قصہ ایک الارم کلاک کی تبدیلی کا۔۔۔غیور شاہ ترمذی

“میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں, سر”؟

کھنکتی آواز میں یہ جملہ سنتے ہی میں نے اسے دیکھا تھا- تیکھے نقوش, صاف رنگت, پر اعتماد لہجہ اور صاف ستھری یونیفارم پہنے وہ اس بڑے شاپنگ مال کے الیکٹرانک شعبہ کے کاؤنٹر پر ڈیوٹی کر رہی تھی- اگر اس شاپنگ مال کا نام جاننے کے بارے آپ کو تجسس ہو تو لاہور ایکسپو سینٹر کے اردگرد چکر لگا لیجئیے گا اور اگر آپ کی طبعیت میں مزید اضطراب ہو اور اس خوبصورت لڑکی کا نام جاننا چاہتے ہوں تو اسے پروین تصور کر لیتے ہیں- (کیا معلوم – کچھ دل جلے واقعی اس سے ملنے لاہور پہنچ جائیں)-

خیر بات یہاں میری ہو رہی تھی- میں نے بغور اسے دیکھتے ہوئے کہا, “جی مجھے یہ الارم کلاک تبدیل کروانا ہے”-

اس کے خوبصورت مگر سپاٹ چہرے کے تاثرات میں کچھ ایسا تھا کہ مجھے میری چھٹی حس نے صاف بتا دیا کہ وہ ایسا نہیں کرے گی مگر شاید کسی اور طرح مدد کر سکے- بعض چہروں میں کتاب کی طرح لکھا ہوتا ہے کہ آپ کے سوال کے جواب میں وہ کیا کریں گے اور وہ ایسی ہی تھی- (بلکہ اگر اب بھی وہ وہیں جاب کرتی ہوئی تو ویسی ہی ہو گی, آزماِئش مگر شرط ہے)-

پروین:- “اس میں کیا مسئلہ ہے- سر”

اس کی بادامی گہری آنکھوں کی گہرائیوں سے میں مرعوب ہوئے بغیر بول اٹھا, “یہ بالکل نہیں چلتا- میڈم”

پروین:- “It’s Miss, sir” – ویسے اس سے کیا مطلب ہے”؟ اس نے گردن دوسری طرف گھماتے ہوئے بےاعتنائی سے وار کیا-

میں بمشکل پہلے وار سے جو سنبھلا تھا, اس نئے حملہ پر گڑبڑا سا گیا, مگر جلد ہی اپنے آپ پر قابو پا کر بولا, “یہ جب چلتا ہے تو پیچھے چلتا ہے, اور اس سے کوئی آواز بھی نہیں آتی”-

پروین نے بے یقینی سے مجھے دیکھا اور پھر الارم کلاک کو- تب وہ گویا ہوئی, “کیا آپ نے اس کلاک کے ساتھ مہیا کئے گئے مینویل کی مدد سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی”؟

میں:- “جی”

“اور پھر بھی یہ کام نہیں کر رہا”-

میں:- “جی نہیں”-

پروین:- “اوکے – مجھے اس کی رسید دیجئیے”-

میں:- “نہیں – مجھے اس کی رسید کہیں نہیں مل رہی”-

پروین:- “اس صورت میں اسے ری فنڈ نہیں کیا جا سکتا”-

میں:- ” اوہ – نہیں, آپ غلط سمجھی ہیں- میں اسے ریفنڈ نہیں کرنا چاہتا- بلکہ اسے صحیح طرح کام کرنے والے الارم کلاک سے تبدیل کرنا چاہتا ہوں”-

پروین:- “اوکے, اس کی اصل پیکنگ کہاں ہے”؟

میں:- “نہیں- وہ میں نے کہیں پھینک دی تھی”

پروین:- “اصل پیکنگ کے بغیر میں اسے تبدیل بھی نہیں کر سکتی”-

میں:- “یہ صرف پلاسٹک کے کلیمپ شیل کی پیکنگ میں تھا- یہ کسی کارٹن یا ڈبہ میں نہیں تھا- اس کلاک کو باہر نکالنے کے لئے مجھے اس پلاسٹک کلیمپ شیل (clamp shell) کو چاقو سے کاٹنا پڑا- تو اس کٹے پھٹے پلاسٹک کو میں کیسے سنبھال سکتا تھا”-

پروین:- “مگر تمام آئٹمز کی تبدیلی کے لئے ہماری پالیسی یہی ہے کہ وہ اپنی اصلی پیکنگ کے ساتھ موصول ہونی چاہئیں”-

میں:- “مگر اس سکریپ پلاسٹک کلیمپ شیل کو کون سنبھال سکتا ہے”-

پروین:- “جسے اپنی خریدی آئٹمز کو واپس کرنا ہو”-

میں:- (اس کے پوشیدہ طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے)- “میں نہیں سمجھتا کہ کوئی الارم کلاک خریدنے کے کچھ ہفتوں بعد ہی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے- کیا آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ آپ میری کچھ مدد نہیں کر سکتیں”-

پروین:- “کچھ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مجھے اس کی خریداری کا کوئی ثبوت ملے”-

میں:- “میں ثبوت ہوں- میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میں نے اسے یہاں سے خریدا تھا- میرا خیال ہے کہ یہاں کوئی اور سیلز مین تھا جس نے مجھے چائے بھی پلائی تھی”-

پروین:- (چائے والے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے)- “جی ہاں- وہ کوئی اور ہی ہوگا جس سے آپ نے یہ الارم کلاک خریدا تھا کیونکہ مجھے یہ جاب جوائن کئے صرف 15 دن ہی ہوئے ہیں-
کیا آپ نے وال کلاک کے وارنٹی کارڈ کو آن لائن رجسٹر کیا تھا”؟

میں:- “نہیں تو”

پروین:- “اوہ – یہ تو مشکل ہو گئی- آپ نے پےمنٹ کیسے کی تھی, کیش یا کارڈ”؟-

میں:- “کیش سے”

پروین:- “اگر آپ نے کارڈ سے پےمنٹ کی ہوتی تو بنک سٹیمنٹ سے ثبوت مل سکتا تھا کہ أپ نے یہ الارم کلاک یہاں سے ہی خریدا تھا اور کس تاریخ کو”-

میں:- “مگر میں نے تو ادائیگی کیش سے ہی کی تھی”-

پروین:- “دوسرے شاپنگ مال بھی تو یہ الارم کلاک فروخت کرتے ہیں- یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ نے کہیں اور سے اسے خریدا ہو”؟-

میں:- “جی- یقیناًًًمیں اسے دوسری جگہوں سے بھی خرید سکتا تھا مگر میں نے یہ وال کلاک یہاں سے ہی خریدا تھا”-

پروین:- “آپ نے اسے کب خریدا تھا”؟-

میں:- “تقریباًًً مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے”-

پروین:- “تبدیلی کے لئے ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم 21 دن کے بعد کسی بھی ایسی request کو قبول نہیں کرتے”-

میں:- “میں نے اسے پچھلے مہینہ خریدا تھا- مگر صحیح تاریخ کا مجھے اندازہ نہیں ہے”-

پروین:- “ہم اس برانڈ کے الارم کلاک پچھلے دو, تین سالوں سے فروخت کر رہے ہیں- مگر کبھی ہمیں ان کے بارے شکایت نہیں ملی”-

میں:- “کیا آپ کو مجھ پر یقین نہیں آیا- کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں”؟-

پروین:- “نہیں سر- میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے یہ الارم کلاک پچھلے 21 دنوں کی بجائے پہلے خریدا ہو, جب میری بجائے بیگم نوازش کام کرتی تھیں- بغیر اصل رسید اور اصل پیکنگ کے میں کس طرح آپ کی مدد کر سکتی ہوں”-

میں:- “یعنی آپ اس معاملہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتیں”-

پروین:- “نہیں” –

میں:- “یعنی اب مجھے اس خراب الارم کلاک کے ساتھ ہی رہنا ہو گا”-

پروین:- “اگر آپ چاہیں تو اسے مینوفیکچرر کے پاس مرمت کے لئے بھیج سکتے ہیں”-

میں:- “یہ تو میڈ ان چائنہ ہے اور اسے وہاں بھیجنے کا مطلب اس کی قیمت سے کئی گنا اس پر خرچ کرنا ہے”-

پروین:- “پھر آپ اسے کسی مرمت والی دکان پر کیوں نہیں بھیج دیتے”-

میں:- “اس طرح کی آئٹمز پر مرمت کا خرچ بھی ان کی قیمت سے زیادہ ہو جاتا ہے- اور اس کے ٹھیک ہونے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی”-

پروین:- “جی- ایسا تو پھر ہے”-

میں:- “کیا میں آپ کی مینیجر سے بات کر سکتا ہوں”؟-

پروین:- “آج ان کی ہفتہ وار چھٹی ہے”-

میں:- “پھر اپنے سپروائزر سے میری بات کروا دیجئیے”-

پروین:- “جی- سپروائزر سے آپ بات کر رہے ہیں”-

میں:- “کیا مینیجر کل ہوں گی”؟-

پروین:- “نہیں”-

میں:- “وہ کب واپس آئیں گی”؟-

پروین:- “وہ آئیں گی نہیں بلکہ آئیں گے”-

میں:- “وہ کب واپس آئیں گے”؟-

پروین:- “پیر والے دن”-

میں:- “اف – کیا واقعی کچھ نہیں ہو سکتا, میں کیا واقعی آپ کو مدد کرنے کے لئے متاثر نہیں کر سکا”-

پروین:- “جی تو پھر ٹھیک ہے- کیا الارم کلاک کے علاوہ میں کچھ اور آپ کی مدد کر سکتی ہوں”-

میں:- (بے یقینی سے)- ” کیا واقعی”؟

پروین:- “آپ کو یہ کرنا ہے کہ اس شاپنگ مال کا خریداری کارڈ آپ کو بنانا ہوگا- یہ کارڈ بالکل فری بنے گا اور پےمنٹ کے وقت اسے دکھانے پر آپ کو 5% سے 15% تک کی رعایت ہوا کرے گی”-

میں:- “جی نہیں- شکریہ”-

یہ کہہ کر جب میں واپس پلٹا تو دو قدم کے بعد ہی اس کی آواز آئی, “اگر آپ نے یہ کارڈ بنانے کے لئے آج ہی فارم بھر دیا تو آپ کو فری گفٹ بھی ملے گا”-

میں:- “کیا ہے فری گفٹ میں”-

Advertisements
julia rana solicitors

پروین:- “اسی برانڈ کا نیا الارم کلاک”-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply