مولوی کون ہے؟۔۔۔۔آصف وڑائچ

میں پہلے بھی اس بے محل سوال پر کئی بار ادب سے گزارش کر چکا ہوں کہ جب میں “مولوی” کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں تو اس سے میری مراد داڑھی یا کسی مخصوص مذہبی وضع قطع رکھنے والے فرد سے نہیں ہوتی. ہمارے ہاں داڑھی کا تعلق مذہبی لوازمات کا حصہ ضرور ہے لیکن ہر داڑھی والا شخص ضروری نہیں کہ “مولوی” بھی ہو. اور نہ ہی میری مراد کسی محلے کی مسجد میں پانچ وقت نماز پڑھانے والے امام سے ہے کیونکہ محلوں کی مساجد کا امام یا تو بوجہ وراثت سابقہ امام کا سب سے چھوٹا بیٹا بنتا ہے یا پھر کوئی غریب حالات و واقعات کے تھپیڑے کھاتا ہوا حادٹاتی طور پر بنتا ہے. بہر حال میرے اس مضمون کو مذہب یا مذہبی علماء کے خلاف نہ سمجھا جائے.

“مولوی” سے مراد ایسا شخص ہے جو اپنے مذہبی و سیاسی نظریات جنہیں وہ اپنے تئیں حرفِ آخر سمجھتا ہے کو ایک مخصوص زاویے سے سوچنے اور پھر اسے دوسروں پر لاگو کرنے پر بضد ہو.
لفظ ‘مولوی’ کسی بھی زبان کی لغت نہیں، یہ غلط العام ہے جو ہندوستان کے پرو فارس مسلم معاشرے میں افکاری مجہول پنے کے سبب خود کار طریقے سے ایجاد ہو گیا. یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ برصغیر کے مسلمان کچھ اور تو ایجاد نہ کر پائے البتہ ‘مولوی’ سو فیصد انہی کی ایجاد ہے.
چونکہ یہاں کے لوگ صدیوں سے غلامی اور ناخواندگی کی زندگی بسر کرتے آئے تھے، ہر معاملے میں تقلید اور غلامی ان کی گھٹی میں رچی بسی تھی لہذا مذہبی معاملات کے اندر بھی ان میں وہی غلامانہ سوچ کارفرما رہی. یہ لوگ معمولی سے معمولی معاملے میں بھی ہمیشہ کسی “علم والے” کے محتاج رہے. چنانچہ امورِ مذہبیات میں ‘مولوی’ یہاں اندھوں میں کانا راجا بن گیا. اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، انہیں بھی مولوی کی عادت پڑ گئی، روز مرہ کے ہر معاملے کو مولوی کی آنکھ سے دیکھنے لگے، خصوصاً مذہبی معاملات میں باقاعدہ مولوی کے محتاج ہو کر رہ گئے.
اکثر مذہبی پیشواؤں کی تعلیمات سے ہم نے سیکھا کہ جس طرح ہم گاڑی کو دھلوانے کیلئے سروس اسٹیشن لے جاتے ہیں اسی طریق پر ہم اپنے گناہ دھلوانے کے لئے کسی پیر، پنڈت، پادری یا مولوی کے پاس جاتے ہیں. جس طرح ہم گٹر کی صفائی کے لیے چوہڑا (معذرت کے ساتھ) ڈھونڈتے پھرتے ہیں اسی طرح اپنے اندر کے گٹر (باطن) کی صفائی ستھرائی کے لیے ہم کسی ‘پہنچے’ ہوئے پیر صاحب یا کسی بزرگ مولوی کا فیض تلاش کرتے ہیں. ہم چاہتے ہیں کہ ایک بنا بنایا آسمان سے امپورٹ شدہ ‘بزرگ’ ہو جو ہمارے مطلوبہ مذہبی لوازمات کو ایک ماہر حلوائی کی طرح شیرے میں ڈھال کر ہمیں پیش کر دے اور ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کئے بغیر ٹواب اور برکتیں سمیٹتے رہیں. مولوی صاحب یا بابا جی کرامات کرتے رہیں اور ہم اپنے روز مرہ کے کام کاج کے دوران بھی ان کرامات سے مستفید ہوتے رہیں. اللہ اللہ خیر صلہ
فی زمانہ ‘مولوی’ کی اصطلاح ایک ایسے شخص کیلئے استعمال ہوتی ہے جو کسی نہ کسی فرقے کی پیدائش یا بقا میں معاون و سہولت کار کا کردار انجام دیتا ہے. روز مرہ زندگی کے مسائل کو مذہبی خطوط پر استوار کرنے اور انہیں پُرتشدد انداز میں حل کرنے کیلئے کوشاں رہتا ہے. معمولی سے معمولی بات میں بھی کسی طرح مذہب کا ٹانکا فٹ کر دیتا ہے جس سے بعض اوقات عام لوگ زچ بھی ہو جاتے ہیں. خود سے قدرے مختلف مذہبی یا سیاسی نظریہ رکھنے والے کو سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا جاہل گردانتا ہے اور اسے منطق و دلیل سے قائل کرنے کے بجاۓ قاتلانہ حملے یا کم از کم مار کٹائی کے  ذریعے ‘سیدھا راستہ’ دکھانے پر یقین رکھتا ہے. دوسروں کے اعمال کو ناکافی جانتے ہوئے انہیں اللہ کی قربت سے محروم جبکہ خود کو اللہ کی ہر رعایت کا عین مستحق سمجھتا ہے. اپنے اکابرین کو حرفِ آخر جبکہ مخالف فرقے کے اکابرین کو منافق سمجھتا ہے.
مولوی وہ ہوتا ہے جو قرآن کی صریح آیات کے مقابلے میں اپنے بزرگوں کے اقوال کو یہ کہہ کر زیادہ معتبر جانتا ہے کہ میرے بزرگ یقیناً قرآن کو سب سے زیادہ سمجھتے ہوں گے لہذا مزید کچھ کہنے یا سمجھنے کی حاجت باقی نہیں رہی.
‘مولویانہ’ ذہنیت کے لوگ اگرچہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی موجود ہیں لیکن بالخصوص مدرسوں میں ان کی آبیاری بیج بونے سے تناور درخت بننے تک ہوتی ہے. یہ لوگ عام و سائینسی تعلیم کو دنیاوی تعلیم قرار دیتے ہیں بلکہ بعض تو شیطانی علوم سے نسبت دیتے ہیں. دنیا و کائنات کی تحقیق و جستجو کو وقت کا ضیاع یا رب سے مقابلہ قرار دیتے ہیں. ہر سائنسی ایجاد یا دریافت کو مذہبی روایات کے تناظر میں تولتے ہیں. بعض کو فتنہ اور بعض کو قیامت کی نشانیاں قرار دیتے ہیں. ان کے نزدیک الہامی کتابوں سے باہر نکل کر سوچنا یا تو ناممکن ہے یا گناہ کبیرہ، حتیٰ کہ ایسے مولوی بھی پائے گئے ہیں جو پتلون شرٹ کو کفار کا لباس کہتے ہیں اگرچہ کفار کی تیار کردہ ٹیکنالوجی، گاڑیاں، جہاز، کمپیوٹر، موبائل وغیرہ کو استعمال کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں لیکن انکی دیگر اشیا مثلاً کوکنگ آئل، صابن، واشنگ پاؤڈر، شیپمو اور حلال اشیا کو بھی حرام قرار دیتے ہیں.
تاریخ بتاتی ہے کہ مکتبہ دیو بند نے اٹھارہویں صدی میں جب ٹرین کو ہندوستان میں پہلی بار دیکھا تو اسے دجال قرار دے دیا اور مسلمانوں کو اس کے سفر سے منع فرما دیا، چونکہ بعض کتابی روایات کے مطابق دجال کی ایک آنکھ ہوگی اور وہ سرعت سے مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی جانب تیزی سے سفر کرے گا اور چونکہ اس وقت ٹرین کی بھی ایک ہی لائٹ ہوتی تھی لہازا ٹرین دجال کی نشانی کہلائی ۔ اسی طرح لاؤڈ اسپیکر، کیمرہ اور پرنٹنگ پریس کے خلاف فتوے تاریخ کا حصہ ہیں. جب اپالو مشن چاند پر پہنچا تو پاک و ہند کے کئی علماء نے فتویٰ دیا کہ جو شخص کفار کی اس یاوہ گوئی پر یقین کرے گا اس کا نکاح باطل ہو جائے گا.
سو معلوم ہوا کہ مولوی دراصل ایک ایسی سوچ کا نام ہے جس کا داڑھی یا کسی مخصوص فرقے، حلیے یا قوم سے علاقہ نہیں، نہ ہی ہر داڑھی والا مولوی ہوتا ہے بلکہ بعض کلین شیو افراد بھی ایسے ہی افکار کے حامل ہیں یعنی وہ بھی اندر سے ‘مولوی’ ہی ہیں.
اس طرح کی سوچ رکھنے والے افراد مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب مثلاً ہندو، سکھ، بدھ مت اور عیسائیت وغیرہ میں بھی بکٹرت پائے جاتے ہیں. اگر کوئی پادری اسی طرح کے مجہول خیالات رکھتا اور پرچار کرتا ہے تو اسے عیسائیوں کا ‘مولوی’ کہا جائے گا.
‘مولوی’ پر جب منطق و دلائل کی روشنی میں تنقید کی جاتی ہے تو مولوی اور ان کے سادہ لوح مقلد سخت شش و پنج میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مولوی پر تنقید کرنے سے اسلام بدنام ہوتا ہے، مولوی کی حرکات کو نشانہ بنانا اسلام کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے. جبکہ حیرت ہے کہ ان کی نظر میں اسلام تب بدنام نہیں ہوتا جب مولوی فرقہ فرقہ، کافر کافر کھیلتا ہے، اسلام تب بدنام نہیں ہوتا جب مولوی ایمزون کے وحشی جنگلیوں کی طرح ہو لالا کرتے سڑکوں پر نکل پڑتا ہے، توڑ پھوڑ کرتا ہے اور ملکی املاک کو نقصان پہنچاتا ہے.
اسلام اس وقت بھی بدنام نہیں ہوتا جب کسی نئی ٹیکنالوجی یا سائنسی تحقیق کو مضحکہ خیز دلائل کے زریعے قرآن سے ثابت کرنے کی سعی کی جاتی ہے.
اسلام تب بدنام نہیں ہوتا جب استنجا، مباشرت و دیگر مسائل پر مضحکہ خیز واعظ کیے جاتے ہیں. اسلام تب بھی بدنام نہیں ہوتا جب مولوی معصوم بچوں کو مارتا پیٹتا اور زیادتی کا نشانہ بناتا ہے، اسلام تب بدنام نہیں ہوتا جب مسلمانوں کے جتھے شورش زدہ ملکوں میں زبردستی گھس کر مسلمانوں کی ہی بہنوں بیٹیوں کو سر بازار نیلام کرتے پھرتے ہیں.
مولوی وہ ہوتا ہے جو اپنی عورتوں پر ہلکے پھلکے تشدد کا نہ صرف قائل ہوتا ہے بلکہ سختی سے اس پہ کاربند ہوتا ہے. وہ بھی مولوی ہی ہوتا ہے جو مسئلہ پوچھنے والی مطلقہ کو ‘بے لوث’ حلالے کی آفر کرتا ہے. مولوی وہ ہے جو کرکٹ و دیگر کھیلوں کو کفار کے کھیل قرار دیتا ہے. مولوی اپنی بہن بیٹی کو کالج اور یونیورسٹی نہیں بھیجنا چاہتا مگر اپنی عورت کی ڈلیوری لیڈی ڈاکٹر سے ہی کروانا چاہتا ہے.
مولوی وہ ہے جو بچوں کو جھڑک کر مسجد کی سب سے پچھلی صف کی جانب دھکیل دیتا ہے اور خود ساٹھ ساٹھ فٹ لمبی حوروں کی ٹرانسپیرنٹ ٹانگوں سے جھولے لینے کی خواہش میں عبادت کرتا ہے.
مولوی وہ ہے جو بلاؤں اور بیماریوں سے شفا کے لئے دم درود اور من گھڑت وظیفے تیار کرتا ہے.
مولوی وہ ہے جو انسانی سروں کو کاٹ کر فٹبال کھیلنے والوں کو سلامتی و امن کا پیامبر سمجھتا ہے. مولوی وہ ہے جو بجلی، روشنی اور ائیر کنڈیشنڈ مسجدوں میں بیٹھ کر جھولی اٹھا اٹھا کر انہی کو بد دعائیں دیتا ہے جنہوں نے یہ سب آلاتِ آسائش اسے فراہم کیے ہیں.
مولوی مکالمہ نہیں مناظرہ کرتا ہے اور ہار کر بھی نہیں ہارتا، الٹا جیت کے شادیانے بجاتے ہوئے بندروں کی طرح اچھلتا کودتا میدان چھوڑتا ہے. مولوی وہ ہے جو مسجدوں، مقبروں اور مزاروں کے لئے چندے اور زکوٰتیں اکٹھا کرنے میں دن رات ایک کر دیتا ہے لیکن اسی محلے میں موجود یتیم بچوں کی اسے خبر تک نہیں پہنچتی. مولوی وہ ہے جو ریڈ لائٹ ایریا میں موجود مسجد کی امامت اور طوائفوں کے چندوں سے میلاد تو کرواتا ہے لیکن کسی طوائف سے جا کر یہ نہیں پوچھتا کہ تو یہاں کیسے پہنچی.
مولوی وہ ہے جو دوسروں کے ایمان کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے اور موقع ملتے ہی اس کے ایمان پر شب خون مار دیتا ہے.
مولوی مخصوص لباس اور ظاہری وضع قطع کو مذہبی فریضہ و دین کی اعلیٰ خدمت سمجھتا ہے، سر پہ عمامہ رکھنے کو دینی شعار جبکہ ٹخنوں سے نیچے سرکتے پائنچوں کو تکبر کی علامت سمجھتا ہے.
مولوی کا دین اپنے فرقے کی کتابوں سے شروع ہو کر اپنے فرقے کے علما کی اندھی تقلید پر ختم ہو جاتا ہے. مولوی کی فقہ مباشرت کے جملہ مسائل سے شروع ہو کر استنجے کے ڈھیلے پہ ختم ہو جاتی ہے.
مولوی رمضان اور عید کے چاند پر بچوں کی طرح لڑتا جھگڑتا ہے اور رمضان میں کسی کو کھاتے دیکھ کر اسکا روزہ خراب ہو جاتا ہے.
مزے کی بات یہ ہے کہ ایک فرقے کا مولوی دوسرے فرقے کے مولوی کا پیٹی بھائی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کا سخت ناقد ہوتا ہے اور ان کے درمیان پروفیشنل جیلیسی اپنی انتہا پر ہوتی ہے حتیٰ کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا بھی گناہ سمجھتے ہیں.
مولوی پینٹنگ، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ کو اللہ کی عطا کردہ صلاحیت نہیں سمجھتا بلکہ کبیرہ گناہ بتلاتا ہے. آرٹ اور موسیقی سیکھنے والوں کو جہنمی کہتا ہے جبکہ مذہب کے نام پر لوگوں کی بے عزتی اور قتل و غارت کرنے والوں کو جنتی کہتا ہے.
مولوی وہ ہے جو اللہ کو رب العالمین اور رسول کو رحمت اللعالمین پڑھتا پڑھاتا تو ہے لیکن اس کا عملی مظاہرہ کرنے سے قاصر ہے.

مولوی نے سائنس پڑھی ہو یا نہیں البتہ وہ خود سب سے بڑا سائنسدان ہوتا ہے. مولوی بیک وقت فلاسفر، سپیس انجینیر، سائکیٹرسٹ اور ڈاکٹر ہوتا ہے البتہ مریض کو دوا کے ساتھ تعویز بھی لکھ مارتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

دوستو! آج دنیا کے مسلمان ترقی و خوشحالی میں پیچھے ہونے کے ساتھ اخلاقی انحطاط کا بھی سخت شکار ہیں. اندازہ کریں کہ برصغیر کی قدیم ہندو نسل جو مذہبی اعتبار سے انتہائی جاہل ترین تھی وہ بھی اب سمجھنے لگی ہے کہ بت پرستی ایک روایت کے سوا کچھ نہیں آج وہ سائنس اور اکانومی میں بڑی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جبکہ مسلمانوں کی نسل آج بھی پرانی لکیر کو پیٹ رہی ہے. خصوصاً ملا پروڈکشن یا تو ذہنی بانجھ ہے یا پھر قدیم پنڈتوں اور پادریوں کی طرح مذہب کو کاروبار کی طرح چلا رہی ہے.
مسلمان جن کے متعلق طوطے کی طرح کافر کافر کی رٹ لگائے رکھتے ہیں وہی کافر آسمانوں کی بلندیوں سے لے کر سمندروں کی تہوں تک کائنات کی تسخیر کرنے میں لگے ہیں. ساری دنیا کی اکانومی کا کنٹرول بھی انہی کے ہاتھوں میں ہے جس میں سے چند دانے وہ ان کے چگنے کے لئے بھی پھینک دیتے ہیں. ان دانوں سے جب مذہبی جنونیوں کے بھوکے پیٹ کچھ بھرتے ہیں تو یہ ذہنی مریض پھر نئے سرے سے لکیر پیٹنے لگتے ہیں.
پوری دنیا بشمول سعودیہ اور تمام دوسرے مسلم اکثریتی ممالک میں بڑے بڑے کاروباری برینڈز، فوڈ چینز، لگثری گاڑیاں، ہوائی جہاز اور اربوں کھربوں مالیت کی کمپنیاں غیر مسلموں کی ملکیت ہیں. بیشتر مسلم ممالک کو قرضے اور امداد بھی وہی فراہم کرتے ہیں. ہمارا پیارا پاکستان بھی سود کی مد میں کروڑوں ڈالر سالانہ انہیں ادا کرتا ہے. جس انٹرنیٹ، گوگل، موبائل و نیٹ ورکنگ پر بیٹھ کر ہم دنیا کے حالات دیکھتے اور مذہبی و جزباتی کمنٹس کر کے اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ جیسے بڑا تیر مار لیا، درحقیقت وہ سب کچھ بھی غیر مسلموں کی ہی عطا ہے.
اصل سچائی یہ ہے کہ مسلمان صدیوں سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ اس کا ادراک بھی نہیں رکھتے کہ در حقیقت وہ غلام ہیں اور تب تک غلام رہیں گے جب تک وہ مذہبی جنونیت کے چنگل سے باہر نہیں نکلتے.
موٹی سی بات ہے. مذہبی بحث کا کہیں کوئی انت نہیں ہوتا. کسی بھی فرقے کا مولوی ہو مفتی ہو یا ذاکر، الٹی سیدھی دلیلیں اور پراسرار مثالیں دے کر اپنے گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں مشغول رہتا ہے حالانکہ سمجھنا چاہیے کہ حد سے زیادہ مذہبی و جذباتی ہونا ایک نفسیاتی مسئلہ ہے. فرقہ بندی و مسالک کی چخ چخ لا یعنی اور وقت کا ضیاع ہے. صدیوں سے مذاہب نے انسانوں کو نفرت اور فساد کے سوا کچھ نہیں دیا. آج دنیا کو نئی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے. جو لوگ قدیم کہانیوں اور روایات میں الجھے رہتے ہیں وہ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی بجائے رنج و الم اور نفرت کی آگ میں جھلسے رہتے ہیں اور دنیا کی قائم مقام قوتوں کےمحض آلہ کار بن کر رہتے ہیں.
پاکستان کے اندر دہشتگردی کے حوالے سے پچھلے بیس سال سے جو کچھ ہوا اس کے باوجود دنیا میں پاکستان کی جو تھوڑی بہت عزت یا بچت ہے اس کی بنیادی وجہ ایٹمی صلاحیت ہے ورنہ پاکستان کے پاس جدید اسلحہ نہ ہوتا تو آج پاکستان کی درگت عراق اور شام سے مختلف نہ ہوتی. آج کی سب سے بڑی طاقت سائنس اور تجارت ہے.
لہازا مذہبی، لسانی اور قوم پرستی کی جنونیت سے نکلو اور ٹیکنالوجی و علم کی دنیا میں قدم رکھو کیونکہ جدید دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے.

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply