بکری کو ختم کرو سے کٹّا پالو تک کا سفر۔۔۔۔عابد حسین

وزیراعظم عمران خان صاحب کے زندگی میں تین کام بڑے نمایاں ہیں ـ جن کی بدولت خان صاحب کا نام اونچا ہواـ جو وجہء شہرت و عزت بھی بنے خان صاحب کی شخصیت دراصل انہی کاموں کا حاصل ہے ـ
بطور کامیاب کھلاڑی کرکٹ کا میدان ـ
بطور سوشئل ورکر شوکت خانم ہسپٹل کا قیام ـ
اور تحریکِ انصاف یعنی سیاسی کیرئیرـ
ان تینوں متذکرہ بالا میدانوں میں خان صاحب نے خوب تاریخی کامیابیاں اپنے نام کیں ـ پہلے سے دوسرے پھر دوسرے سے تیسرے سفر تک ان کے مداحوں اور پرستاروں میں اضافہ ہوا اس دوران وہ مرتبے کی بلندیوں تک بھی پہنچے ـ یقیناً خان صاحب نے ان سفروں میں بڑے پاپڑ بیلے اور مشکلات کا سامنا بھی کیا مگر ہمت نہیں ہاری ـ
میدان نمبر ایک یعنی کرکٹ کھیلنے سے خود ان کی اپنی دلچسپی ہونے کے ساتھ بڑا اور کامیاب کھلاڑی بننے کی خواہش اور جنون شامل تھا ـ
میدان نمبر دو شوکت خانم جیسا ادارہ بنانے کا عزم انہیں والدہ صاحبہ کی بیماری اور دلسوز وفات سے حاصل ہوا ـ
میدان نمبر تین تحریک انصاف کا قیام اور سیاسی جہد کا آغاز بقول خان صاحب کے انہوں نے سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر اور عوام کی خدمت کےلیے کیا ـ موجودہ وقت میں عملی طور پر اب ان کی سب سے زیادہ توجہ اور محنت تیسرے نمبر یعنی سیاسی میدان میں سیاسی کیرئیر بچانے پر ہے ـ جہاں اِس(سیاسی) میدان میں  وہ اپنے سیاسی حریفوں کےلیے مشکل عقدہ ثابت ہوچکے ہیں وہیں ان کی شخصیت بھی اِس میدان میں ڈاواں ڈول لڑکھڑاتی نظر آتی ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سیاست کرکٹ کے میدان میں کھیلنے اور شوکت خانم جیسے اداروں کو چلانے سے کہیں زیادہ پیچدہ کام اور سخت امتحان ہے ـ
خان صاحب پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اگر کسی شخص یا دورِِ حکومت سے متاثر نظر آتے ہیں تو وہ صرف صدر ایوب خان کا دور ہے اس دور کی تعریف کا اظہار وہ یوں بھی فرما چکے ہیں کہ صدر ایوب کا دور ملکی ترقی کا سنہرا دور تھا ـ خان صاحب کی اس بات سے کسی حد تک اختلاف کی گنجائش ضرور موجود ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کہ ایوب خان کے سنہری دور اور خان صاحب کی تبدیلی میں مماثلت ضرور پائی جاتی ہے ـ
خان صاحب ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کےلیے آئے روز جو دلچسپ منصوبے پیش کر رہے ہیں اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ غربت مکاؤ منصوبے (مرغی+انڈے+کٹے=خوش خیالی) سنہرے دور کے ایک دلچسپ منصوبے ،بکری کو ختم کرو، کی جھلک معلوم ہوتے ہیں ـ
بات یوں ہے کہ جب صدر ایوب خان اپنے دورِ حکومت میں بگڑتی ملکی معیشت سے پریشان ہوئے تو انہوں نے بھی خان صاحب کی طرح ایک دلچسپ اصلاح ،بکری کو ختم کرو، ملک بھر میں نافذ کر ڈالی ـ اس بابت جب صدر صاحب سے سوال کیا گیا کہ آخر ملکی معیشت کی ناکامی میں بیچاری بکری کا کیا عمل دخل یا قصور تو وہ خوشگوار موڈ میں اظہارِ خیال فرمانے لگے کہ آپ اِن بکریوں کے کرتوت مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جا کر دیکھیں کہ ان بکریوں نے وہاں کیسی تباہی مچائی ہےـ سرسبز علاقوں کو ریگستانوں میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ـ یہ بکری آئندہ وقتوں میں ملک کےلیے بڑا نقصان دہ جانور ثابت ہونے والی ہےـ یہ جس جھاڑی پر منہ مارتی ہے اور جس پودے پر اس کا لعاب سرائیت کرتا ہے وہ ہرا بھرا پودا خشک ہوجاتا ہےـ یہی حال اب ہمارے ملک میں ہو رہا ہے بکری یہاں بیل بوٹوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے جس وجہ سے پاکستان شمالی افریقہ کا ہم شکل(صحرا) بنتا جا رہا ہے ـ حکم نامہ جاری ہونے کے بعد فوجی میسوں میں صرف بکری کا گوشت پکایا جانے لگا ـ
ریڈیو پر حُکماء صاحبان بکری کا گوشت کھانے کے ناقابلِ ذکر فوائد بیان کرنے لگےـ
کسانوں کو گھروں میں بکریاں پالنے سے پھیلنے والی مہلک بیماریوں اور خطرات سے آگاہ کیا جانے لگا تا کہ ملک کو شمالی افریقہ بننے سے بچایا جا سکے جس کےلیے ملک بھر سے بکری کو ختم کرنا ہرحال ضروری تھا ـ
ائیر مارشل محمد اصغر خان اپنی کتاب، یہ باتیں حاکم لوگوں کی، میں اس منصوبے کے بارے لکھتے ہیں کہ پہلے پہل تو انہوں نے یہ ،بکری کو ختم کرو، منصوبہ صدر صاحب کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ سمجھا مگر جب یقین ہوگیا کہ صدر صاحب تو اس منصوبے میں واقعی سنجیدہ ہیں اور اسے نافذ بھی کر چکے ہیں تو انہوں نے صدر صاحب کو سمجھانے کی ٹھانی کہ بھلا ان اصلاحوں سے کیا حاصل اور کیا نقصان ـ وہ چاہتے تھے کہ یہ بات صدر صاحب کو سب کے سامنے نہ کی جائے اور علیحدہ سمجھانے کی وجہ یہ ذکر کرتے ہیں کہ اُس وقت اگر کوئی شخص صدر صاحب کو کسی بات میں مخلصانہ سمجھانے کی کوشش کرتا تو آس پاس کے چمچے ایسے شخص کو مس فاطمہ جناح کا حمایتی اور خیرخواہ قرار دے کر صدر صاحب کو اُس شخص کے خلاف بھڑکا دیا کرتے کہ یہ شخص تو لالٹین جماعت سے ہے لہذا اس کی باتوں میں ہرگز آئیں ـ
(لالٹین مادرِ ملت فاطمہ جناح کا صدارتی الیکشن میں انتخابی نشان تھا)
عرصہ گزرنے کے بعد صدر صاحب کے ساتھ انہیں اس منصوبے پر بات کا مناسب موقع تب میسر آیا جب وہ تیتروں اور مرغابیوں کے شکار پر صدر صاحب کے ساتھ سندھ میں محوِ سفر تھے ـ بات چل نکلی کہ آخر بکریاں ہونے کا حقیقی طور پر پاکستان کو کوئی نقصان ہے بھی سہی یا نہیں ـ صدر صاحب نے رائے لینے سے پہلے ایسی بات کی جسے سن کر وہ حیران رہ گئے کہ صدر صاحب تو خیالات کی دنیا میں بہت آگے نکل گئے تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ ملک میں اب بکری تقریباً ختم ہو چکی ہے ـ
بات ختم ہو گئی مگر ابھی سفر باقی و جاری تھا ـ تھوڑی دیر بعد گاڑیوں کا قافلہ رک گیا ذرا دیر گزری تو صدر صاحب نے تاخیر ہونے کی وجہ پوچھی جواب ملا کہ چند غریب سندھی اپنی تین چار سو بکریوں کے ریوڑ کو سڑک عبور کرا رہے ہیں جس وجہ سے رکنا پڑا ہے ـ صدر صاحب نے جب بکری کا نام سنا تو ان کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیاـ اس سے قبل کہ میں انہیں سمجھاتا فوجی ملازم آ کر بولا کہ سر یہ لوگ بکریوں کا ریوڑ شہر میں بیچنے جا رہے ہیں مگر اب کی بار صدر صاحب چپ رہے اور بس دور سے گزرتی بکریوں کو گھورتے رہےـ
دس سالہ سنہری دور کا یہ بھی ایک سنہری منصوبہ تھا جسے ملک کو صحرا بننے سے بچانے کےلیے نافذ کیا گیا ـ خان صاحب بھی ملکی معیشت کو مضبوط کرنے اور غربت دور کرنے کےلیے نہ صرف عوام کو دلچسپ منصوبے دے رہے ہیں بلکہ انہیں کامیاب کرنے کےلیے پوری ضد سے محنت بھی کر رہے ہیں جن کے نتائج دیکھنے اور بھگتنے کےلیے ابھی ہم سب کو مزید وقت درکار ہے ـ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply