سانحہ ساہیوال پر چند سوالات ۔۔۔ منصور ندیم

وہ پوچھنا یہ تھا کہ کیا شناختی کارڈ لیٹر بکس میں ڈال دیں ؟

سانحہ ساہیوال پر چند سوالات !

1 – کیا ریاست مدینہ بنانے والے یہ بتائیں گے کہ ” ریاست مدینہ میں کیا بے گناہ ماں باپ کو ایسے بچوں کے سامنے قتل کیا جاتا تھا”؟

2- کیا ان مقتولین کے معصوم بچوں کی گواہی کے بعد اور موقع پر موجود عوام کی طرف سے فلمائی جانے والی ویڈیوز کے بعد بھی انصاف کے لئے جے آئی ٹی کی ضرورت باقی رہتی ہے؟

3 -مقتولین قتل ہونے سے پہلے رنگ برنگی وردیوں یا لباس والے سیکیورٹی اداروں کے افراد کو پیسوں کی آفر اس لئے کر رہے تھے کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ان کو لوٹنے والے کوئی ڈاکو ہیں، اس لئے کہ نہ وہ اپنے لباس سے نہ اپنی گاڑی سے اور نہ کسی اور شناختی علامت سے کسی سیکیورٹی ادارے کے لگ رہے تھے؟

4- کیا ان بچوں کی تکلیف کا ازالہ ممکن ہے ؟

5- پریس کلب اور مختلف جگہوں پر مظاہرے کر نے سے کیا ہوگا؟ ابھی تک تو یہ ہی طے نہیں ہے کیا جاسکا کہ اصل مجرم کون ہے؟ کیونکہ جس طرح اس مقدمے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوئی ہے اس سے اس مقدمے کے انجام کا بھی پتہ چل گیا۔ جس طرح اب تک کسی نے اس سانحے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا، اسی طرح کبھی یہ بھی معلوم نہ ہو سکے گا کہ وردی والے دہشت گردوں نے کس کے حکم پر یہ ظلم روا رکھا۔

اگر ان سوالات کے جواب ملنا ممکن نہیں ہیں تب میرا خیال ہے کہ جن جن لوگوں کو لگتا ہےکہ  سانحہ ساہیوال ایک ظلم ہے ، وہ یقینا اس ملک کے مقدس سیکیورٹی اداروں کے غدار ہیں۔ اور ان سیکیورٹی اداروں کی تقدیس ہی ملک کی تقدیس ہے، حیرت ہے کہ صرف 4 لوگوں کے مرنے پر انہیں آج تکلیف محسوس ہورہی ہے ، انہیں گزشتہ دہائیوں سے فاٹا ، شمالی وزیرستان، بلوچستان، اور کراچی کی گلیوں میں بہتے ہزاروں افراد کا لہو کیوں نظر نہیں آیا، یہ سیکیورٹی ادارے تو ہمیشہ سے ہی ایسے آپریشن کرکے دہشتگردی کی کمر توڑتے رہے ہیں، اور دانشوران ملت ان کے قصیدے بھی گاتے رہے۔
یہ محب الوطن دانشور اس سے پہلے کے ہر ظلم پر یہی کہتے تھے کہ

“جس جس کو ان سیکیورٹی اداروں پر تکلیف ہے وہ یہ ملک چھوڑ کر چلا جائے یا اپنا شناختی کارڈ قریبی لیٹر بکس میں ڈال دے”

ویسے بھی یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے، پاکستان میں 99% جتنے بھی آپریشن دہشتگردی کی بنیاد پر ہوئے ہیں، چاہے وہ کوئٹہ  میں اخروٹ آباد   میں جب ایک حاملہ عورت ہاتھ ہلا ہلا کر زندگی کی بھیک مانگتی رہی لیکن ان  ظالموں نے ترس نہیں کھایا اور دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس بچے کو ماں کے ساتھ اس کی کوکھ میں ہی موت کی نیند سلادیا تھا، جو کہ  ایف سی نے ایک خودساختہ پولیس مقابلہ کیا تھا،پھر  چاہےکراچی میں راو انوار کے ہاتھوں مرنے والا نقیب اللہ   اور اس کے ساتھ مرنے والے دوسرے لڑکوں کو جن کو پہلے دوسرے ریاستی اداروں نے سال بھر پہلے گھروں سے گرفتار کیا تھا،  یا چاہے قریب 9  سال پہلے کراچی کی سڑکوں پر رینجرز کے ہاتھوں مرنے والا سرفراز تھا، یہ سب اور اس کے علاوہ ہر دوسرے روز جن لوگوں کو ماورائے عدالت مارا گیا ہے یا جن کو لاپتہ کیا جاتا رہا ہے ، یا وہ ہزاروں لوگ جو ابھی بھی نجی عقوبت خانوں میں ہونگے وہ سب بھی اسی طرح بغیر کسی وارنٹ، سادہ لباس کپڑوں والوں اور پرائیویٹ گاڑیوں والوں کے ہاتھوں ہی  مارے یا لاپتہ کئے جاتے رہے  ہیں ، تمام سیکیورٹی اداروں کا یہی چلن رہا ہے ، بس اس دفعہ موقع پر ویڈیو بن گئی اور یہ واقعہ بدقسمتی سے  (اداروں کے لئے ) یا خوش قسمتی سے( پاکستان کے دوسرے صوبوں کے لئے) کہیئے کہ پنجاب میں ہوا ہے ۔ تو ہمارے بہت سارے درد دل رکھنے والے حضرات اس وقت غم کی کیفیت میں آگئے ہیں ۔کچھ دانشور ابھی  بھی آدھا سچ ہی بول رہے واقعے کی مذمت تو کر رہے ہیں مگر اصل مجرموں پر تنقید کرتے ہوئے ان کے قلم کانپتے ہیں ، بد قسمتی سے ایسے دانشور بھی ہیں جوعلی الاعلان  کہہ رہے ہیں کہ اس قلم سے سچ تو نہیں لکھ سکتے لیکن اس قلم   سے شلواروں  کے  آزار بند کا  کام لے لیں گے۔
تو میری بھی گزارش ہے ان تمام لوگوں سے جو دو دن سے اس واقعے کو ظلم قرار دے رہے ہیں وہ اس ملک پاکستان سے غداری کر رہے ہیں وہ یا تو تائب ہوں اور وقت پر ٹیکس کی ادائیگی کریں تاکہ سیکیورٹی ادارے آپ ہی کے دئیے گئے ٹیکسز سے  مزید گولیاں خرید سکیں  اور اس طرح کے آپریشن کے لئے اور جو ابھی تک اس واقعے پر فقط افسردہ تو  ہیں  اور ماضی میں ہر جائز تنقید پر بھی  دوسروں سے یہ مطالبہ کرتے تھے آج  وہ خود ” اپنا اپنا شناختی کارڈ قریبی لیٹر بکس میں ڈال آئیں “۔ کیونکہ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply