کوئی تو میرے بابا، اماں کو لا دے ۔۔۔۔ محمد فیاض حسرت

صائمہ اپنے 8 سالہ   بھائی سے روتے ہوئے ، سسکیاں لیتے ہوئے پوچھتی ہے ۔
بھیا یہ کیا ہوا ؟ یہ اماں اور بابا بول کیوں نہیں رہے ؟
فراز اپنی بہن سے دو سال بڑا ہے ۔ اُسے معلوم ہے کہ اُس کی اماں اوربابا کو لوگوں نے مار دیا ہے لیکن اپنی چھوٹی بہن کوتسلی دیتا ہے کہ گڑیا اماں اور بابا بالکل ٹھیک ہیں ۔ گڑیا وہ گاڑی کا چلتے ہوئے ٹائر پنکچر ہو گیا تھا تو گاڑی ساتھ دیوار سے ٹکرا گئی تھی ۔گڑیا تم پریشان نہ ہو۔ ابھی اماں اور بابا ہمیں لے کر چاچو کی شادی میں جائیں گے ۔
بھیا وہ آواز کیسی تھی ؟ میں اُس وقت ڈر کے مارے گاڑی کی سیٹ کے نیچے چھپ گئی اور کانوں میں انگلیاں ڈال دیں ۔ بھیا میں نے دیکھا تھا وہ ایک چاچو جن کے ہاتھ میں بندوق تھی ہماری گاڑی کے سامنے آئے اوراُس کے بعدایک آواز آئی اور پھر مجھے نہیں پتا کیا ہوا؟ بھیا کچھ تو بتاؤ!
گڑیا میں کہہ رہا ہوں نا کچھ نہیں ہوا ۔ وہ آواز تبھی آئی تھی جب گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوا اور گاڑی دیوار کے ساتھ ٹکرائی تھی ۔
بھیا گاڑی دیوار کے ساتھ ٹکرائی تو یہ گاڑی کے شیشے میں گول گول سوراخ کیسے ہوگئے ؟ بھیا بابانے تو سفیدرنگ کے کپڑےپہنے تھے یہ سرخ رنگ کے کیسے ہو گئے ہیں ؟
آہ ! فراز کی سانسیں تھم گئیں اُس کے پاس کچھ نہ تھا جس سے اب وہ اپنی ننھی بہن ، اپنی ننھی گڑیاکو تسلی دیتا ۔اُس نے اپنے بابا اور اماں کے سینوں میں گولیاں لگتے خود دیکھیں  !
بھلا اک ننھی سی  جان جس کی عمر ابھی 8 سال ہے وہ اتنا سب کیسے برداشت کر گئی ؟
اک ننھی سی جان میں اتنا حوصلہ کیسے آ گیا ؟کہ اُس کے اماں اور بابا کو گولیاں مار کےقتل کر دیا گیا اور وہ اپنی چھوٹی گڑیا کو تسلیاں دے رہا ہے کہ کچھ نہیں ہوا ۔
گڑیاپھرروتے ہوئے بھیا سے پوچھتی ہے۔
بھیا آپ کیوں نہیں بولتے ۔ بھیا کچھ تو بولو !
فراز سسکیاں بھرتے ہوئے گڑیا کو دیکھتا ہے اور چپ سوچتا ہے ۔
جن لوگوں نے میرے بابا اور اماں کو گولیاں ماری انہوں نے تو پولیس کی وردی پہنی ہوئی تھی ۔ کیا وہ پولیس والے تھے؟ یا پولیس کی وردی پہنے کوئی ڈاکو تھے ؟ اگر ڈاکو تھے تو ہم نے ان کا کیا کھایا تھا جو ہمیں زندہ مار دیا ۔
پھر سوچتا ہے ، نہیں نہیں یہ پولیس والے تھے ۔ فراز یہی سوچتے سوچتے بہن کی طرف دیکھتا ہے ۔گڑیا دونوں ہاتھ آنکھوں پہ رکھے رو رہی ہوتی ہے ۔
فراز پھر چپ سوچتا ہے ۔اگر یہ پولیس والے تھے تو ہمیں کیوں مارتے ؟ پولیس والے تو لوگوں کی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں وہ اس طرح لوگوں کی جانیں تو نہیں لیتے ۔
پھر پولیس کی  گاڑی آتی ہے اور دونوں کو گاڑی میں بٹھا کر کہیں لے جاتی ہے ۔
گڑیا پھر رونا شروع کر دیتی ہے اور بار بار ایک ہی سوال پوچھ رہی ہوتی ہے ۔
بھیا یہ ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں ؟بھیا انہیں کہوں نا ہمارے بابا اور اماں کو بھی لے آئیں ۔
چاچو آپ میری بات سن لیں نا ۔ بھیا میری بات نہیں سن رہے ۔
چاچو  میرے بابا اور اماں کو لا دو نا انہیں کیوں وہی چھوڑ آئے ہو ؟
فراز سوچتا ہے ۔
بھلا کیسے میں بابا کو لاؤں ؟
بھلا کیسے میں اماں کو لاؤں ؟
وہ تو مر چکے ہیں! انہیں تو میرے سامنے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا. کاش میں بڑا ہوتا تو وہ گولیاں جو میرے بابا اور اماں کے سینے میں لگیں وہ میں اپنے سینے میں کھا لیتا ۔ میرے بابا اور میری اماں بچ جاتے!

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply