کاؤنٹر ٹیرارز م ڈیپارٹمنٹ کی ضرورت۔۔۔۔ شہزاد سلیم عباسی

نواز شریف حکومت نے 2015ء میں فوجی عدالتوں کو اکیسویں آئینی ترمیم اور آ رمی فوجی ایکٹ ترامیم کے تحت اتفاقِ رائے سے منظورکرایا تھا، جس کا مقصد امن و سلامتی کے دشمنوں کو ٹھکانے لگانا، غداروں اور دہشت گردوں کو فوری اور سخت ترین سزادلوانا ہے۔اس وقت کے ارباب اختیارات نے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کا نعرہ مستانہ لگایا تو ہرعامی و خاص نے لبیک کہا اور دہشت گردی جیسے ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئے۔ کیوں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پشاور کے دلخراش واقعے کے بعد دونوں ہاوسز اور تمام دینی ،مذہبی اور سیاسی پارٹیوں نے  یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کسی بھی قسم کے اٹل فیصلے کے لیے عزم مصمم کیا اور یوں ملٹری کورٹس نے دوبارہ سے نئے ہمت و جذبے سے کام شروع کیا۔اب تک ملٹری کورٹس نے کتنے دہشت گردوں کو سزائیں موت دیں اور کتنوں کو رہا کیا؟ اور ان میں کتنے طالبان، لشکری گروپ ، افغانستان سے آئے جنگجویا بھارت کے گماشتے پکڑے گئے اور انہیں کب سزائیں ہوئیں؟ یہ باتیں تو ہمارا ڈومین نہیں ہے اور نہ ہی ملٹری کورٹس کے افادیت بارے کسی شبہ کی گنجائش ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد ملک دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانا ہے ، جو کہ ایک احسن قدم اور خوش آئند بات ہے۔
مگرکچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال بار بار آ تا ہے کہ سیشن کورٹس ، ہائی کورٹس،سپریم کورٹ ، انسدادِ دہشت گردی کورٹس ، تحفظ پاکستان کورٹ، سول کورٹس ، احتساب انکم ٹیکس اور بے شمار دوسر ی کورٹس اور نیب ،ایف بی آر، کرپشن ٹاسک فورس، ایف آئی اے ، آئی ایس آئی ، ایم آئی اور دیگر درجنوں سیکورٹی اداروں کے ہو تے ہوئے بھی آخر” آرمی کورٹس” کی کیا ضرورت آن پڑی ؟اس کا سادہ سا جواب بھی سننے میں آتا ہے کہ اگر ہم بیسیوں اداروں کی موجودگی کے باوجودکوئی نیا ادارہ بنا کر اسے کوئی سپیشل ڈیوٹی سونپتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ہم باقی اداروں کے استحقاق کو مجروح کرتے ہیں ، باقی اداروں پر عدم اطمینا ن کی فضابناتے ہیں ،رعایا کو موقع دیتے ہیں کہ وہ بیسیوں اداروں کے بجائے صرف اور صرف ایک ادارے پر بھروسہ کریں کیوں کہ وہی انصاف دے گا یا پھر پولیس والے تو راشی ہیں اورگلو بٹ ہیں اس لیے ہر جگہ فوجی سپاہیوں کو لگا دیا جائے اور اور ہر مسئلے کے حل کے لیے فوجی عدالتوں سے رجوع کیا جائے تو راقم کی رائے میں یہ تاثر دینا درست نہیں ہے ۔
کیوں کہ جب ہمیں ضرب عضب جیسے کامیاب معرکوں میں فوجی عدالتوں کی ضرورت تھی تو ہم نے ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اب جب کہ جرنل راحیل شریف اورجرنل باجوہ کی قیادت نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے ہمیں فوجی عدالتوں کی مزید ایکسٹینش کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ زندہ دل پاک فوج اور بہت سے محاذوں پر برسرپیکار ہے۔ لہذا پولیسنگ کے نظام کو بہتر سے بہترین اور بااختیار بنائیں اور انہیں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے ، محبت کرنے ،مظلوم کا ساتھ دینے اور ظلم کی حوصلہ شکنی کی تربیت دیں۔اور اگر کسی پولیس افسر یا سپاہی سے کوئی گناہ سرزد ہو تو پھر محکمہ پشت پناہی نہ کرے بلکہ راؤ انوار جیسی کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے باہر نکالیں اورعبرت ناک سزادیں کیوں کہ صفوت غیور جیسے بہارشہید فوجی آفیسر اورراولپنڈی تھانہ سٹی کے ایس ایچ او قمر سلطان جیسے غازی کے نقش قدم پر چل کر ہی ملک و قوم کے مرال اور حوصلے بلند کیا کرتے ہیں۔ بقول اقبال (باب جبریل )کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا ۔مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔
انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں 1995 سے موجو د ہے پہلے اس کا نام سی آئی ڈی(کرائم انوسٹگیشن ڈیپارٹمنٹ) تھا، 21 جولائی 2010ء میں شہباز شریف نے اس کا نام تبدیل کر کے سی ٹی ڈی رکھ دیا ۔ اور 2015میں اسے انٹیلیجنس کا اضافی اختیار بھی دے دیا گیا ۔1936 کے سی آئی ڈی مینول کے تحت قائم سی ٹی ڈی نے ساہیوال میں گزشتہ روز غیر منصافانہ اور بہیمانہ کاروائی کر کے جہاں پولیس گردی کے پول کھول کر رکھ دیے ہیں وہاں سی ٹی ڈی کی اہمیت وافادیت اور دائرہ اختیارات پر سوالیہ نشانات چھوڑ دیے ہیں ۔ سی ٹی ڈی کا مقصد طاقت کا استعمال نہیں بلکہ سیکشن 54 کے تحت دہشت گردوں کے پاس اسلحے یا خود کش جیکٹ ہونے کی صورت میں فائرنگ یا دیگر ملزموں کے گرد رفتہ رفتہ گھیرا تنگ کر کے انہیں گرفتار کر نا اور اگر معاملہ پبلک کا ہے تو پولیس کے حوالے کرنا ہے نہ کہ غلط انفارمیشن پر معصوموں کو گولیوں سے چھلنی کرنا ہے ۔اس بات کا تعین ہو جانا از حد ضروری ہے کہ پولیس ، دہشت گردعدالتوں اور ملٹری کورٹس کی Jurisdictions ، ڈومین اور اختیارات کیا ہیں۔ اور اس بات کا اعادہ کیا جانا چاہیے کہ جب تک مکمل انفارمیشن ، کافی ثبوت اور شواہد نہ ہوں تب تک کسی شخص کو نہ مارا جائے نہ اٹھایا جائے ۔
ہمیں انفرادی و اجتماعی اور حکومت و اداروں کو ملک وقوم کے بہتر مستقبل کے لیے سوچنا ہوگا۔ محبت اتفاق اور سچے مسلمان ہونے کے ناطے اسلام ، پاکستان اور اپنے اداروں سے محبت کرنا ہوگی۔ ہمیں اعادہ کرنا ہو گا کہ ہم اپنی سوچ مثبت کیساتھ خوبصورت معاشرے کوپروان چڑھائیں گے اور وطن عزیر کی ہر ماں اور ہر لخت جگر کی عزت و آبرو اور جان کی حفاظت کریں گے اور علم و ہنر کے نور سے معاشرتے کی آبیاری کریں گے اورعدل وانصاف کی بحالی کے لیے کردار ادا کرتے رہیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply