ٹانگ کھینچ رسومات۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

کہتے ہیں انسانی ساختہ رسم و رواج کی بنیاد کیسے پڑی کسی کو معلوم نہیں ہوتا لیکن اس پر عمل ضرور کرتے ہیں کیونکہ ان کے باپ دادا ان پر عمل پیرا رہے ہوتے ہیں انسانی ساختہ رسم و رواج کی بنیاد انسانی ذہن کا کارنامہ ہے خواہ وہ دنیا کے  کسی بھی حصے میں ہو، بہت سے ایسے انسانی رسوم و رواج ہیں جو قانونی طور پر کسی بھی زاویہ سے قابل قبول نہیں ہوتے مگر انسان ان پر اندھی تقلید کرنے پر مجبور ہوتا ہے.

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان رسم و رواج کی تصویر نہیں ملتی کیونکہ اسلامی نظامِ زندگی میں ہر ایک چیز ہر ایک پہلو کو نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، واضح احکامات بیان کئے گئے ہیں اچھائی اور برائی کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے، کوئی کمی بیشی کی گنجائش نہیں رکھی گئی خواہ وہ زندگی کا کوئی بھی لمحہ ہو ہر ایک شئے کے متعلق الفاظ و دلائل کے ساتھ حل موجود ہیں.

آج کل کی دنیا میں جو ہزاروں کروڑوں کی تعداد میں انسانی رسم و رواج کی بھر مار ہے کوئی نہیں جانتا کہ ان کا وجود کیسے ظہور میں آیا؟ کیا کوئی خاص مقصد کے لئے ایسی  رسم کو پروان چڑھایا گیا یا پھر اپنی زندگی کی حفاظت کے لئے؟ کیا انسانی زندگی کو حقیقی طاقت سے بے خبر رکھنے کے لئے ایسے اقدامات کئے گئے؟

یا حق کی آواز کو دبانے کے لئے؟
ایسے رسم و روایتوں کی کیسے تقلید کی جاتی ہے؟

دو سائنسدانوں نے خاص طور اس بات پر غور و فکر شروع کیا  کہ رسم و رواج کا انسان کی زندگی میں عمل دخل کیسے ہوا کیا یہ ابد سے انسان کے ساتھ جڑا ہے یا انسانی زندگی نے اسے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا، اس موضوع کو جاننے کیلئے ان دونوں نے ایک چھوٹا سا کمرہ بنوایا جس کا کوئی دروازہ نہیں تھا اس کمرے کی چھت کافی بلند تھی چھت کے عین درمیاں ایک بڑی سی کھڑکی بنائی اور پھر اس کمرے میں چار بندر ایک ایک کرکے اتارے کھڑکی کے عین نیچے انہواں نے ایک مضبوط رسی لٹکائی، پھر یہ کیا کہ ایک دن انہوں نے اوپر سے کچھ کیلے لٹکائے ایک بندر نے کیلے دیکھے وہ رسی پر چڑھنے لگا جیسے ہی وہ بندر رسی پر چڑھنے لگا دوسرے سائنسدان نے ایک پائپ کے ذریعے دوسرے تین بندروں پر جو نیچے کمرے میں تھے ان پر پانی مارنا شروع کردیا، تینوں بندر زور زور سے کمرے میں اچھلنے لگے اور یہاں وہاں بھاگنے لگے لیکن پانی کی حد سے بچ نہیں سکتے تھے، چوتھا بندر جب کافی اوپر پہنچ گیا تو اس سائنسدان نے رسی کو زور دار جھٹکا دیا اور بندر واپس کمرے میں گر گیا، گرنے کے ساتھ ہی دوسرے سائنسدان نے پانی پھینکنا بند کردیا، دوسرے دن پھر یہی ترکیب آزمائی جانے لگی لیکن اس بار جیسے ہی وہ بندر کیلے دیکھ کر رسی پر چڑھا تو باقی تین بندروں پر پانی کی یلغار شروع ہوئی اس بار یہ ہوا کہ کچھ ہی دیر بعد نیچے موجود دو بندروں نے رسی پر چڑھے بندر کو نیچے سے پکڑ کر فرش پر پٹخ دیا، اب یہ روز کا معمول بن چکا تھا دونوں سائنسدان رسی لٹکاتے اور اوپر سے کیلے دکھا کر بندروں کو اوپر بلوایا جاتا لیکن کوئی پہنچ نہ پاتا کیونکہ باقی کے بندر اس کو اوپر تک پہنچنے نہ دیتے، کچھ دن بعد ان بندروں میں سے ایک بندر کو نکال کر اس کی جگہ ایک نئے بندر کو وہاں بند کیا گیا، اس نے جب رسی کے ساتھ بندھے  کیلوں کو دیکھا تو آو دیکھا نہ تاؤ جلدی سے رسی پر چڑھنے لگا لیکن باقی پرانے تین بندروں نے اسے پاوں سے پکڑ کر اسے نیچے اتارا، نئے بندر کو کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ دوسرے پرانے بندر کو ایک نئے بندر سے تبدیل کیا گیا اب وہاں دو نئے اور دو پرانے بندر تھے، نئے بندر کے ساتھ بھی وہی ہوا جو دوسرے نئے بندر کے ساتھ ہو چکا تھا، اس طرح سب پرانے بندروں کو باہر نکال کر سارے نئے بندروں کو اندر بند کردیا گیا، اب جب رسی کے ساتھ کیلے لٹکے نظر آجاتے اور کوئی ایک بندر اس کو حاصل کرنے اوپر کی طرف چڑھنے کی کوشش کرتا تو باقی کے نئے بندر یہ جانے بغیر کہ کیوں اس بندر کو کیلوں تک پہنچنے نہیں دینا، اس کی ٹانگ پکڑ کر اسے نیچے گھسیٹ لیتے اور زور زور سے ہنسنے لگتے!

Advertisements
julia rana solicitors london

تجربہ کامیاب رہا روایتوں اور رسم و رواج کی حقیقت معلوم ہوچکی تھی، کیا آپ کو بھی کچھ معلوم ہو چکا ہے؟

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply