زرد رُت کی رخصتی ۔۔۔۔۔۔مونا شہزاد

نیلوفر اپنی خالی خالی آنکھوں سے اپنی کلائیوں کو بے یقینی سے دیکھ رہی تھی ۔اس نے سوچا :
“میری کلائیاں ایسی سونی تو کبھی نہ تھیں۔”
اسے اچانک ایسے محسوس ہوا کہ اسفندیار نے آہستگی سے خفگی سے اس کے کان میں سرگوشی کی ہو۔
“سجنی آئندہ تیری کلائیاں میں نے خالی دیکھیں، تو تجھ سے ہمیشہ کے لئے ناراض ہوجاونگا۔”
نیلوفر ایک دم سے بڑبڑائی:
“میں کیسے تمھیں ناراض کرسکتی ہوں؟
اسفی! رکو ناراض مت ہونا، میں ابھی سجتی سنورتی ہوں ۔”
اس نے اپنی وارڈ روب کا دروازہ کھولا اور جلدی سے اپنا خوبصورت گوٹے والا زرد جوڑا نکالا،اس نے نہا کر جوڑا پہنا، اپنی کلائیوں کو سبز اور زرد رنگ کی چوڑیوں سے بھرا، کانوں میں جھمکے پہنے ،ہلکا سا میک اپ کیا ،وہ تیار ہوکر باہر لان میں آکر ٹھٹھک گئی پھر چیخی:
“دیکھو اسفندیار میں تمھارے لئے آج پھر سج گئی، اسفند تم کہاں ہو؟
وہ پاگلوں کی طرح ہر پیڑ کے پیچھے جھانک رہی تھی۔اس کے سر پر درختوں کے زرد پتے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔وہ روتے روتے گھٹنوں کے بل گر  پڑی اور گم صم سی بولی:
“وہ اکثر کہتا تھا :
جاناں! یہ جدائی کا رنگ زرد کیوں ہوتا ہے؟
ہمیشہ وچھوڑے کو خزاں سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟
مجھے تو زرد رنگ اور موسم خزاں دونوں بہت پسند ہیں ۔ ۔۔۔
لو! آج بیچ خزاں کے وہ مجھے تنہا چھوڑ کر لحد میں سو رہا ہے۔۔۔۔۔
میں آج پھر اس امید پر زرد رنگ میں ملبوس ہوں،
کہ اچانک وہ کہیں سے نمودار ہوگا۔۔۔۔
مجھے اپنی باہوں میں  گھما  کر کہے گا ،
جاناں! تم ،یہ زرد ملبوس اور موسم خزاں ۔۔۔۔
سب ہی تو رب کی عطا ہیں ۔
میں مسکرا کر شرما کر سر اس کے کاندھے پر رکھ دوں گی،
مگر کیوں جی کو دھڑکا سا ہے۔۔۔۔
کیا اب یہ خواب کبھی تعبیر پا سکے گا؟
نیلوفر نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور پھر پوری قوت سے چلائی:
“اسفندیار خدارا لوٹ آو، دیکھو تمھاری نیلو مر رہی ہے۔”
کاشانہ نیلوفر میں اچانک ہلچل سی مچی،اماں بی لاٹھی ٹیکتی باہر آئیں، نیلوفر کے چھ سالہ اور دس سالہ بیٹے بھاگتے ہوئے ماں کے پاس پہنچے،نیلوفر جیسے اپنے حواس کھو بیٹھی تھی۔اماں بی نے جلدی سے ڈرائیور کو ڈاکٹر صاحب کے گھر کی طرف دوڑایا۔آج لگتا تھا کہ نیلوفر پر جیسے دیوانگی کا دورہ پڑ گیاتھا، اتنے دنوں کا سکتہ آج ٹوٹا تھا، وہ غم سے اتاولی ہوئی جارہی تھی، وہ سسک سسک کر کہہ رہی تھی :
“دیکھیں اماں بی ! میں نے زرد ملبوس بھی پہنا ہے،چوڑیاں بھی پہنی ہیں، دیکھیں موسم خزاں بھی ہے مگر اسفندیار کیوں نہیں ہیں؟”
اماں بی کا بوڑھا دل کٹ رہا تھا،ان کی جواں سالہ پوتی بیوہ ہوچکی تھی،نیلوفر کا اسفندیار ، اس کی میت موت کی وادیوں میں کھو چکی تھی ، مگر وہ پگلی ابھی بھی اپنے اسفندیار کو یہیں کہیں ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ اس پر ہذیان طاری تھا ،اس کا کاجل اس کے آنسوؤں سے بہہ گیا تھا ،وہ زور زور سے چلارہی تھی ،اسی اثنا میں ڈاکٹر صاحب آ پہنچے انھوں نے آکر نیلوفر کو سکون بخش ٹیکہ لگا دیا، اور نیلوفر گہری نیند کے سمندر میں ڈوب گئی۔ اماں بی نے نیلوفر کے بیٹوں کو اپنے ساتھ ان کے کمرے میں چلنے کو کہا ۔
نیلوفر کی شادی اماں بی نے بہت چھوٹی عمر میں کردی تھی، ابھی نیلوفر نے دسویں کے امتحانات ہی دیئے تھے کہ اماں نے اسے اسفندیار سے بیاہ دیا۔اسفندیار اور نیلوفر کی جوڑی چاند سورج کی جوڑی تھی،اس پر اسفندیار کی وارفتگی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ابھی کچھ دن پہلے ہی نیلوفر اماں بی کے پاس بچوں کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے آئی تھی،اسفندیار نے اسے پندرہ روز کے وعدے کے ساتھ اماں بی کی طرف بھیجا تھا،مگر ہمیشہ کی طرح چوتھے روز ہی اس نے نیلوفر کو فون کرکے کہا:
“نیلو ! میرے صبح و شام بے رنگ ہوگئے ہیں، میں آپ کو اور بچوں کو لینے آرہا ہوں، بس آپ میرا پسندیدہ زرد رنگ پہن کر تیار ہوجائیں ۔”
نیلوفر کو پہلے تھوڑا سا غصہ آیا اس بار بھی وہ صرف گن کر چار دن ہی اپنے میکے گزار پائی تھی مگر پھر اسے اسفندیار کی محبت کا خیال آگیا ، شادی کے اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی اسفند اس کا دیوانہ تھا ،اس نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا ،جس نے ایک محبت کرنے والا جیون ساتھی اسے عطا کیا تھا ۔شام کو وہ اس کی فرمائش کے مطابق زرد ملبوس پہنے ،سجی دھجی کھڑی تھی جب خبر آئی کہ اس کا ایکسڈینٹ ہو گیا ہے،وہ جب تک اسپتال پہنچے ،اسفندیار دم توڑ چکا تھا، نیلوفر بے آسرا ہوچکی تھی ،نیلوفر یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھی کہ اس کے آسمان محبت کا سورج غروب ہوچکا ہے ۔نیلوفر کی ذہنی کیفیت انتہائی خراب تھی،اس کی آنکھوں سے ایک آنسو نہیں بہا تھا ،وہ ہر ایک سے دیوانوں کی طرح پوچھتی :
” تم نے میرے اسفی کو دیکھا ہے؟”۔
لوگ اس کی حالت پر ترس کھاتے ، اسفندیار کی تجہیز و تدفین ہوگئی ، ان کے گھر تعزیت کے لئے آنے والوں کا تانتا سا بندھا ہوا تھا ،مگر نیلوفر کی خیالی دنیا آباد تھی ،وہ روزشام کو سج دھج کر تیار ہوکر بیٹھتی اور کہتی :
“اماں بی ! اسفی بس آتے ہی ہوں گے۔”
یہ تماشا روز ہوتا،آس پڑوس کے لوگ کانوں کو ہاتھ لگا کر پیٹھ پیچھے طرح طرح کی باتیں بناتے،زبان کا چسکا تو لوگوں کی گھٹی میں پڑے شاید زمانے بیت چکے ہیں ۔ خواتین کا خیال تھا کہ نیلوفر ڈراما کر رہی تھی۔ شاید الزام تراشیوں کی معاشرتی برائی اس قدر عام ہوچکی ہے کہ کسی کے اوپر انگلی اٹھاتے وقت لوگ بھول جاتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کی باقی چار انگلیاں ان کی اپنی ذات کی طرف اشارہ کررہی ہیں ۔اس ساری صورتحال میں نیلوفر کی دادی اور چند ایک ان کی پڑوسن دوستیں انتہائی پریشان تھیں، کیونکہ ڈاکٹر حضرات نے انھیں بتا دیا تھا کہ اگر نیلوفر کی حالت نہیں بدلی تو اس کے زندگی بھر نفسیاتی مریضہ بن کر زندگی بتانے کے قوی امکانات تھے ۔
آج مہینے بعد نیلوفر روئی تھی، تو اماں بی نے سکھ کا سانس لیا ان کو یقین تھا کہ اب وہ بہتر ہوجائے گی۔
وقت کا پہیہ چلتا گیا، نیلوفر زندہ تھی ،وہ سانس لیتی ،گھر کے اور بچوں کے کام کرتی مگر اس کے اندر سے زندگی کی چاشنی ختم ہوچکی تھی ،وہ زیادہ تر سفید یا ہلکے رنگ کے کپڑوں میں ہی ملبوس نظر آتی ،اس کی آنکھوں سے کاجل روٹھ گیا تھا ،میک اپ تو بھول کر بھی اس نے کبھی نہیں کیا تھا ،وہ دن بھر زندگی کی مصروفیات میں اپنے آپ کو گم کرتی مگر اماں بی اسے اکثر اکیلے میں روتے دیکھتیں ،اکثر راتوں کو وہ لان میں بے چینی سے ٹہلتی رہتی ۔ اماں بی کا کلیجہ کانپتا وہ اس خیال سے خوفزدہ رہتیں کہ اگر ان کو کچھ ہوگیا تو پھر نیلوفر کس کے سہارے زندگی بتائے گی۔
آج ساتھ والی شاہین آنٹی کی بیٹی کی مہندی تھی،اماں بی کے اصرار پر نیلوفر بھی مہندی کی تقریب میں شامل ہوگئی۔سفید موتیوں والے سوٹ میں بغیر میک اپ کے بھی وہ ایک پری لگ رہی تھی، مہندی کی رسومات شروع ہوئیں تو شاہین آنٹی جو اماں کی اچھی سہیلی تھیں ان کے اصرار پر نیلوفر بھی جھجکتے ہوئے دلہن کو مہندی لگانے کو آگے بڑھی، مگر نازنین آنٹی جو شاہین آنٹی کی بڑی بہن تھیں اور انتہائی توہم پرست تھیں، انھوں نے اپنی چھوٹی بہن کو بری طرح ڈانٹا اور انتہائی بدتمیزی سے نیلوفر سے کہنے لگیں:
“بی بی خبردار جو تم نے اپنا “منحوس سایہ” ہماری بٹیا پر ڈالا، اپنا میاں تو” ڈائن” کھا گی ہے ،خبردار جو تو باقی کی شادی میں نظر بھی آئی ،چلو بھئی “سات سہاگنوں” سے رسم حنا شروع کرواو ۔”
نیلوفر کی حالت ایسی تھی ،جیسے کاٹو تو جسم میں لہو نہیں،ذلت کے احساس سے اس کا چہرہ سپید پڑ گیا۔ پوری محفل پر سکوت طاری تھا ، اس کی آنکھوں کی جھیلوں میں طغیانی آگئی تھی ۔نیلوفر کی ٹانگیں کاپنے لگیں ،اسے ٹھنڈا پسینہ آگیا ،اچانک اسے چکر سا آیا وہ گرنے کو تھی کہ اچانک دو مہربان ہاتھوں نے اس کو تھام لیا، وہ جہانزیب تھا،شاہین آنٹی کا بڑا بیٹا جو نیلوفر کا بچپن کا ساتھی بھی تھا،اس کی بیوی ابھی چند ماہ پہلے دوسرے بچے کی پیدائش پر ہونے والی کسی پیچیدگی کے باعث فوت ہوگئی تھی ۔اب شاہین آنٹی اس کی دونوں بیٹیوں کی دیکھ بھال اپنی بیٹی کی مدد سے کررہی تھیں ،جہانزیب فوج میں میجر تھا،اب اس کی پوسٹنگ گلگت ہوگئی تھی، دونوں ماں بیٹا بچیوں کو لے کر انتہائی پریشان تھے،شاہین آنٹی کے دو ہی بچے تھے،جہانزیب اور شہلا، شہلا کی شادی کے بعد آنٹی شاہین کو پانچ سالہ زوہا اور کچھ ماہ کی کی عفرہ کو سنبھالنا کارمحال لگ رہا تھا، جہانزیب نے اپنی خالہ کی بات گزرتے ہوئے سن لی تھی شاید اسی لئے وہ خواتین کی محفل میں بے جھجک داخل ہوگیا تھا،اس نے مہندی ہاتھ میں لے کر اپنی بہن کی ہتھیلی پر رکھی اور اپنی خالہ سے بولا:
“خالہ جان میری” نحوست” تو شہلا کے سہاگ اور خوشیوں کو نہیں کھا جائے گی؟
میں نے بھی تو اپنی بیوی حبیبہ کو چند ماہ پہلے کھویا ہے، میں بھی تو ایک” رنڈوا” ہوں۔کیا اس کا مطلب ہے میں حبیبہ کو کھا گیا،خدارا یہ ہندوانہ،جاہلانہ رسومات چھوڑ دیجئے ۔یہ “سات سہاگنوں” کا کیا تصور ہے؟
کیا سات سہاگنوں کے ہاتھوں لگائی ہوئی مہندی کامیاب اور خوش و خرم زندگی کی ضامن ہے؟”
محفل کو سانپ سونگھ گیا تھا۔جہانزیب مسکرایا اور بولا:
“ہمارے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ نے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی تعالی عنہ سے کیا،جو نہ صرف بیوہ تھیں، بلکہ عمر میں بھی ان سے بڑی تھیں ۔”
اب سارے لوگ بغلیں جھانک رہے تھے،جہانزیب اماں بی کے پاس گھٹنے کے بل بیٹھا اور بولا:
“اماں بی میں اور اماں بہت دنوں سے آپ کے پاس نیلو کا ہاتھ مانگنے آنا چاہتے تھے مگر اس خیال سے رکے رہے کہ پہلے شہلا کے فرض سے سبکدوش ہوجائیں ،مگر آج اس واقعے کے بعد میں اپنی بہن کی مہندی پر آپ سے نیلوفر کا ہاتھ مانگتا ہوں،میں نیلوفر اور اس کے بچوں کو بہت مان سے رکھوں گا۔”
نیلوفر پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی اس نےسوچا:
“میں اسفندیار کے علاوہ کیسے کسی کی ہوسکتی ہوں ؟”
اس نے انکار کے لئے لب کھولنے چاہے مگر اس کی آنکھیں تحیر سے پھیل گئیں، شاید خواب و خیال کا عالم تھا یا اس کی حسیات دھوکہ دے رہیں تھیں ، اسے اسفندیار اپنے بالکل قریب کھڑا نظر آیا وہ مسکرایا اور ہولے سے اس کے کان میں بولا:
“سجنی! میرا تمھارا ساتھ رب نے جتنا لکھا ہوا تھا،وہ میں نے تمھارے سنگ گزارا، میں نے تمھاری بھرپور محبت پائی، اب میری یاد کے لیے نیلو خدارا غلط فیصلہ مت کرو۔جہانزیب کو ہاں کہہ دو۔میں تمھاری باہوں میں کنگنا کھنکتے،تمھیں جیتے دیکھنا چاہتا ہوں ،صرف سانس لینا زندگی نہیں ہے۔”
نیلوفر نے آنکھیں جھپکیں، اسفندیار کا ہیولہ غائب ہوچکا تھا۔آنٹی شاہین نے اماں کی رضا پاتے ہی اس کے سر پر سرخ دوپٹہ ڈالا اور ڈرائیور سے کہا کہ مولوی صاحب کو لے آئے۔
شہلا کی مہندی کی تقریب میں ہی وہ نیلوفر جہانزیب بن گئی۔نیلوفر کی حالت ایک معمول کی سی تھی مگر اسے یہ یقین تھا کہ بزرگوں کا یہ فیصلہ سب کے حق میں اچھا ثابت ہوگا۔
آج شہلا کی شادی کے روز جہانزیب اور نیلوفر شاد آباد کھڑے تھے ۔اکلوتی بھابھی ہونے کے ناطے نیلوفر ہر رسم ،ہر کام میں پیش پیش تھی،خالہ نازنین بھی جھینپی جھینپی نیلوفر کو بہو بہو کہہ کر بلاتے تھک نہیں رہیں تھیں ۔نیلوفر نے آج آتشی گلابی غرارہ سوٹ پہنا ہوا تھا،آج اس پر الوہی روپ آیا ہوا تھا،کیوں نہ آتا زرد انتظار کی رت جو گزر گئی تھی ۔
بیوہ کو نکاح کا حق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے،اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان جھوٹے رسوم و رواج اور توہمات کو چھوڑ کر اسلام کے راستے کو اپنائیں ۔

Facebook Comments

Munnaza S
میرا نام مونا شہزاد ہے، میں کالج کے زمانے سے لکھتی تھی،1994 میں بی اے کے دوران قومی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا،جو گاہے بگاہے چلتا رہا۔2001 میں شادی کے بعد کینیڈا آنے سے سلسلہ رک گیا۔میں زندگی کی مصروفیات میں گم ہوگئی،زینب کے سانحے نے مجھے جھنجھوڑ کر بیدار کیامیں نے قلم سے رشتہ استوار کیا۔اب میری تحریریں تمام بڑے آن لائن پلیٹ فارمز،آن لائن رسالوں، دیگر رسالوں اور اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply