ضلع سبی کی ضلعی سرحد پر سبی شہر سے گھنٹے بھر مسافت پر جنوب مغرب میں واقع ضلع کچھی بولان کے گاؤں مشکاف کے قریبی کھوسہ بلوچ اقوام کی قدیم آبادی لنڈی کھوسہ میں نومولود بچوں میں ایک ایسا کینسر نما مرض پایا گیا ہے جو 1 سے 10 سال تک موت کا سبب بن رہا ہے۔ اب تک سرکاری اعداد وشمار اور ضلعی محکمہ صحت کے مطابق 10 بچے اس مرض کی وجہ سے لقمعہ اجل بن چکے ہیں۔
دسمبر1997 میں بلوچستان کے ایک مقامی اخبار کے مچھ کے نمائندے محمد عامر یوسف زئی کی رپورٹ کے مطابق متذکرہ گاؤں کےایک پانچ سالہ بچے اور ایک 8 سالہ بچی کو یہ موذی مرض لاحق ہوا، جس میں جلد پر جلی ہوئی بھوری پھٹی ہوئی تہہ نما جلد بن جاتی ہے جس میں پیپ پیدا ہو جاتی ہے جس سے جسم کا بیرونی نظام آنکھ، ناک، کان، زبان، بال، ہاتھ پاؤں کی انگلیاں وغیرہ گَل جاتیں ہیں اور متاثرہ بچہ بل آخر سسک سسک کر موت کا شکار ہو جاتا ہے۔
پاکستان کے غریب پرور پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان کی پسماندہ ترین قدیم بلوچ آبادی میں گزشتہ 20 سالوں سے دیمک کی طرح کھانے والے اس مرض پر معروف غیرسرکاری تنظیم TVO نے تشخیص و علاج کی غرض سے تحقیق کی۔ لیکن ایک طویل معدت بعد اسے جینٹک خاندانوں میں ازدواجی رشتوں کی وجہ بیان کر کے فائل بند کر دی۔ جس کا محکمہ ہیلتھ کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
تقریبا 10 سال بعد سن 2008 میں ڈھاڈر بولان کے صحافی میر فتح محمد بنگلزئی نے اسی گاؤں کے بارے اس خطرناک مرض کو دوبارہ رپورٹ کیا اور اس مہلک مر ض پر نوٹس بھی لیا۔ خون و انفیکشن و دیگر نمونے لے کر بیرونِ ملک بھجوائے گئے۔ آمدہ ٹیسٹ رپورٹس کی کاپی ضلعی ہیلتھ ریکارڈ میں تو میسر نہیں لیکن میر فتح بنگلزئی کے پاس موجود ہے۔
2008 میں متاثرہ 10 بچے مختلف سالوں میں لقمہ اجل ہوئے۔ جنوری 2019 میں ایک مرتبہ پھر مچھ بولان کے صحافی میر عمران سمالانی نے لنڈی کھوسہ میں اس بیماری کو رپورٹ کیا۔ جس پر ایم پی اے بولان سردار یار محمد رند نے اس معاملہ پر صوبائی سطح پر نوٹس لیتے ہوئے صوبہ کے معروف اسپیشلسٹ کی ٹیم ضلعی چیئرمین سردار زادہ سردار خان رند کے ہمراہ متاثرہ گاؤں روانہ کیں۔ رپورٹ پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینٹ پاکستان کے چیئرمین میر صادق سنجرانی نے نوٹس لیتے ہوئے عالمی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر نگہت کے ہمراہ ماہرین کی ٹیم لنڈی کھوسہ بولان روانہ کی۔
1997 کی TVO کی رپورٹ سے ملتے جلتے تاثرات لیے صوبائی وفاقی ماہرین حسبِ سابق ضروری نمونے لے کر اسلام آباد روانہ ہوں گے۔
اب ان نمونوں کی رپورٹس آنے تک ان پانچ بچوں کو یہ مہلک بیماری زندہ رہنے کا موقع دے۔ آمین۔ اور اللہ رب العزت انہیں شفایاب فرمائے۔ اس تمام تر واقعہ کو اجاگر کرنے میں درحقیت بولان کے میڈیا ورکرز کا ذمہ دارانہ کردار قابلِ صد تعریف ہے۔ اللہ پاک انہیں مزید توفیق دے۔ آمین!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں