نارمل سماج کی ابنارمل باتیں ۔۔علی انوار بنگڑ

آج لفظ مرد کو طاقت اور عورت کو کمزوری کے استعارے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس نا انصافی کا آغاز کہیں سے تو ہوا ہوگا کیوں کہ صدیاں گزرنے کے بعد اب مرد اس برتری کو اور عورت اس تنزلی کو اپنا حق سمجھتی ہے۔

دو برابر کے انسانوں کے لیے سماج میں موجود مختلف رویوں پر بات تو کرنی ہوگی۔ ایسا کیوں ہے؟ اس نا انصافی کو کیوں اپنایا گیا؟ اور اب تک یہ رویے معاشرے میں کیوں موجود ہیں ؟ ان نا انصافیوں کا فائدہ کسے ہوا؟ مذہب اس استحصال کا سربراہ کیوں بنا یا   گیا؟ جب بھی عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بات ہوگی، تو یہ سوال ضرور اٹھے گا  اور یہ سوال انہیں چبھے گا جو بالواسطہ یا بلا واسطہ ان ناانصافیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان رویوں پر سوال اٹھیں  گے چاہے وہ رویے مذہبی صحیفوں یا اعلیٰ تہذیبوں سے کشیدے گئے ہوں۔ اگر استحصال کا جواز مذہب دے رہا ہے یا صدیوں پرانی ثقافت دے رہی ہے تو ایسے مذہب اور ثقافت پر سوال تو اٹھیں  گے۔

کیا کبھی حیرت نہیں ہوتی ایک پندرہ سال کا لڑکا اپنے سے پانچ سال بڑی بہن کو کہہ رہا ہوتا ہے کہ تم گھر سے باہر نکل کر کیوں کھڑی ہو۔ گھر چلی جاؤ۔ اگر اس رویے میں موجود فرق کو آپ محسوس نہیں کررہے ہیں اور اسے بالکل درست سمجھتے ہیں، تو آپ بھی عورت کے استحصال کرنے والوں کے ساتھی ہی ہیں۔ اگر ہم کسی بھی ایسے رویے کو جو ناانصافی پر مبنی ہے کو درست سمجھتے ہیں تو زندہ درگور کرنے والے میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے۔

دیہات میں عورتیں زیادہ تر بھینسیں، گاۓ یا بکریاں وغیرہ پالتی ہیں ان کے چارے سے لے کر صفائی تک سب کام وہی کرتی ہیں۔ اتنے سخت کام کرنے کے باوجود وہ مرد کی نظر میں کمزور ہی ٹھہرتی ہیں ۔ اسے بعض صورتوں میں جتلایا جاتا ہے تم کمزور ہو اور کم عقل ہو ۔ اس لیے تم نے اپنا فیصلہ خود نہیں کرنا۔ اور افسوس اس بات پر ہے، ہم اس رویے کو ٹھیک سمجھتے ہیں۔ عورت گھر کا اور کھیت کا سارا کام کرسکتی ہے، لیکن وہ اپنا فیصلہ نہیں لے سکتی۔

کہا جاتا ہے کہ عورت خود برابری کے حقوق نہیں لینا چاہتی۔ اگر ایک عورت برابری کی بات کرتی ہے۔ تو دس عورتیں ہی اس کے مدِ مقابل احتجاج کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ بات بہت سادہ سی ہے۔ ایک جنس کو ہم نے صدیوں تک دباۓ رکھا ہے۔ مرد کا دھونس ڈالنا اور عورت کا خواہ مخواہ دبے رہنا، اس ذہنیت کو سالہا سال ہم نے پروان چڑھایا ہے۔ جو  جب بھی  مد مقابل آتی ہیں وہ اسی ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ انہیں یہ ہی لگتا ہے کہ دبے رہنے ہی میں بھلائی ہے اور یہ ہی ہمارا حق ہے۔

عورت کی خود مختاری اس کے معاشی استحکام کے ساتھ جڑی ہے۔ جب تک وہ معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوتی ،سماج اسے خود مختاری  کبھی نہیں دے گا۔ بہت سی خواتین صرف اسی معاشی خوف کی وجہ سے پوری زندگی جسمانی و ذہنی تشدد سہتی گزار دیتی ہیں۔ اگر وہ معاشی طورپر آزاد ہوں  تو شاید بہت سے فیصلے وہ آسانی سے لے لیں، جنہیں لینے سے وہ پوری زندگی گھبراتی ہیں ۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایسے نہیں ہیں۔ ہم دوسرے لوگوں سے بہت الگ ہیں۔ ہم نے بیٹی پیدا ہونے پر ویسے ہی خوشی منائی جیسے بیٹا پیدا ہونے پر منائی تھی۔ اس لیے یہ سماج نارمل ہے۔ نارمل تو سماج تب ہوگا جب یہ بتانا نہ پڑے کہ میں نے بیٹی پیدا ہونے پر بھی ویسی ہی خوشی منائی ہے جیسے بیٹے کے لیے منائی تھی۔ لڑکا پیدا ہوا ہے بس یہ جملہ سننے پر اگلا بندہ یہ جان جاتا ہے کہ اسے خوشی ہوئی ہے اور یقیناً اس نے خوشی منائی ہوگی۔ کچھ ایسا رویہ سماج کا لڑکیوں کے لیے بھی ہو پھر تو نارمل ہے۔ یہاں بتانا نہ پڑے کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی اور اس کے لیے میں نے بھی خوشی منائی۔ یہاں بیٹی کو رحمت تو کہیں لیکن عمل سے ثابت کریں کہ وہ بیٹے کے برابر نہیں ہے۔ تو ایسا رویہ نارمل تو نہیں ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سماج نارمل تب ہی کہلائے گا جب گھر گرہستی کے نام پر عورت پر اُٹھنے والا تھپڑ ابنارمل کہلاۓ گا۔ سماج نارمل تب ہی کہلائے گا جب عورت مرد کے تابع نہیں سمجھی جاۓ گی۔ سماج نارمل تب ہی کہلائے گا جب مسجد میں مانگی جانے والی اولاد نرینہ کے لیے دعا ابنارمل لگے گی۔ سماج نارمل تب ہی کہلائے گا جب عورت کی عزت مرد سے جڑے رشتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے عورت ہونے کی وجہ سے ہی کی جاۓ گی۔ سماج نارمل تب ہی کہلائے گا عورت کو اکیلے باہر جانے میں ڈر محسوس نہ ہو۔ سماج نارمل تب ہی کہلائے گا جب عورت کے استحصال کے لیے دی جانے والی مذہبی دلیلیں ابنارمل لگے گی۔ سماج نارمل تب نظر آۓ گا جب عورت کے اپنا جیون ساتھی چننے کے فیصلے سے خاندان کی عزت پر حرف نہیں آۓ گا۔ سماج نارمل تب کہلاۓ گا جب جائیداد میں اپنا حصہ لینے پر گھر والوں کی طرف سے طنز کے نشتر نہیں چلاۓ جائیں  گے۔ سماج نارمل تب کہلاۓ گا جب ریپ ہونے پر عزت عورت کی نہیں لُٹے گی۔ سماج نارمل تب ہوگا جب ریپ کی ذمہ دار عورت نہیں ہوگی ،اس کے کپڑے نہیں ہوں گے۔ سماج نارمل تب ہی ہوگا جب عورت کے جسم کے لیے عورت کی مرضی ہی مقدم ہوگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply