• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچستان نیشنل پارٹی کے چھ نکات اور سیاسی مخالفین کی بوکھلاہٹ۔۔۔۔کاظم بلوچ

بلوچستان نیشنل پارٹی کے چھ نکات اور سیاسی مخالفین کی بوکھلاہٹ۔۔۔۔کاظم بلوچ

بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچ اکابرین اور سردار عطااللہ خان مینگل کی بلوچستان کے مظلوم عوام کے لیے جہد کا تسلسل ہے، جو 1973 کی سیاسی جدوجہد، جلاوطنی کے باوجود بلوچستان کے فرزند حق پرستی و بلوچ ملت کے حقوق، جمہوری سیاسی و قانونی حقوق کے لیے سیاسی علمی، عملی، پولیٹیکل سائینٹفک انداز میں سہہ رنگی بیرک کی پرچارک ہے. جو مؤثر انداز میں بلوچستان کی محرومیوںَ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، تعلیمی و معاشی حقوق، ماحولیاتی و قدرتی آفات و مسائل اور خاص کر لاپتہ افراد اور پراکسی وار کے بلوچستان پر افغان مہاجرین کے شکل میں اثرات سے نمٹنے کے لیے دانش مندانہ انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھ کر بلوچ مخلوق کا کیس بہتر انداز میں صوبے، ملکی و عالمی سطح پر پُرامن و سیاسی طور پر اُجاگر کر رہی ہے.

2018 کے عام انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنے سیاسی نکات میں بلوچ عوام سے اس سلوگن کے تحت ووٹ لیے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اس ملک کے جمہوری سیاسی اداروں میں ان کے ساحل، ان کے وسائل، ان کے فرزندان وطن کی بازیابی اور افغان مہاجرین کے ایشوز کو اجاگر کرے گی. انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کا رستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اور صوبائی و قومی نشستوں پر ہیرا پھیری کر کے بی این پی کی کئی نشستیں چھینی گئیں. مگر بلوچستان کے باشعور عوام نے صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر بلوچستان نیشنل پارٹی کو کامیاب کر کے یہ واضح پیغام دیا کہ بی این پی ہی بلوچ عوام کی حقیقی قوم دوست، وطن دوست، راج دوست جماعت ہے.

بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی نے پہلی بار قبائلی سیاست کے گڑھ رخشان ڈویژن میں قبائلی بُت پرستی کی سیاست کو تاراج کر کے یہ ثابت کر دیا کہ رخشان ڈویژن قوم دوستی و وطن دوست سیاست کا خواہاں ہے اور یہ میر گل خان نصیر اور آزات جمالدینی، ٹکری ہاشم مینگل، نصیر کبدانی کا خطہ سیاسی و فکری شعور و دانش آموزی کی سیاست سے بے بہرہ نہیں ہے.

بلوچستان نیشنل پارٹی نے الیکشن کے پراسیس میں کامیابی کے بعد شعوری سیاسی حکمت عملی اپنائی. پارلیمانی سیاست کا خاصا جوڑ توڑ و سیاسی جمہوری حکمت عملی ہے کہ کس جماعت یا کس اتحاد کے ساتھ حکومت بنائی جائے یا اتحاد یا حمایت کی بنیاد پر اپنے لوگوں اپنے صوبے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے، اس سلسلے میں پی ٹی آئی کی قیادت نے بلوچستان نیشنل پارٹی سے رابطے کیے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت نے پی ٹی آئی کی قیادت کے سامنے چھ نکات رکھے کہ ان مسائل کو حل کیے بغیر بلوچستان کے سیاسی، معاشی، سماجیَ ساحلی و معدنی معاملات میں بہتری آنا ممکن نہیں. ان نکات پر عمل کر کے ہی صوبے میں سنجیدہ و پُرامن معاملات کے ذریعے وفاق اور صوبے میں برابری کی بنیاد پر مسائل ہو سکیں گے.

اس سلسلے میں سب سے پہلا اہم نکتہ مسنگ پرسنز کا تھا، جسے آج بھی بی این پی نے اولیت دی ہوئی ہے. اب تک کئی نوجوان بازیاب بھی ہو چکے ہیں جو کہ ایک مثبت عمل ہے. بلوچستان نیشنل پارٹی کے اس عمل و جدوجہد سے کئی دور کے ناقدین تو پہلے خائف تھے مگر کچھ اپنوں نے بھی جو وفاقی سیاست کے قائل ہیں اور نام کے سامنے بلوچستان لکھنے سے بھی خوف زدگی کا شکار ہیں، اب سوشل میڈیا میں نشتر برسانے کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے چھ نکات مسترد ہو چکے ہیں.

بلوچستان نیشنل پارٹی ایک قوم دوست سیاسی جماعت ہے جس کا مضبوط و مؤثر مؤقف بلوچستان کے ہر ذی شعور، ذی فکر، ذی ہوش و پُر اذہان مخلوق کے سامنے ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے ہر سیاسی، جمہوری، عوامی و پارلیمانی فورم پر بلوچستان کے مجوزہ مسائل جو چھ نکات میں قیود ہیں، ان پر ببانگ دہل آواز بلند کی ہے اور اسی پاداش میں کئی نوجوان شہید، کئی پابند سلاسل اور کئی نوجوان آج بھی غائب ہیں.

بلوچستان اسمبلی میں بی این پی کے پاس پاور شیئرنگ کے آپشن موجود تھے مگر بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپوزیشن میں بیٹھ کر بلوچستان کے عوام کی خدمت کا فیصلہ کیا اور وفاق میں وزارت کی آفر ہونے کے باوجود چھ نکات رکھ کر ان پر عمل درآمد کرنے کا مؤقف اپنایا اور بارہا اسمبلی فورم پر پی ٹی آئی حکومت کو یاددہانی کروائی گئی کہ ہماری حمایت ان نکات سے وابستہ ہے. جب ان نکات پر عمل در آمد ہوگا تب بلوچستان نیشنل پارٹی حکومتی اتحاد کا حصہ بنے گی مگر وہ قوتیں جنہوں نے سابق دور میں کم سیٹیں رکھ کر بھی بلوچستان میں وزارتیں لیں، مراعات لیں اور ان کے دور میں بلوچ نوجوان لاپتہ ہوئے، مگر ہوسِ اقتدار میں ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ماما قدیر کا کیمپ ان کے نظروں سے اوجھل تھا، آج جب سردار اختر جان مینگل اور بلوچستام نیشنل پارٹی نے مسنگ پرسنز کے ایشوز کو اجاگر کیا اور پر امن جدوجہد کے ذریعے بلوچ ماؤں بہنوں کے جگر گوشے بازیاب ہو رہے ہیں اور اب ان کو لگ رہا ہے کہ ان کی سیاسی نیا ڈوب چکی ہے، بلوچستان کے عوام ان سودے باز قوتوں کو مسترد کر چکے ہیں، تب آسمان کی طرف تھوک کر اپنا چہرہ خراب کر رہے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

آج بلوچستان نیشنل پارٹی کے مخالفین بھی پارٹی کی بہتر حکمت عملی کی داد و تحسین دے رہے ہیں. تب بی این پی مخالف گروہوں کو لگ رہا ہے کہ بلوچ سماجی میں ان کے لیے سیاسی اسپیس تنگ ہو چکی ہے اور ایسے میں توتکار چیخیں نکلیں گی. بلوچستان نیشنل پارٹی کے سامنے مشکلات و مصائب کے باوجود بلوچ عوام نے رائے دہی میں واضح کیا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی ہی بلوچستان کے عوام کی آخری جمہوری، سیاسی آواز و سیاسی طاقت ہے جو اقتدار و اختیار کے لیے ان کے بیلٹ و انگوٹھے کا سودا نہیں کرے گی، گو کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سامنے وفاق میں وزارتیں اور کئی دیگر مراعات رکھی گئیں مگر بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچ عوام کی پاسبان جماعت ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی کے فیصلوں اور اصولوں میں شامل ہے سب سے پہلے؛ بلوچ و بلوچستان!

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply