مشق(16)۔۔وہارا امباکر

لیزلو پولگار کی تین بیٹیاں ہیں۔ پولگار کو اپنی بیٹیوں سے محبت تھی اور شطرنج سے محبت تھی۔ انہوں نے بیٹیوں کو شطرنج میں خوب مشق کروائی۔
جب ان کی بڑی بیٹی سوزن پندرہ سال کی ہوئی تو وہ دنیا کی صفِ اول کی رینکنگ پر آ چکی تھی۔ 1986 میں وہ مینز ورلڈ چیمپئن شپ میں حصہ لینے والی پہلی خاتون تھیں اور پانچ سال بعد انہوں نے گرینڈ ماسٹر ٹائٹل جیت لیا۔ ان کی دوسری بہن صوفیہ نے 1989 میں چودہ سال کی عمر میں روم کے ٹورنامنٹ میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔ وہ بعد میں انٹرنیشنل ماسٹر اور خواتین کی گرینڈماسٹر بنیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بہن جوڈیٹ نے پندرہ سال اور چاہ ماہ کی عمر میں گرینڈماسٹر کا سٹیٹس حاصل کر لیا۔ وہ ایک وقت میں پہلی سو کی رینکنگ میں واحد خاتون تھیں اور پھر ٹاپ ٹین میں بھی رہیں۔
آخر کیوں؟
ان کے والدین نے انہیں شطرنج میں تربیت دی تھی۔ انہیں اچھا کھیلنے پر شاباش ملتی۔ برا کھیلنے پر تنبیہہ ہوتی۔ ان کی کامیابی اور ناکامی شطرنج میں تھی۔ شطرنج اہم تھی۔ اور یہ وہ وجہ تھی کہ ان کے دماغ نے شطرنج کو دئے گئے سرکٹ میں اضافہ کر لیا تھا۔
ہم جانتے ہیں کہ دماغ اِن پُٹ کے مطابق خود کو تبدیل کرتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ اس تک آنے والی تمام انفارمیشن یکساں طور پر اہم ہے۔ دماغ خود کو کس طریقے سے ایڈجسٹ کرتا ہے؟ اس کا دارومدار اس پر ہے کہ آپ کے لئے اہم کیا ہے۔ اگر آپ پرندوں کی سٹڈی کا انتخاب کریں گے تو دماغ پرندوں کے درمیان باریک فرق سیکھنے لگے گا۔ چونچ کا سائز، پر کی شکل، سینے کا رنگ سمجھ آنے لگا جب کہ اس سے پہلے میں صرف یہ تفریق کر سکتا تھا کہ یہ پرندہ ہے یا جہاز۔ حالانکہ پرندے تو آپ پہلے بھی دیکھتے رہے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اضحاک پرلمین وائلن بجایا کرتے تھے۔ ان کے ایک شو کے بعد ایک مداح نے انہیں کہا، “میں ایسا پرفارم کے لئے تمام زندگی دے دوں”۔ پرلمین کا جواب تھا، “میں ایسا پرفارم کرنے لئے اپنی ساری زندگی دے چکا ہوں”۔
روزانہ وہ سوا پانچ بچے اٹھتے۔ ناشتے کے بعد ساڑھے چار گھنٹے پریکٹس کیا کرتے۔ شام کو ساڑھے چار گھنٹے کا ایک اور سیشن لگاتے۔ اور بلاناغہ ایسا کرتے۔ صرف اس روز پریکٹس چھوڑتے جب ان کا شو ہوتا۔ اور اس روز صرف صبح والا سیشن کیا کرتے۔
دماغ کا سرکٹ اس کا عکاس ہے کہ آپ کرتے کیا ہیں۔ کس میں مہارت رکھتے ہیں۔ اور اگر ہاتھ کے کنٹرول والے علاقے کا باریکی سے جائزہ لیا جائے تو ایک حیرت انگیز چیز سامنے آئے گی۔ ساز بجانے والوں کے کورٹیکس میں بل پڑے ہوں گے۔ محنت کے ہزاروں گھنٹے ان کے دماغ کے سانچے میں فزیکل تبدیلی لے کر آتے ہیں۔
اور یہ صرف یہیں پر تمام نہیں ہو جاتا۔ ولادیمیر ایشکینازی پیانو کے ماہر ہیں۔ ان کا دماغ وائلن بجانے والوں سے اتنا زیادہ مختلف ہے کہ اس فرق کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ کونسا دماغ پیانو بجانے والا کا ہے اور کونسا وائلن بجانے والے کا۔ وہ کیوں؟ اس لئے کہ پیانو میں دونوں ہاتھ ایک ہی طریقے سے استعمال ہوتے ہیں، وائلن میں بائیں ہاتھ کی انگلیاں باریکی کا کام کرتی ہیں اور یہ سیدھے ہاتھ سے مختلف ہوتا ہے۔ موٹر کورٹیکس پر ایک نظر بتا سکتی ہے کہ سکینر میں کونسی قسم کا موسیقار موجود ہے۔
اور اس سے بھی زیادہ پڑھا جا سکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ ہاتھ کو استعمال کیسے کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر بریل پڑھنے والوں کے کورٹیکس میں انگلی کا لمس پراسس کرنے کا حصہ بڑھ چکا ہوتا ہے۔ دماغ صرف بیرونی دنیا کا عکاس نہیں، “آپ” کی بیرونی دنیا کا عکاس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرینا ولیمز اور وینس ولیمز ٹینس کے بہت سے اعزازات جیت چکیں۔ انہوں نے برسوں ٹینس کی تربیت میں لگائے۔ قدم کیسے رکھنا ہے۔ مڑنا کیسے ہے۔ ریکٹ کی پکڑ۔ کلائی سے کنٹرول۔ نشانہ۔ شاٹ۔ بھاگنا۔ ہزاروں گھنٹے اسی کام پر۔ ان کی فتوحات ان کی دماغی مشینری کو تراشے جانے کا کمال ہے۔
آپ نے شاید میلکم گلیڈویل کا دس ہزار گھنٹے کا اصول پڑھا ہو کہ کسی چیز میں مہارت کے لئے دس ہزار گھنٹے اس پر لگانا ضروری ہے۔ اگرچہ یہ عدد ٹھیک کیلکولیٹ کرنا ناممکن ہے لیکن عمومی طور پر یہ درست آئیڈیا ہے۔ آپ کو بار بار دہرائی کی ضرورت ہے۔ یہ مشق دماغ پر نقوش بنا دیتی ہے۔
جب ایک طالبعلم اپنے امتحان کے لئے مہینوں تیاری کرتا ہے تو دماغ کے مادے پر اس کے بنے ہوئے نشان برین سکین میں برہنہ آنکھ سے نظر آ جاتے ہیں۔ آپ جس پر وقت لگاتے ہیں، وہ دماغ کو تبدیل کرتا ہے۔ لیکن کیا مشق دماغ کی فزیکل حالت پر فرق ڈالتی ہے؟ اور کیسے؟
یہ جواب زیادہ دلچسپ ہے کیونکہ آپ صرف وہی نہیں جو آپ کھاتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ ہضم کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

ساتھ لگی تصویر پولگار فیملی کی ہے

Facebook Comments