پنجاب کا درویش صفت گورنر۔۔۔۔ محمد ابو سفیان اعوان

دنیا میں نابغہ روزگار شخصیات صدیوں کے بعد پیدا ہوتی ہیں۔ جو اپنے کردار و عمل سے حقیقی معنوں میں دنیا بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اگرچہ دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن وہ صدیوں تک قوموں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ “دلوں میں زندہ رہنے والا کہاں مرتے ہیں”۔۔ یہ لوگ بجا طور پر قابل فخر اور قابل تقلید ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا نام سردار عبدالرب نشتر ہے۔

سردار عبدالرب نشتر 13 جون 1899 کو پشاور کے محلے کاکڑاں میں عبدالحنان خان کاکڑ کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1918 میں مشن ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایڈورڈ کالج سے گریجویشن کی۔ 1925 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ زمانہ طالب علمی میں تحریک خلافت میں بھر پور انداز میں شرکت کرتے رہے۔ 1928 میں انڈین نیشنل کانگریس کی رکنیت حاصل کی مگر کچھ ہی عرصے بعد کانگریس کی دوغلی پالیسیوں سے متنفر ہوکر 1932 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔

آپ تحریک پاکستان کے عظیم راہ نما اور قائد اعظم کے معتمد خاص تھے۔ تحریک قیام پاکستان کے دوران سردار صاحب کی عظیم خدمات ہماری تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ پاکستان کو قائم کرنے اور اسے مستحکم بنانے میں جن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا آپ ان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ سردار عبد الرب نشتر بڑے صاحب بصیرت،دورس نگاہ اور ایماندارانہ سیاسی نظریات کے حامل تھے۔ آپ کی شخصیت بڑی جاذب نظر تھی۔ علم و ادب سے آپ کو بڑا لگاؤ تھا اور شاعری کا بھی بڑا شغف تھا آپ “نشتر” تخلص استعمال کرتے تھے۔ آپ قائد اعظم اور علامہ محمد اقبال کے خیالات و جذبات کے امین تھے۔ آپ اعلیٰ پائے کے مقرر،مخلص لیڈر اور فہم و فراست سے مالا مال تھے۔ آپ کی تقریر محبت،بھائی چارے،حسن سلوک اور اسلامی تعلیمات سے مزین ہوتی تھی۔ آپ بڑے سلیقہ مند،شائستہ اور مخلص انسان تھے۔ تجربہ کار سیاستدان ہونے کے باوجود ان کا دل اقتدار اور دولت کی ہوس سے پاک تھا۔ ان کی سیاست پاکیزہ بے لوث اور بندگانِ خدا کی خدمت کے جذبے سے بھرپور تھی۔

آپ 1929 میں پشاور میونسپل کمیٹی کے انتخاب میں ممبر منتخب ہوئے۔ 1939 میں سرحد کے وزیر مالیات مقرر ہوئے۔ آپ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی عبوری کابینہ میں مسلم لیگ کے وزیر منتخب ہوئے۔ 1946 کی شملہ کانفرس قائد اعظم جن تین راہ نماؤں کو لیکر گئے تھے آپ بھی ان میں شامل تھے۔ آپ نے ہندوؤں کی “شدھی” اور “سنگھٹن” کی تحریکوں کے مقابلے کے لیے “ادارہ تبلیغ اسلام” بنایا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مرکزی کابینہ کے رکن  اور بعد ازاں سر فرانسس موڈی کے بعد  اگست1949سے نومبر1954تک پنجاب کے گورنر رہے۔ آپ پنجاب کے پہلے مسلمان گورنر تھے۔ قرار داد مقاصد کی منظوری میں بھی آپ کی خدمت قابلِ ذکر ہیں۔ 1954 میں آپ نے مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی اور اسے ایک فعال جماعت بنانے میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔

سردار عبد الرب نشتر کی زندگی باکردار انسان کی زندگی تھی۔ آپ سیاست کو عبادت سمجھتے تھے۔ آپ کے دوست دشمن سبھی کہتے ہیں کہ آپ دیانتدار تھے،مخلص تھے،ایثار پیشہ تھے،لسانی اور فرقہ ورانہ تعصبات سے پاک تھے،جمہوریت اور قانون پسند تھے۔ دوران وزارت آپ عام لوگوں کے حالات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے بغیر کسی پروٹوکول کے ان کے پاس خود جایا کرتے تھے۔ آپ اختیارات کے ناجائز استعمال کے انتہائی خلاف تھے۔ آپ کی عملی زندگی آپ کے اصولوں کی پاسداری کی اعلیٰ مثال ہے۔
آپ فوج کی سیاست میں دلچسپی کی انتہائی خلاف تھے آپ کے بقول “فوج پر بڑی اہم زمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔پاکستانی فوج کو یہ جانتے ہوئے کہ ان کے پڑوس میں بھارت،افغانستان اور روس موجود ہیں جن سے ہمارے تعلقات روز اول ہی سے خراب ہیں ان حالات میں اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے فوج کو اہم زمہ داریوں کی طرف توجہ دینی ہوگی اور سیاست سے دوری اختیار کرنا ہوگی”

ایک اور جگہ آپ نے کہا کہ   “مجھے شبہ کہ فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اور انہوں نے کئی جگہوں پر اظہار کیا ہے کہ سویلین حکومت نہیں چلا سکتے۔ان کی یہ سوچ نادانی پر مشتمل ہے۔میرا خیال ہے کہ اگر فوج نے کبھی سیاست میں آنے کی کوشش کی تو اس دن سے پاکستان کی فوج اور ملک کا زوال شروع ہو جائے گا”۔ اور بعد ازاں ان کی یہ بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ قوم کے ہمدرد اور غمخوار،تحریک آزادی پاکستان کے سرگرم کارکن اور نوازئیدہ پاکستان کے استحکام کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دینے والا یہ عظیم انسان 14 اگست 1958 کو دنیا سے رخصت ہوا  اور مزار قائد کے احاطے میں دفن ہوا۔
آپ کی عظیم شخصیت سیاست دانوں اور ارباب اقتدار کےلئے روشن مثال ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج‌ہاۓ گراں مایہ کیا کیے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply