنچ گئی ـ اس تحریک نے لیاری کو جام ساقی اور رسول بخش پلیجو جیسے مزاحمتی رفقا دیےـ جام و پلیجو آخری دم تک لیاری کے دوستوں میں سے رہےـ رسول بخش پلیجو کے فرزند ایاز لطیف پلیجو نے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اپنے والد کی عوامی سوچ سے انحراف کر کے لیاری کےگینگسٹروں سے دوستی کی ـ ان کے اس عمل نے یقیناً عوام دوست پلیجو کو سخت دلی رنج پہنچایا ہوگاـ

لیاری معاشی اور ثقافتی دباؤ کا شکار تھاـ ایوب خان قابلِ نفرت شخصیت بن چکے تھےـ لیاری نے اپنا وزن سندھی تحریک کے پلڑے میں ڈال دیاـ اس تحریک کو بعد ازاں نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلزپارٹی کی حمایت بھی مل گئی ـ 1968 کو راولپنڈی میں پولیس کے ہاتھوں ایک طالب علم کے قتل کے بعد تحریک پورے پاکستان میں پھیل گئی ـ عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی تحریک کے سب سے بڑے قائدین بن گئے ـ کراچی میں تحریک کا مرکز لیاری قرار پایا ـ یہ ایک انقلاب تھا ـ لینن گراڈ کے اراکین کا خواب ـ تحریک پر البتہ طبقاتی سوال سے زیادہ قومی سوال حاوی تھا ـ قومی سوال نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ اٹھا رہے تھے جسے چٹاگانگ ، ڈھاکہ، کوئٹہ، حیدرآباد اور لیاری کے بنگالی، سندھی، پشتون اور بلوچ طلبا کی پرجوش حمایت حاصل تھی ـ بائیں بازوں کے طلبا اور پیپلز پارٹی کا ایک حصہ معاشی مساوات کا نعرہ لئے لڑ رہے تھے ـ شہری سندھ میں مذہبی جماعتوں اور ان سے وابستہ اردو اسپیکنگ کا رویہ البتہ قومی شناختوں کی بحالی کے معاملے میں معاندانہ تھا ـ پنجاب تضادات کا شکار تھا ـ وسطی و شمالی پنجاب بنگالی اکثریت قائم ہونے کے خوف کے باعث صرف ایوب حکومت کے خاتمے اور معاشی اصلاحات کے حامی تھے ـ جنوبی پنجاب بالخصوص سابقہ ریاستِ بہاولپور کے سیاسی زعما صوبہ بہاولپور کی تحریک چلا رہے تھےـ

اردو اسپیکنگ کی اکثریت اسلام ، اردو اور نظریہ پاکستان جیسے غلط خیالات کو لے کر ون یونٹ کے خاتمے کو اپنے لئے خطرہ سمجھ رہی تھی ـ اردو بولنے والے چونکہ اسلام کے نام پر سندھ آئے تھے اس لئے قومی شناختوں کی بحالی انہیں کسی صورت منظور نہ تھا ـ اس سے وہ شناخت کے بحران میں پھنس جاتے ـ بعد کے سالوں میں یہی ہوا ـ اردو انٹلیجنشیا شناخت کے بحران میں پھنس گئی اور اس نے ایم کیو ایم کی صورت میں اسلامی شناخت تیاگ کر مہاجر شناخت کو اپنا لیا ـ ساٹھ کی دہائی میں کراچی میں پشتونوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جس نے 80 کی دہائی پہنچتے پہنچتے ایک بڑی قوت کا روپ دھار لیا ـ پشتون غلبے کے جھوٹے سچے خطرے نے اردو بولنے والے افراد کو اسی جگہ پہنچا دیا جہاں ان کی آمد کے وقت بلوچ کھڑے تھے ـ

ایم کیو ایم کی سیاست اور اس کے اثرات پر آگے چل کر بحث کریں گے ـ فی الحال ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں پیش آنے والے انقلابی صورتحال پر ہی توجہ مرکوز رکھنا بہتر ہوگا ـ نیپ کے بلوچ لیڈران نے لیاری کے ذریعے صوبہ بلوچستان کی بحالی کو اپنا ہدف بنا رکھا تھا جبکہ پیپلز پارٹی لیاری کے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کررہی تھی ـ اظہر من الشمس تھا لیاری کس نعرے کی جانب لپکے گا ـ فروری 1969 کو لیاری سے لاکھوں افراد پر مشتمل ایک عظیم الشان احتجاجی ریلی نکالی گئی جس نے بانی پاکستان کے مزار پر پہنچ کر جلسے کی شکل اختیار کرلی ـ یہ ریلی ایوبی حکومت کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ـ مارچ کا مہینہ کوئیک مارچ بن گیا ـ لیاری کے محنت کشوں نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کو ہڑتال کے ذریعے جام کردیا ـ محنت کشوں کی ہڑتالی تحریک نے جلد ہی پورے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ـ مارچ کے اواخر میں ایوب خان حکومت سے علیحدہ ہوگئے اور انہوں نے زمامِ اقتدار یحیی خان کے سپرد کردی ـ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا، یحیی خان نے مارشل لا لگا دیاـ

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply