پشتون متوجہ ہوں۔۔۔۔عارف خٹک

مجھے یاد ہے وہ وقت جب بلوچستان لبریشن  آرمی روز ہمیں ای۔میل میں پاکستانی فوج کے سربریدہ اہلکاروں کی لاشوں کی تصاویر بھیجتی تھی  کہ پاکستانی فوج سے بہت جلد آزادی ملنے  والی ہے۔ مگر میں خاموش رہا۔
مگر لندن اور یورپ میں بیٹھے سرمچار ان کو تھپکی دیتے رہے  کہ آزادی قریب ہے۔ بس آپ اپنا حوصلہ بلند رکھیں۔
آج ڈاکٹر اللہ نذر دنیا سے بیگانہ ہوچکا ہے۔ بی ایل اے صرف تربت تک محدود ہوگئی ہے۔
اس دن کو کیسے بھول سکتا ہوں جب دروش خیلہ سوات کی ایک جاننے والی خاتون نے اپنا اور اپنی بیٹیوں کا زیور ملا فضل اللہ کو یہ کہہ کر دے دیا کہ جا شریعت نافذ کر۔
سینکڑوں اموات کے بعد شریعت تو نافذ نہیں ہوسکی مگر ملا فضل کے جہادی ساتھی اپنی زندگی کے بدترین دن جلال آباد میں گزار رہے ہیں اور اس دن کے انتظار میں ہیں کہ امریکہ طالبان مذاکرات کے بعد ان کی لاشیں پاکستان کو دی جائیں گی یا زندہ سلامت ان کو درگور کردیا جائیگا۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب احسان اللہ احسان نے مجھے میسج کرکے کہا کہ خٹک  آجاو وزیرستان۔ آپ سے ملنا ہے۔ آپ کو دکھانا ہے کہ ظالم فوج جو امریکہ سے بدتر ہے کس طریقے سے مسلمانوں کے گلے کاٹ رہی ہے۔ مگر میں پھر بھی خاموش رہا۔
بالآخر ہزاروں نوجوانوں کو خاموش کرانے کے بعد احسان اللہ احسان ریاستی مہمان نوازی کے مزے لوٹ رہا ہے۔
خیسور واقعے کے بعد روز میڈیا پر جب اپنے یاروں  کے بیانات پڑھتا ہوں تو میں خاموش ہوجاتا ہوں۔ مگر میرا ضمیر اب مجھے خاموش نہیں رہنے دے رہا کیونکہ اب میرے پاس کچھ کھونے کیلئے ہے ہی نہیں۔ لہذا میں آپ سب سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ اپنے بچوں پر رحم کریں۔ اپنی نسل کے مستقبل کا سوچیں۔
جو ہوا سو ہوا اس پر مٹی ڈالیں۔اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنا لیں کہ دوبارہ کوئی قوت آپ کو بے گھر نہ کرسکیں۔
یہ جو نیدرلینڈ، لندن، جرمنی اور امریکہ میں بیٹھے کچھ خون آشام لوگ   ہیں۔ آپ کو ایک اور لڑائی کیلئے ذہنی طور پر تیار کررہے ہیں۔ یہی آپ کے اصل دشمن ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مشرف کی گود میں بیٹھ کر آپ پر گن شپ ہیلی کاپٹرزسے  شیلنگ کی۔ آپ کے بچوں کو مروایا۔ اور یہی وہ لوگ ہیں۔ جو آجکل آپ کے رہنماء بنے ہیں۔ جنہوں نے ڈرون حملوں میں شہید بچوں کیلئے کہا تھا کہ “یہ بچے جو مرے ہیں ان پر خوشی مناوکیونکہ یہ مستقبل کے دہشت گرد تھے۔”
سی آئی اے کے کنٹریکٹرز کے بچے آج کل آپ کے رہنماء بنے بیٹھے ہیں۔ آپ کا حافظہ کمزور ہوسکتا ہے مگر الحمداللہ میرا ابھی بھی بالکل ٹھیک کام کررہا ہے۔
ان کو پہچانیں۔ خود کو اور اپنے بچوں کو ان خون آشام درندوں سے دور رکھیں۔
ریاست کا کیا ہے۔ ان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔
اسی ریاست نے طالبان سفیر کو الف ننگا کرکے امریکہ کے حوالے کردیا تھا۔ سفارت کی ایسی سیاہ تاریخ خدا بنی نوع انسان کو دوبارہ نہ دکھائے۔اور آج اسی مُلا ضعیف کے ساتھ بیٹھ کر امریکہ کو اسپیس دے رہا ہے۔ سی پیک کے لالچ میں کل چین کی گود بیٹھا تھا تو وائس آف امریکہ اور ریڈیو مشعال کو وزیرستان میں تباہ حال قبائلی نظر آرہا تھا۔ آج ریاست پھر امریکہ کیساتھ بیٹھ رہی ہے۔ اب مجھے خدشہ ہے کہ اسی ڈیوہ ریڈیو کو یہی نوجوان دہشت گرد نظر آئیں گے۔ فرق فقط یہی ہوگا کہ کل کے نوجوان کو انہوں نے طالب کہہ کر پکارا اور آج کا نوجوان غدار ڈکلیئر ہورہا ہے۔
لکھ کر دیتا ہوں کہ اس لڑائی کی فنڈنگ بھی امریکہ سے ہوگی۔
رہے نام اللہ کا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply