گڈانی شپ بریکنگ یارڈ واقعات در واقعات۔۔۔شبیر رخشانی

نہ جانے وہ دن کب آئے گا جب لوگوں کو آزادی ملے گی ۔ معاشی، سیاسی، سماجی آزادی۔ یہ وہ آزادی ہے جو سرحدوں کے محتاج نہیں۔ سرحدوں کے آر پار بسنے والا ہر آدمی ہر نئے دن آزادی کا گیت گا کر نکلتا ہے شام تلے تھکا ہارا گھر واپس لوٹتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں یہ چاہتے کیا ہیں ان کی خواہش آخر کیا ہوتی ہے؟ یہ مزدور لوگ ہیں ان کا ایک ہی نعرہ ہے۔ معاشی آزادی اور مساوات معاشی آزادی اور مساوات ہی ان کا نعرہ ہے اور یہی ان کا خواب ہے۔ وہ روز اپنے آپ سے لڑ رہے ہوتے ہیں حالات سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ معاشی استحصال کے خلاف دل ہی دل کے اندر نعرہ بلند کرتے ہیں۔ بسا اوقات یہ نعرہ زبانوں پہ آتے آتے رک جاتا ہے یہ سوچتے سوچتے رک جاتے ہیں کہ کہیں ان کا نعرہ ان کے بچوں سے روٹی کا نوالا چھینے جانے کا سبب نہ بن جائے۔

مزدوروں کے خواب بھی عجیب ہوتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا خواب۔ پیٹ بھر کر کھانا کھانے کا خواب اور سکون کی نیند سونے کا خواب۔ لیکن نہ ان کا پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی انہیں کل کے جینے کا خواب سکون کی نیند سونے دیتا ہے۔ آخر وہ کونسی چیز ہے جو انہیں استحصال سے آزادی دلا سکتی ہے۔ انہیں بے رحم موجوں سے بچا سکتی ہے سرمایہ دارانہ اور طبقاتی نظام کے شکنجے سے آزادی دلا سکتی ہے۔ انہیں برابری کے حقوق دلا سکتی ہے۔ چاروں طرف نظر دوڑائیں تو مایوسی کی لہر میں بظاہر کہیں بھی امید کی کرن نظر نہیں آتی لیکن یہ صورتحال دائم نہیں رہ سکتی کیونکہ ایسا ہونا سماجی ارتقا کے سائنسی قوانین کی نفی ہوگا. اور مزدور جلد یا بدیر سماجی تبدیلی کی فیصلہ کن جنگ لڑیں گے.

اگرچہ صورتحال انتہائی خراب ہے جس کی حالیہ مثال گڈانی شپ بریکنگ میں ایک بار پھر سے ہونے والا سانحہ ہے۔ سات مزدور جھلس گئے ہیں جن کی حالت تشویشناک ہے. اف خدایا۔۔ اب ان کا علاج کون کرے گا۔ ان کے زندگی بھر کا مداوا کون کرے گا۔ ان کے خواب ان کے آنکھوں میں ہی دفن ہو کر رہ گئے اب یہ زندہ بھی رہ جائیں تو کون انہیں مزدوری پہ رکھے گا۔ اب ان کی مثال وہی ناچنے والی کی طرح بن کر رہ جائے گی جو بڑھاپے کی لکیر پار کرتے ہی گنگرو کی جھنکار کھو دیتی ہیں۔ ان کی جگہ نئی ڈانسر لے گی ناچے گی پھر وہ بوڑھی ہوگی پھر اس کی جگہ نیا ڈانسر رکھ دیا جائے گا۔کیا یہ سلسلہ ازل تا ابد جاری رہے گا؟. ظالم استحصالی طبقات کا یہی خیال و منشا ہے لیکن ان کے مقابل محنت کش مظلوم طبقات کی جدوجہد کی تاریخ کچھ اور ہی بیان کرتی ہے.

بہرکیف گڈانی میں یہ پہلا سانحہ نہیں۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڑ میں آئے روز اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور مزدور اپنی زندگیوں اور اعضاء سے محروم ہوتے رہتے ہیں۔ میڈیا میں وہی خبر زیادہ اہم اور گرم رہتی ہےجس میں تعداد کا ذکر زیادہ ہو۔ سات افراد کا جھلس جانا ایک عام بات نہیں۔ سات گھرانے تباہی کے دہانے پہ پہنچ گئے۔ ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آئے گی۔ گھر والے زہنی ازیت کا شکار ہوں۔ پھر ان خانداندان پر کیا قیامت ڈھے جائے گی۔ اس پہ ایک طویل کہانی اور منظر نامہ بیان کیا جا سکتا ہے۔

نومبر 2016 میں بھی گڈانی شپ بریکنگ یارڑ میں آگ لگ گئی تھی۔ جس میں 23سے زائد مزدور جھلس کر مر گئے کئیوں کی راکھ تک نہیں ملی۔ شپ بریکنگ یارڈ ان سوختی مزدوروں کی کہانی دکھاتے دکھاتے تھک گیا۔ پوری دنیا نے منظر نامہ اپنی آنکھوں میں محفوظ کر لیا۔ مزدوروں کے بے پناہ احتجاج پرحقائق کو سامنے لانے کے لیے کمیشن بنایا گیاگو کسی حد تک شہید مزدوروں کے لواحقین کی اشک شوئی ہوئی لیکن معاوضہ کیونکر کسی زندگی کا ازالہ ہو سکتا ہے؟ ۔ پھر کیا ہوا۔ نتیجہ کیا سامنے آیا؟ گڈانی میں موت کا رقص تھم سکا؟ کسی کو انصاف ملا، نہیں نا۔ انصاف کا ترانہ بجایا گیا نہیں نا۔ مزدوروں کا استحصال ہوا۔ وقت کی بے رحم موجوں کے حوالے ہوئے۔ دو سالہ مسافت طے کرتے کرتے ایک اور سانحے نے جنم لیا۔ جھلسا دینے والا سانحہ۔ مزید سات افراد آگ کی نذر ہوگئے۔ تین کی حالت نازک۔۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے مزدور ایک بار پھر سے بے بسی کی تصویر بن گئے۔۔ ایک بار پھر سے کمیشن بنے گا۔ معاملے کو افہام و تفہیم تک پہنچانے کے لیے مشینری سرگرم ہوگی۔ کس کس کا نام لیا جائے کس کا نام روکا جائے یہ سب پہلے سے طے شدہ ہیں۔ بس کمیشن کا آنا باقی ہے۔ عمل تو نہیں کیا جائے گا۔

اس حوالے سے نیشنل ٹریڈیونین فیڈریشن کے رہنما کامریڈ ناصر منصور کا کہنا ہے کہ اس وقت گڈانی شپ بریکنگ یارڑ میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد تیس ہزار سے زائد ہوگی۔ لیکن مزدوروں کی سیفٹی کے لیے باقاعدہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے پالیسیز بنائی گئی ہیں پالیسیز متعلقہ اداروں تک پہنچائی گئی ہیں لیکن ان پالیسیز پہ عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔

دوسری جانب مالکان اور ٹھیکدران نے اپنا جال اس قدر مضبوطی سے پھیلا دیا ہے کہ مزدوروں کے لیے استحصال سے نکلنے کے راستے کم ہی نظر آتے ہیں۔ اور نہ ہی مزدور یونین اس طرح طاقتور نظر آتی ہے جو ان استحصالی طبقوں کے خلاف ایک مضبوط آواز بنے اور اپنی طے شدہ پالیسیز کو لاگو کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ اس بات کا اعتراف ایک اور مزدور یونین رہنما اور مصنف کامریڈ مشتاق علی شان بھی کرتے ہیں کہ اب تک جتنے کیسز لڑے یا جتنی بار آواز بلند کی گئی ہے ان کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے اور یہ روش ابھی جاری ہے۔متعدد بار شپ بریکنگ مالکان، ٹھیکہ داروں نے لیبر سے متعلقہ اداروں سے ساز باز اور رشوت کا بازار گرم کرتے ہوئے مزدوروں کی نمائندہ یونین کو ڈی رجسٹرڈ کرایا.

آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پہ انہیں تاحال کامیابی نہیں ملی ہے اس کا جواب وہ یوں دیتے ہیں کہ مالکان، ٹھیکداران نے مزدوروں کو دبائے رکھنے اورتقسیم کرنے کے لیے اپنا جال جس قدر مضبوطی سے پھیلایا ہے اس سے مزدور کو نکالنے میں ہمیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے جتنی بار اپنی یونین رجسٹرڈ کرانے کی کوشش کی ہے یہی طاقتیں مذاحمت کی دیوار بن کر سامنے آگئی ہیں۔ جس کا خمیازہ مزدور طبقات کو بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن یہ صورتحال بتدریج تبدیل ہو رہی ہے.
بہرحال محنت کش انسان کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں۔ اگر اسے اپنی طاقت کا اندازہ ہوجائے وہ مزاحمت کی دیوار بن کر لڑ سکتے ہیں۔ مزدور یونین لیڈران کو چاہیے کہ وہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والی مزدوروں کی پچاس فیصد تعداد کو یکجا کرنے اور انہیں آواز اٹھانے پہ آمادہ کر لیں۔ تو یقیناًوہ ایک اچھا نتیجہ فراہم کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر واقعات در واقعات اور انہی واقعات کا تدارک نہ کرنے کی صورت میں مزدور مزید مایوسی کا شکار ہوکر مزدور یونین سے لاتعلق ہو جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گڈانی سانحات کا ذمہ دار کون۔۔ واقعات کی تدارک کون کرے یہ وہ سوالات ہیں جو ہر واقعے کے بعد زہنوں میں پیدا ہوتے رہیں گے۔ لیکن ان سوالوں کو جواب کب اور کس سے مانگیں اور کون دے گا۔ یہ سوال اپنے آپ میں ایک الگ سوال ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply