• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یہ زبان جب تک کٹ نہیں جاتی،سوال کرتی ہی رہے گی۔۔۔سید عارف مصطفی

یہ زبان جب تک کٹ نہیں جاتی،سوال کرتی ہی رہے گی۔۔۔سید عارف مصطفی

کیجیے کریک ڈاؤن ، بڑے شوق سے کیجیئے اور اسی لیئے آج آغاز اسی بات سے کہ ہم قوم کو حقائق سے آگاہ کرنے اور سچ بولنے کی راہ میں کسی گرفتاری سے خائف نہیں حالانکہ بخوبی جانتے ہیں کہ حکومت نے اب اپنے اوپر کی جانے والی تنقید کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیئے سوشل میڈیا پہ کریک ڈاؤن کی آڑ میں ایسے ناقد ‘بدبخت گستاخوں’ پہ چڑھ دوڑنے اور انکی مشکیں کسنے کے لیئے پوری طرح کمر کس لی ہے ۔۔۔ لیکن ہم سوال اٹھاتے رہیں گے اور قوم کو جگاتے رہیں گے ۔۔۔ اچھی طرح سمجھ لیجیئے کہ ان سب ظالمانہ اقدامات کے باوجود حکومت کے سامنے یہ سوال ناگ کی طرح پھنپھنارہا ہے اور پھنپھناتا رہے گا کہ کیا گزشتہ 6 ماہ میں حکومت کی بے تدبیریوں ، احمقانہ اقدامات اور ظالمانہ کارروائیوں سے دلوں میں جنم لیتے غصے کو اس طرح کی کارروائیوں سے ٹھنڈا کیا جاسکے گا اور کیا وہ ان سوالات کے جوابات دینے سے بچ جائے گی کہ جو نوشتہء دیوار بنتے چلے جارہے ہیں ۔۔۔ِ آج اس دیوار پہ لکھا اہم ترین سوال یہ ہے کہ سعودی شہزادے کی آمد کے حوالے سے کیا کسی عام پاکستانی شہری کا یہ حق نہیں کہ وہ پوچھے کہ ایک غیر جمہوری ملک کے متنازع شہزادے کے استقبال کے نام پہ کیئے گئے اس قدر بے تحاشا و بے سر و پا خوشامدانہ اقدامات سے دنیا پہ ہمارے لیئے بحیثیت قوم کیا امیج بنے گا -؟

اصل صورتحال یہ ہے کہ 18 فروری کو طالبان کے وفد سے سعودی شہزادے کی مجؤزہ ملاقات کی خبریں سامنے آچکی ہیں اور ممکنہ مذاکرات کی کہانی سامنے آنے سے پاک سعودی الفتوں کے اس تازہ والہانہ پن کا یہ پول بھی کھل گیا ہے کہ یہ دورہ صرف پاکستان کی محبت میں کیا جارہا ہے ۔۔ جبکہ درحقیقت یہ دورہ اور یہ سب کاوشیں امریکی فرمائش پہ طالبان کو ایرانی کیمپ میں جانے سے روکنے کی ایک سرتوڑ کوشش سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور اس معاملے میں پاکستان اب بھی بظاہر اپنا وہی تاریخی رول ادا کررہا ہے کہ جسکے لیئے اسکی شہرت چار دانگ عالم میں ہے یعنی محض سہولت کار ۔۔۔ ادھر طالبان اب سعودی عرب اور یو اے ای سے قطعی بیزار ہوچکے ہیں اور انہیں محض امریکی پٹھو باور کرنے لگے ہیں اور اسی سبب انہیں افغانستان کے امن مذاکرات سے باہر کیا ہے کیونکہ وہ امریکی ایماء پہ ان پہ مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ کٹھ پتلی افغان حکومت کو بھی اس بات چیت میں شامل کرلیں – یہاں ان مذاکرات کے حوالے سے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اگر پاکستان کی حکومت چاہتی تو وہ ان مذاکرات میں سہولت کاری کے عوض امریکا سے اپنے بہت سے اہم قومی مفادات کی بجاآوری کے لیئے بہت کچھ حاصل کرسکتی تھی جن میں کشمیرکا مسئلہ حل کرانے کے فول پروف اقدامات کا مطالبہ سر فہرست رکھا جاسکتا تھا اسکے علاوہ اسکے دباؤ پہ بھارت سے پانی کے تنازع پہ بھی دو ٹوک مثبت پیشرفت کی جاسکتی تھی لیکن صد حیف کہ بیوروکریسی اور کابینہ میں موجود امریکہ کے کئی دیسی پٹھوؤں نے اس نازک وقت کچھ بھی دینے پہ آمادہ اپنے آقا کو صاف بچالیا اور پاکستانی حکومت کی جانب سے ایسے مطالبات کو سامنے رکھنے ہی نہیں دیا۔

تازہ دورے کی طرف آتے ہیں ۔۔۔ جہاں تک سعودی شہزادے کے اس دورے کے فوائد کا تعلق ہے تو اس دورے کو مختصر کردینے کے بعد اسکے افادی امکانات بھی مختصر ہوگئے ہیں کیونکہ اب سعودی عرب پہ اچانک اسکے دو سب سے بڑے پارٹنرز یعنی امریکا اور بھارت کا دباؤ بہت بڑھ گیا ہے جسکا سبب یہ ہے کہ کشمیر میں پلوامہ حملے میں بھارت کی جانب سے پاکستان کو ملؤث کرنے اور امریکا کی جانب سے بھی اسی کی زبان بولنے کے بعد صورتحال بہت حد تک بدل گئی ہے- واضح رہے کہ سعودی عرب 28 ارب ڈالر کی تجارت کے ساتھ بھارت کا چوتھا بڑا بزنس پارٹنر ہے اور پلوامہ کے واقعے کے بعد بھارت اور امریکا کے دباؤ کے نتیجے میں اب 17 فروری کو ہونے والی وہ مشترکہ سعودی بزنس کا نفرنس بھی منسوخ کردی گئی ہے کہ جس میں 8 بڑے معاشی منصوبوں کی منظوری ہونےوالی تھی- یوں اس منسوخی سے اس بات کے امکانات بہت کم رہ گئے ہیں کہ  اب اقتصادی طور پہ کوئی بہت بڑا اور حقیقی بریک تھرو ہوسکے گا البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ محض اشک شوئی کے لیئے نمائشی اعلانات سے ہی کام چلا لیا جائے گا –

Advertisements
julia rana solicitors

مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ اب سعودی سرمایہ کاروں کا وہ وفد جوپاکستان آرہا تھا اب اسلام آباد نہیں آرہا بلکہ 19 فروری کو سیدھا بھارت جارہا ہے کہ جہاں وہ بھارت سے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے اقتصادی منصوبے یعنی وہاں 44 ارب ڈالر کی ریفائنری لگانے اور متعدد بڑے پروجیکٹس کا آغاز کرنے کے لیئے اپنی تجوریوں کے منہ کھولے گا- سعودی شہزادے کی اس قدر خوشامد کے باوجود اس نے اپنے میزبان کے جذبات کی مطلق پرواہ نہیں کی اور پلوامہ واقعے کے بعد اپنے دو روزہ دورے کو یک روزہ کرکے صاف بتادیا ہے کہ انکی نظر میں ہم مساکین کی کیا وقعت ہے ۔۔۔ جبکہ در حقیقت کسی بھی میزبان کے لیئے یہ کس قدر تذلیل کی بات ہے کہ اسکا کوئی مہمان اسکے گھر آنے کا پروگرام تو مختصر کرکے آدھا کردے لیکن اسکے دیرینہ حریف کے دورے میں ایک منٹ کی بھی کمی نہ کرے ۔۔۔ اس قدر بے توقیری بلکہ بیعزتی کے بعد بھی کون احمق ہے جو یہ نہیں سمجھے گا کہ انکے اس وائسرانہ انداز کے دورے کے اصل مقاصد کیا ہیں۔۔ جبکہ ہماری حکومت کے غدودان خوشنودی تواس حد تک لیسدار ہوچکے ہیں کہ ان میں لتھڑ کے قومی وقار اور عزت نفس جیسے تصؤرات آلودہ بلکہ مسخ ہوچلے ہیں کیونکہ ارباب اقتدار نے سعودیہ کو مغرب کے رنگ میں رنگ ڈالنے والے اقدام کرنے والے اس شہزادے کی تکریم اب س حد تک بڑھا دی ہے کہ کبھی کبھی تو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ معاذ اللہ کہیں سرکاری پریس ریلیزوں میں انکے نام کے ساتھ علیہ السلام کا اضافہ ہی نہ کردیا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”یہ زبان جب تک کٹ نہیں جاتی،سوال کرتی ہی رہے گی۔۔۔سید عارف مصطفی

  1. تو پھر آپ کے خیال میں کیا ہونا چاہییے محترم ۔کیا کہیں انہیں کہ تم 44 ارب بھارت میں کر رہے ہو انویسٹ تو ہمیں تمہارے 20 ارب نہیں چاہییے۔چکو اپنی نویسٹمنٹ تے دوڑو ایتھوں ۔یار مطلب حد ہے ۔کونسی غیرت کی بات کر رہے آپ وہ جو امریکہ جاتے ہوئے پینٹ اتروانے پہ آئی تھی یا وہ جو ہار چراتے ۔سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کیلیے یا اپنی ذات کیلیے یہ سب خوشامدیں نہیں کر رہا وہ آپ کے اور میرے بچوں کے مستقبل کیلیے کر رہا ۔باقی آپ ان کو آئینہ دکھانے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانکیں اور خود سے پوچھیں کہ کیا واقعی آپ نے یہ سب غیر جانبدار ہو کے لکھا ہے ؟

Leave a Reply