اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

دو دن پہلے ساہیوال کے مقام پر جو دلخراش واقعہ پیش آیا ابھی تک اس کی باز گشت مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر سنائی دے رہی ہے اور غالب امکان یہ ہے کہ انصاف کے حصول تک یا خدانخواستہ پاکستانی عوام کے ہاتھ کوئی  اور گرما گرم موضوعِ بحث آنے تک یہ آوازیں بلند ہوتی رہیں گی۔ عوام الناس کا اس معاملے پر احتجاج جس بھی سطح پر چلا جائے وہ بالکل متوقع ہے بلکہ ہمارے دلوں کا درد ہے جو احتجاج کی صورت سامنے آ رہا ہے۔ اور یہ ردِ عمل جتنا بھی شدید ہو، کم ہے۔ لیکن مجھے کل پرسوں سے جس امر پر شدید حیرت ہے اور غم و غصہ بھی، وہ ہمارے اپوزیشن لیڈرز کے پے در پے بیانات ہیں جو وہ متاثرہ خاندان کی ”ہمدردی“ میں دے رہے ہیں۔ کبھی بلاول زرداری صاحب ہمیں ”دریائے نیل“ کے کنارے کتا بھوک سے مرنے کی ذمہ داری ”ریاستِ مدینہ“ کے حکمرانوں کو یاددلاتے نظر آتے ہیں اور کبھی حمزہ شہباز شریف صاحب ”بہرے حکمرانوں“ کو خوفِ خدا یاد دلاتے نظر آتے ہیں۔ اور  کل  تو یوں سمجھیں حد ہی ہو گئی۔ میاں شہباز شریف صاحب نے عندیہ دیا ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے ہونے تک حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ وائے حسرت۔۔!!!!
آئیں ایک معمولی سی جھلک ان اپوزیشن لیڈرز کے اپنے اپنے ادوارِ حکومت پہ ڈال کے دیکھتے ہیں کہ کیا کیا نہیں ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا۔ زیادہ دور نہیں جاٶں گی۔ میر مرتضٰی بھٹو کا قتل میرے بچپن کے بالکل ابتدائی چند سال کا واقعہ ہے جو اس وقت بھی حالاتِ حاضرہ سے دلچسپی ہونے کی وجہ سے ذہن پہ ایک انمٹ نقش چھوڑ گیا تھا۔ 1996 کی بات ہے بلاول زرداری کی والدہ ماجدہ اور مقتول مرتضٰی بھٹو کی سگی بہن کے دورِحکومت میں سندھ پولیس کے غنڈوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ بلاول زرداری صاحب، کیا آپ کے ماموں کی جان کی وقعت دریائے فرات کے کنارے مرنے والے کتے سے بھی کم تر تھی کہ جس کے مجرمان کا حتمی تعیّن ہونے کےباوجود اور باوجود اس کے کہ آپ کی والدہ محترمہ خود اس وقت بھی مسندِ اقتدار پر برا جمان تھیں اور اس کے بعد بھی وزارتِ عظمٰی کے عہدے پر متمکن رہیں لیکن ان سب قاتلوں کو بری کر دیا گیا۔
خود محترمہ بے نظیر بھٹو کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا اور آپ کے والدِ محترم ہمدردی کا ووٹ بٹور کر نہ صرف آپ کی پارٹی کو بر سرِ قتدار لے آئے بلکہ خود بھی  پانچ سال صدرِ پاکستان رہے آپ نے ان سے سوال نہیں اٹھایا کہ ابّا جان!!! دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی مر جاتا تو عمرِ فاروقؓ اپنے آپ کو جوابدہ تصور کرتے تھے تو میری ماں کے قاتلوں کو کب کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔
امل کیس تو ابھی با لکل کل کی بات ہے۔ ابھی تک کبھی کبھار میڈیا پہ اس کیس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ 5 ماہ گزر گئے بلاول زرداری صاحب سندھ پولیس کے اہلکاروں کے ہاتھوں جان کی بازی ہارنے والی اس معصوم بچی کیلئے  آپ نے حکومت میں رہتے ہوئے کیا کیا۔۔
نقیب اللّٰہ محسود کو شہید ہوئے پورا سال گزر گیا۔ سندھ پولیس کے ”بہادر سپوت“ راٶ انوار کوکس کس طرح سندھ حکومت نے تحفظ نہیں دیا۔ نقیب اللّہ کے لواحقین آج بھی انصاف کیلئے در بدر ہیں اور راٶ انوار آج بھی دھڑلے کے ساتھ کسی بھی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے سے انکاری ہے۔ بلاول زرداری صاحب نقیب اللّٰہ بھی اپنے خاندان اور بچوں کیلئے ”خلیل“ ہی تھا۔
ادھر پنجاب میں آئیں تو ایک ماڈل ٹاٶن سانحہ کو ہی لے لیجئے۔ دل آج بھی خون کے آنسو روتا ہے۔ 14 بے گناہ معصوم شہری پولیس گردی کا شکارہوئے۔ ایک حاملہ خاتون سمیت 14 لوگ جان کی بازی ہار گئے اور کئی  لوگ زخمی ہوۓ۔ لاکھوں کی املاک ان کے ایک گلو بٹ نے دیکھتے ہی دیکھتے تاخت و تاراج کر دیں۔ کئی گھنٹوں تک یہ واقعہ وقوع پذیر ہوتا رہا۔ میڈیا والے ٹی وی پر اور اپوزیشن رہنمإ اسمبلی کے فلور پر چلّاتے رہے کہ یہ ظلم روکو۔ لیکن اس وقت کے وزیِر قانون صاحب کا مو قف یہ تھا یہ شر پسند لوگ ہیں جنہوں نے ریاست کے ا ندر ریاست بنا رکھی ہے ان سے اسی طرح نمٹا جا سکتا ہے۔۔ شہباز شریف صاحب اسوقت آپ پنجاب کے سب سے با اختیار عہدےپر متمکن تھے۔ آپ تو اس وقت سے اب تک اس واقعے پر چین کی نیند سو رہے ہیں۔ حمزہ شہباز شریف صاحب آپ بھی اس وقت اپنے والدِ محترم کو جھنجھوڑ کے ان کو خوفِ خدا یاد کرواتے نظر نہیں آئے۔
میں ہر گز ہر گز حکومتِ وقت کے اس سانحے کے وقوع پذیر ہونے سے لیکر اب تک کے رویّے کو defend کرنے کی کوشش نہیں کر رہی نہ ہی کوئی یہ تاثر لے کہ میں اس وقت تک کےحکومتی اہلکاروں کےرویوں اور اقدامات سے مطمئن ہوں، ہر گز نہیں۔ جو کچھ اس سانحے کے وقوع پذیرہونے کے دوران ہوتا رہا یا جو جھک ابھی تک ہمارے وزرإ اور حکومتی کارندے مار رہے ہیں اس سے کسی قسم کے انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ان واقعات کو دہرانے کا مقصد وزیرِاعظم عمران خان صاحب کو ان کا انتخابی نعرہ ” دو نہیں ایک پاکستان“ یاد دلانا ہے۔ ”پرانے پاکستان“ میں تو ہم نے آج تک کسی بااثر شخص کو کسی کمزور کے مقابلے میں سزا ہوتے نہیں دیکھی۔ آج یہ معاملہ آپ کی حکومت کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہےکہ ” دو نہیں ایک پاکستان“ بنانے میں آپ کس حد تک مخلص ہیں۔ کل تک جو کچھ آپ اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومتِ وقت کے ساتھ کرتے رہے تھے وہی آج آپ کے ساتھ ہو رہا ہے اب دیکھنا یہ ہےکہ آپ بھی وہی عمل دہرائیں گے جو آپ سے پہلے والے حکمران ایسے مواقع پہ کرتے آئے ہیں یا کوئی نئی مثال قائم کریں گے۔
ہمارےیہاں ایک مقولہ ہے مجھے اس کا متبادل اردو میں نہیں مل سکا کہ ”چھج نے چھاننی نوں کیہہ مینڑا مارنا ہے“ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی سیاست اور اقتدارکے حمام میں سبھی ننگے ہیں اور جب یہ لوگ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے اور اپنے ننگ کو چھپانے کی بجائے دوسروں کی طرف انگشت نمائی کرتے ہیں تو یہ یقین اور بڑھ جاتا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں میں ”ضمیر“ نامی چیز مردہ ہو چکی ہے۔ میری ایک بہت  پیاری فیس بک فرینڈ نے چند دن پہلے ایک بہت خوبصورت بات پوسٹ کی تھی اسی پہ اپنی بات کا اختتام کروں گی کہ ” ہمت ہے تو اپنا سچ لکھیے ، دوسروں کا نہیں۔۔۔

Facebook Comments

ربیعہ فاطمہ بخاری
لاہور کی رہائشی ربیعہ فاطمہ بخاری پنجاب یونیورسٹی سے کمیونی کیشن سٹڈیز میں ماسٹرز ہیں۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں لیکن اب ایک خاتونِ خانہ کے طور پر زندگی گزار رہی ہوں۔ لکھنے کی صلاحیت پرانی ہے لیکن قلم آزمانے کا وقت اب آیا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply