چند تروڑے، ایک لاش اور اجتماعی خاموشی/محمود چوہدری

مقتول کی عمر صرف 21 سال تھی ۔آنکھوں میں خواب، دل میں امید اور قدموں میں تمکنت سجانے کی حسین ترین عمر ۔ لیکن اس کا قتل اتنی صفائی سے ہوا ہے ۔ اتنا خاموش او ر اتنا بے نشان ہے کہ دنیا کی کوئی عدالت ،کوئی جج، کوئی قانون اس کی ماں کے آنسو وں کا مداوا نہیں کرسکتا اس کے باپ کے دل کے زخم نہیں بھر سکتا ۔قاتل ہر روز سینہ تان کر ان کے سامنے سے گزرتا ہے ،ان کی چھاتی پر مونگ دلتا ہے اور وہ بے بسی کی تصویر اور پتھر کی مورت بن کر صرف تماشائی بنے رہ جاتے ہیں

جرائم کی تحقیق میں میڈیکل یا فورنزک رپورٹ میں جسم پر ہونے والے ہر تشدد ،ہر زخم اورہر دباؤ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن میڈیکل سائنس نے بھی ابھی اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ وہ ضمیر پر پڑنے والے دباؤ ، انا پر پڑنے والے پریشر اور عزت نفس پر لگنے والے گھاؤ کو ماپ سکے ، جانچ سکے ۔ یہ تخمینہ لگا سکے کہ انسانی ذہن کتنا پریشر برداشت کر سکتا ہے۔ ذلت وعزت میں ریڈ لائین کہاں سے شروع ہوتی ہے ۔جسم میں درد کے کچوکے تو ناپے جا سکتے ہیں لیکن وقار پر لگنے والی چوٹوں کی برداشت کی حد کیا ہے ۔ کیونکہ توہین اور تذلیل کوماپنے کی کوئی سوئی ،کوئی کانٹا ،کوئی ترازو، ابھی تک کسی ڈاکٹر ۔کسی بائیو میڈیکل انجنئیر نے ایجاد نہیں کیا ۔

مادو کا قتل اتنی صفائی سے ہوا ہے کہ کسی نو دولتیے چودھری کو سنائیں تو وہ حقارت سے کہتا ہے اب کمی ہماری بات نہیں مانیں گے تو یہ تو عام سی روٹین ہے ہم سب کرتے ہیں ۔ یہ واقعہ سندھ ، جنوبی پنجاب یا بلوچستان کے کسی وڈیرے کے ہاں نہیں ہوا بلکہ گجرات کے علاقہ ڈنگہ (دین گاہ ) میں ہوا ہے ۔ مادو کا تعلق مسافر برادری سے ہے جو چودھریوں کے ڈیرے پر چھوٹا موٹا کام کرکے اپنا گزارا کرتے ہیں ۔

کہانی شروع ہوتی ہے اس دن جب ایک نودولتیہ چودھری اپنی گندم کی بوریاں اٹھوانا چاہتا تھا۔ وہ حماد کے باپ کو بلانے آیا، لیکن گلی کے نکڑ پراسے حماد نظر آیا۔ حماد نے کہا، ابا آ رہا ہے، وہ کر دے گا تمہارا کام۔ بس یہی بات چودھری کو گراں گزری کہ اس کمی کمین کے بچے کی یہ مجال ، یہ جرات کہ مجھے انکار کر رہا ہے اس نے اسے گریبان سے پکڑا، گھسیٹ کر ڈیرے لے گیا ۔ پہلے تو اپنے مسٹندوں سے ملکر اس کی خوب دھلائی کی اور پھر اسے حکم دیا چل اٹھا ہمارے گندم کے تروڑے ۔

حماد نے کام شروع کر دیا ۔ لیکن تھوڑی دیر میں شور سن کر اس کے ماں باپ بھی بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے،۔ ہاتھ جوڑ کر منتیں کرنے لگے ۔ چھوڑ دیں معاف کردیں بچہ ہے ، نا سمجھ ہے ، آپ ہمارے مائی باپ ہیں ، آپ ہمار ے ان داتا ہے ، بچے کومعاف کردیں ، ابا بولا ہم اٹھا دیتے ہیں آپ کے تروڑے ۔

لیکن چودھری بھی اپنے تکبر کا غلام تھا ۔ اس نے حماد کو والدین کے سامنے دوبارہ مارا،گرمی ، پیاس اور ذدو کوب سے حماد کا حلق سوکھ گیا اس نے پانی مانگا لیکن نہیں دیا گیا ۔اور مارتے ہوئے کہا گیا پتر آئندہ تمہیں یاد رہے گا کہ کسی چودھری کا آکھا نہیں موڑتے

حماد مار بھی برداشت کر گیا ۔ پیاس بھی برداشت کر گیا تھا ۔ پسینہ اور مزدوری بھی برداشت کر گیا تھا لیکن جوضمیر کے اندر عزت کی کرچیاں بکھر گئیں تھیں ، جو دل میں انا کی توہین کے کلاٹ بن گئے تھے ۔ جو شعور میں توہین و تذلیل کے چنگارے پھیل گئے تھے ۔ وہ کیسےسنبھالے جاتے ؟

اس نے کام ختم کیا ۔ گھر پہنچا اور ذہن و دل کی اس لڑائی میں ہار مان گیا ۔ اس کی عزت نفس نے ذلت و روسوائی کے آلہ قتل کے سامنے سرنڈر کر دیا وہ سیدھا دوکان پر گیا چوہے مار گولیاں خریدیں اور انہیں کھا کر اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا ۔

چودھریوں نے ڈاکٹر سے سرٹیفیکیٹ بنوا لیا ہے کہ موت زہر سے ہوئی ہے ۔ اور تشدد کو پرچے سے ہی ہٹوادیا ۔ اب پولیس کو استعمال کر کے اس کے والدین کو راضی نامے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔ اس کی ماں کبھی کسی پولیس آفیسر کی کھلی کچہری میں دھاریں مار ہی ہے کبھی کسی مقامی صحافی کے سامنے دہائی دے رہی ہے

۔ حمادو منوں مٹی تلے دفن ہوگیا ہے کسی مبلغ سے فتوی ٰ لینے جائیں تو وہ اسے خود کشی قرار دے گا لیکن شاید کوئی بھی اس موت کا حقیقی تجزیہ نہ کرے ۔ یہ خود کشی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے منہ پر ایک تھپڑ ہے ایک تازیانہ ہے جو ہماری عقلوں پر پڑے ہوئے تکبر ، غروراور نخوت کو یہ بتانے کے لئے ہے کہ ہمیں پتہ چلے کہ عزت نفس ہر ذی روح کی ہوتی ہے ۔ یہ قتل ہمیں یاد دلاتا رہے گا کہ قتل کسی کے جسم کو اذیت پہنچا کر نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے ضمیر پردباؤ بڑھا کر بھی کیا جا سکتا ہے ۔ یہ واقعہ ہمیں سکھائے گا کہ ہر بچہ اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا اور اپنے بات کی امیدوں کا سہارا ہوتا ہے ۔ اسے ذلیل کرنا ، اس کی توہین کرنا اسے قتل کرنا ہی ہے

۔ یہ خود کشی نہیں ایک طمانچہ ہے اس نظام کے منہ پر جو ابھی تک چودھری اور کمی کی تفریق ختم نہیں کر سکا ۔ جہاں آج بھی لیبر لاء ، مزدور کے حقوق صرف کتابوں میں خواب بنے ہوئے ہیں ۔جہاں ابھی بھی ورکنگ آور اور کام کرنے یا نہ کرنے کی مرضی جیسے بنیادی حقوق کو دیوانگی سمجھا جاتا ہے

julia rana solicitors

میری پنجاب پولیس کےاعلی ٰ عہدیداران سے گزارش ہےکہ اس ماں کے آنسووں کا مداوا بنا جائے ۔ ورنہ ہم ایسی کئی لاشیں اٹھاتے رہیں گے اور انہیں خود کشی کانام دیتے رہیں گے

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply