اسلامی انقلاب آیا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمتوں بھرا ہوتا ہے، جب دنیا یہ سمجھ رہی ہوتی ہے کہ یہ کام ناممکن ہے تو اللہ اپنی قدرت و طاقت سے اسے ممکن بنا دیتا ہے۔ 1979ء سے ذرا پہلے کے حالات کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔ ایک حصہ امریکی قیادت میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کی چھتری تلے پناہ گزیں تھا اور دوسرا حصہ روس کی زیر قیادت اشتراکی نظام کو راہ نجات قرار دے کر اسے اپنی بقا سمجھ رہا تھا۔ عملی طور پر دنیا ان دو گروہوں میں بٹ چکی تھی اور فکری طور پر لادین قوتیں یہ سمجھ چکی تھیں کہ اب مذہب قصہ پارینہ بن چکا ہے، اسے عملی طور پر سیاسی نظام کی صورت میں کہیں بھی نافذ کرنا ممکن نہیں رہا۔ یہاں وہ بنیادی غلطی کر گئے، کیونکہ وہ مذہب کے مغربی معاشرے میں منفی کردار کی بنیاد پر انہی نتائج کو مشرق میں بھی حاصل شدہ سمجھ رہے تھے، حالانکہ مشرق میں محراب و منبر کا کردار مغرب میں کلیسا کے کردار سے یکسر مختلف تھا اور یہاں اسلام اور اہل اسلام نے استعماری قوتوں کے خلاف مذہب کی چھتری تلے مزاحمت کی تھی۔

اس وقت بہت سی اسلامی تحریکیں چل رہی ہیں، جن کے رہنما اور کارکن بڑے خلوص سے اسلام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔ اخوان المسلمین کو ہی لے لیں، 1928ء کو مصر کے شہر اسماعیلیہ میں اس کی بنیاد رکھی گئی، قربانیوں کی ایک تاریخ رکھنے والی یہ جماعت فکری طور پر پوری دنیا میں اثرات تو رکھتی ہے، مگر ابھی تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکی۔ جماعت اسلامی پاکستان بھی نفاذ اسلام کی جدوجہد میں سرگرم رہی ہے، 1942ء سے اسلامی شعور کے لیے سرگرم ہے، مگر ابھی تک حکومتی سطح پر کامیاب نہیں ہوسکی۔ مولانا مودودی اور جماعت کی اسلام کے لیے خدمات کا اعتراف اور ایک نسل کو بے دینی اور الحاد سے بچائے رکھنا ایک اہم خدمت ہے، اسی طرح کچھ قوانین کی اسلامائزیشن بھی بہت اہم ہے، مگر مکمل نظام نہیں لاسکیں۔

جب میں سوچتا ہوں کہ وہ کون سی ایسی چیز ہے، جو ایران کی اسلامی تحریک کو میسر تھیں، مگر دیگر جگہوں پر وہ موجود نہیں تو چند چیزیں سامنے آتی ہیں: سب سی پہلی چیز قیادت ہے، دیگر جگہوں پر موجود اسلامی قیادت کے خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا، مگر امام خمینیؒ کی شخصیت جیسی کوئی شخصیت کہیں موجود نہیں رہی، آپ ایک مسلمہ فقیہ، ایک مدبر، جو رموز سیاست کو جانتا ہے، دشمن شناس، اندرونی رسہ کشیوں سے دور، نصرتؒ خدا پر یقین رکھنے والے عظیم رہنما تھے۔ جب آپ کسی چیز کا فیصلہ کر لیتے تو اس کے مدمقابل کسی خطرہ کی پروار نہ کرتے تھے۔ دوسری چیز بقول ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کربلا ہے، دیگر اسلامی تحریکیں کربلا سے رہنمائی نہیں لیتیں اور اہل انقلاب کا متفقہ نظریہ تھا اور ہے کہ جو کچھ ہے، عاشورہ کی وجہ سے ہے۔ کربلا وہ جذبہ صادقہ عطا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان اپنے مال، جان اور عزیز و اقارت کی پروار کیے بغیر قربان ہونے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

مولانا اسحق مدنی نے درست فرمایا تھا کہ بہت سی اسلامی تحریکیں امام حسینؑ کی تحریک پر سوالات اٹھاتی ہیں اور اسلامی نظام کے لیے کوشاں ہونے کی دعویدار بھی ہیں، یہ کبھی کامیاب نہ ہوں گی، یہ ان کی بے برکتی کی وجہ ہے۔ تیسری بات امام خمینیؒ نے سیاسی جماعت بنا کر حزب کو کامیاب کرانے کی تحریک نہیں چلائی بلکہ پوری قوم کو چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ سے ہو، سب کو تبدیل کرنے کی بات کی ہے۔ چوتھی چیز مخلص اور تربیت یافتہ ساتھیوں کا فراہم ہونا ہے۔ امام خمینیؒ کے شاگرد اور ساتھی ان کے ساتھ ان کے مشن میں انتہائی مخلص تھے، اس لیے شہید ہوئے، جیلیں کاٹیں، مال و اسباب لٹوائے مگر ہر حالت میں آپ کے ساتھ رہے، اس کے ساتھ ساتھ فرمانبردار اور ییروکار بھی ملے، جو آپ کے حکم پر ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے تھے اور سینے پر گولیاں کھاتے تھے۔ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے یہ اہم ترین عامل ہے کہ اس کے کارکن اس کے لیے جان افشانی سے کام کر رہے ہوں۔

وسعت اللہ خان معروف صحافی ہیں، بی بی سی اور پاکستان کے معروف اخبار ایکسپریس میں لکھتے ہیں، انہوں نے اہم سوال اٹھایا کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے کونسا ماڈل تشکیل دیا، جس سے دنیا یا اہل ایران متاثر ہوں؟ اس کے جواب میں انہوں نے پچھلی صدی میں آنے والے کچھ انقلابات جیسے انقلاب روس، انقلاب فرانس اور انقلاب چین کا تذکرہ کیا اور ان کے نتیجے میں ان ممالک اور ان انقلابات کے دیگر ممالک کے اثرات پر بات کی۔ انقلاب اسلامی ایران نے کیا دیا، کے جواب میں انہوں نے صحت اور تعلیم کے شعبے میں انقلاب کی بات کی۔ یہ بات درست ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد تعلیم اور صحت کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں، مگر اس کی آڑ میں اس انقلاب کے نظریاتی پہلووں اور دنیا پر اس کے اثرات کو پس پشت ڈالنا زیادتی ہوگی۔

انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کے دو قطبی ہونے پر کاری ضرب لگائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یورپی ماہرین نے مذہب کو آوٹ ڈیٹڈ چیز قرار دے کر مذہب کی بنیاد پر کسی بھی ریاستی نظام کی تشکیل کی نفی کی تھی۔ تمام تر چیلنجز کے باوجود انقلاب اسلامی مذہب کے نام پر آیا اور مذہب کے نام پر قائم ہے اور مذہب کی بنیاد پر اس کا نظام چلایا جا رہا ہے، یہ ایک بڑے نظریہ کی عملی شکست ہے، جس سے مغرب کے اہل مذہب کو بھی حوصلہ پکڑتے ہوئے چرچ سے باہر آنا ہوگا۔ اس انقلاب نے خطے میں چلنے والی تمام اسلامی تحریکوں کو حوصلہ دیا ہے اور ہر جگہ پر مظلوموں کو حمایت کی ہے۔ فلسطین ابھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہوتا، یہ انقلاب اسلامی ایران کی مسلسل کوششیں ہیں، جو اس مسئلہ کو امت کا مسئلہ بنا رہی ہیں اور اہل فلسطین کے لیے ٹھنڈی ہوا کا باعث ہیں۔ انقلاب نے امت مسلمہ کی وحدت کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ مناطروں سے نکالنے اور ایک دوسرے کے مقدسات کے احترام کے ساتھ انسانیت کے مشترکہ دشمن کے خلاف سینہ سپر ہونے کا درس دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply