ارکانِ برما کے وفد سے ملاقات اور تازہ صورتِحال سے اگاہی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
روہنگیا مسلمانوں کا المیہ ۔۔۔۔ حل کیا ہے؟
تاریخی پسِ منظر ، مسائل اور حل کا جائزہ

جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ملک برما کے علاقے اراکان کے روہنگیا مسلمان جن ناقابل ِبیان حالات وواقعات سے گذررہے ہیں یہ صرف امتِ مسلمہ ہی کے لیے نہیں، بلکہ عالمِ انسانیت کے لیے بھی بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔ ان روہنگیا مسلمانوں پر جنگِ عظیم دوم کے دوران 1ٍ942ء سے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، ہر دس پندرہ سال میں نسل کشی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اُس وقت سے یہ مسلمان بے آسرا اور بے سہارا ہیں، ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں سے کسی قسم کی کوئی خبر مہذب دنیا کی طرف پہنچ نہیں پاتی، ظلم وجبر کی وہ وہ داستانیں وہاں رقم کی جارہی ہیں جو کسی بھی دور میں کسی فرعونِ وقت نے بھی نہیں رقم کیں۔ یہودی ہولوکاسٹ کا شور مچاتے رہتے ہیں جبکہ روہنگیا مسلمانوں کا المیہ حقیقی ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے بہت سے ہولوکاسٹوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جون 2012ء میں چند مسلمانوں کے دردناک قتل سے شروع ہونے والا فساد اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ سارے اراکانی مسلمان پوری دنیا میں تتر بتر ہوکر رہ گئے ہیں اور انسانیت سسک اٹھی ہے:
1۔1982 ء سےصدیوں سےآباد جدی پشتی باشندوں كو ان كی شہریت منسوخ كركےغیر قانونی تاركینِ وطن قراردےدیا۔
آج كی اِس مہذب دنیامیں اتنی بڑی قوم كی اوروہ بھی اتنی بڑی تعدادمیں اپنےہی وطن میں ”بےوطن“ (Stateless) ہونےكی كوئی مثال نہیں ملتی۔
2۔ ان کے گھر بار کو جلایا گیا، بعض بعض علاقے مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹادیے گئے۔
3۔ ان کے کھیت کھلیان کو جلاکر خاکستر کردیا گیا۔
4۔ ان کی دکانیں سازو سامان سمیت آگ میں جلادی گئیں۔
5۔ ان کے مدارس اور تعلیمی ادارے بند کر دئے گئے، اس طرح ان کے لئے تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند ہو گئے۔
6- ان پر مسجدوں میں باجماعت نماز پڑھنے کی پابندی لگادی گئی اور مساجد پر تالے ڈال دیے گئے۔
7- مسلمانوں پر حج کرنے کی اور اس کے لیے سفر کی پابندی عاید کر دی گئی۔
8۔ قربانی پر پابندی عاید کردی گئی۔
9- مسلمانوں کی جائیدادیں ان سےچھین کر مگھ اور برمی بدھسٹوں کو دی جا رہی ہیں۔
10- مسلمانوں کی بستیوں کو تاراج کر کےان کو کیمپوں میں پہنچایا جا رہا ہے اوران کی بستیوں میں غیر مسلموں کو بسایا جا رہا ہے۔
11- اراکان میں صنعتوں ، ملز اور فیکٹریوں کا کوئی تصور نہیں، وہاں غالب ذریعہ ٴمعاش کھیتی باڑی اور معمولی دکانداری ہے، لیکن چونکہ مسلمانوں سے ان کی زمینیں اور جائیدادیں چھین لی گئیں ہیں، اس لئے کھیتی باڑی سے محروم ہو گئے اور پھر ان پر ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک جانے آنے کی پابندیاں ہیں ، اس لئے دکانوں کے معمولی سامانوں کے حصول کے لئے بھی وہ مگھ بدھسٹوں کے محتاج ہیں، اس لئے عملاً ان کی دکان داری کا ذریعہ ٴمعاش بھی ختم ہو کر رہ گیا۔
12- مسلمانوں پر اپنے مکانات اور رہائش گاہوں کی مرمت و اصلاح کی پابندی ہے۔
13- مسلمانوں پر شادی بیاہ کے سلسلہ میں شرمناک قدغنیں ہیں۔
41- مسلمانوں پر زیادہ بچوں کی پیدائش پر پابندی عاید ہے۔
51- کوئی مسلمان اپنےعلاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف بغیر پرمِٹ کے نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہاں رات گذار سکتا ہے حتی کہ ایک بیٹی اپنے میکے آکر رات گذار نہیں سکتی۔
16- علماء کے ایسے دشمن ہیں کہ وہ کرتا پہن کر ادھر سے ادھر آجا نہیں سکتے، چنانچہ ایسے موقع پر وہ صرف بنیان اور لنگی پہن کر چلت پھرت کی کوشش کرتے ہیں۔
17- مسلمانوں کے قبرستانوں کو ان کے آباء و اجداد کے آثار مٹا ڈالنے کی غرض سے تھانوں اور کچہریوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔
18- مسلمانوں کے تاریخی آثار مٹانے کی غرض سے اراکان کا نام رکھائن اور اکیاب کا نام سیٹوے سے تبدیل کیا گیا۔
اب تك مسلمانوں كوووٹ دینےكاحق بھی دیا جاتا رہا اوربطور امیدوارپارلیمنٹ كےانتخابات میں بھی حصہ لینے كا حق ملتا رہا لیكن حالیہ انتخابات(2015ء)جس میں آنگ سان سوچی كی پارٹی كامیاب ہوكر حكومت بنا چكی، اس میں مسلمانوں پر نہ صرف بطور امیدوار كھڑے ہونےكی پابندی لگادی گئی، بلكہ كسی بھی مسلمان كوووٹ كاسٹ كرنےكاحق بھی نہیں دیاگیا۔
19۔ بے گھر اور خانماں برباد لوگوں نے اپنی جانیں بچاکر کشتیوں میں سوار ہوکر بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی کوشش کی تو وہاں کی حکومت نے انہیں پناہ دینے کے بجائے دوبارہ سمندر میں دھکیل دیا، جس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد مچھلیوں کی خوراک بن گئے۔
20۔ ذرائع ابلاغ کی پہنچ اور ان کی دُہائی کے بعد معمولی عالمی دباؤ آیا تو عمومی فساد تو رُک گیا، لیکن بے گھر اور بے سہارا افراد کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، ان کو ایسےکیمپوں میں بسادیا گیا جن میں کسی قسم کی بنیادی سہولت نہیں، برما کےسابق صدر جنرل تھین سین نے نہایت ڈھٹائی سے یہ بیان دیا کہ یہ روہنگیا برما کے باشندےنہیں ہیں، ان کو ہم کیمپوں ہی میں رکھیں گے۔ اگر کسی کے دل میں درد ہو تو وہ ان کو اپنے ہاں لے جاکر آباد کرائے۔
21۔ جن لوگوں کے مکانات ابھی باقی ہیں، وہ برائے نام اپنے گھروں میں تو ہیں، لیکن ان کے سروں پہ چوبیس گھنٹے ننگی تلوار لٹکی رہتی ہے، کوئی دن ایسا نہیں گذرتا اور کوئی رات ایسی نہیں گذرتی کہ ان میں کسی ایک یا چند گھروں پر قیامت نہ بیتتی ہو۔ برمیز فوج کے اہلکار گھروں پر دھاوا بول دیتے ہیں اور پھر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے مردوں کو گرفتار کرلیتے ہیں، عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں، بچوں اور بوڑھوں تک کو نہیں بخشتے۔
کبھی اسلحہ کی تلاشی کے بہانے پورے گھر کو کھود ڈالتے ہیں اور کبھی موبائل رکھنے کے ناکردہ جرم پر لاکھوں کیات(برمی کرنسی) کا جرمانہ عائد کرتے اور قیدوبند کی صعوبتوں میں ڈال دیتے ہیں۔
آئے دن لوگوں کوفوجی کیمپوں میں پکڑ کے لے جاتے ہیں اور وہاں ان سے بیگار لیتے ہیں پھر ان کو معاوضہ تو درکنار، بھوکا پیاسا چھوڑدیتے ہیں۔
22۔ ظلم وستم کے یہ شکار مشقتوں اور خوف وہراس کے اس ماحول سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کےلیے سوائے سمندر کے راستےکے اور کوئی راستہ نہیں رکھا گیا،چنانچہ سمندر کی طرف جانے اور کشتیوں کے ذریعہ نقل مکانی کرنےکے لیے بھی انہیں پولیس اہلکاروں سے لے کر ایجنٹوں، دلالوں اور اسمگلروں تک کو رشوت دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔
پھر جن ”خوش نصیبوں“ کو اس طرح کشتی میں جگہ مل جاتی ہے، ان کی کیفیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس طرح لکڑیوں اور تختوں کی تھپیّ لگائی جاتی ہے اس طرح ان ”انسانوں “ کی جن میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جوان بھی، عورتیں بھی ہوتی ہیں اور بچے بھی،ان کی بھی تھپیّ لگائی جاتی ہے۔ چنانچہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کے ساتھ ان کو بیچ سمندر میں لے جاکر بڑے جہاز میں سوار کرایا جاتاہے، یہاں سے گویا اب یہ انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کو ٹھونس کر تھائی لینڈ کے غیر آباد جزائر کی طرف لے جایاجاتا اور وہاں کے جنگلات اور غاروں میں ان اسمگلروں کے مراکز بنے ہوئے ہیں ، وہاں لے جاکر ان کو ماراکوٹا جاتا، ان کے عزیز واقارب جو مختلف ملکوں میں بسے ہوئے ہوتے ہیں ان کے فون نمبرز پہ کال کرکے ان کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی جاتیں اور ان کے ذریعہ ان سے بھاری رقوم کا مطالبہ ہوتا ہے۔ اس طرح بعض خوش نصیب رہائی پاجاتے اور اکثر ان کے غلام باندی کی حیثیت سے رہ جاتے ہیں، ان کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا جاتا ہے اور ان کی عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے جس کی ویڈیوز بناکر پوری دنیا میں مسلمانوں کی غیرتوں کو للکارا جاتا ہے۔
بہت سے لوگ ان کی قید میں مرجاتے ہیں بلکہ مار دیے جاتے ہیں جن کی اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوچکی ہیں۔
23۔ بہت سے خوش نصیب وہ بھی ہیں جو کسی طرح تھائی لینڈ کی سر زمین پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اسی طرح بعض ملائیشیا اور بعض انڈونیشیا تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں، لیکن ان کے لئے وہاں ایک نئے عذاب کا سلسلہ منتظر ہوتا ہے، کیوں کہ ان کو وہاں پناہ گزین کی حیثیت کے بجائے غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت سے جیلوں میں رکھا جاتاہے، یہ وہ لوگ ہیں جن میں ہر ایک پہلے ہی سےمصیبتوں کا مارا ہوا ہوتاہے، ان کی فیملی کے کسی نہ کسی فرد کو یا کئی کئی افراد کو بدھسٹوں نے مار دیا ہوتا ہے، اوروہ خود سمندروں کی بے رحم موجوں سے لڑتے ہوئے کسی طر ح اپنی جانیں بچا کر وہاں پہنچتے ہیں تو وہاں ان کے لئے جیل اور قید و بند کی صعوبتیں منتظر ہوتی ہیں، ان کی اَشک شوئی کے لئے کوئی نہیں ہوتا۔
24۔ حال ہی میں عالمی ذرائع ابلاغ نے یہ انکشاف کیا کہ ہزاروں کی تعداد میں( جن کی تعداد تقریباً ستائیس ہزار بتائی جاتی ہے) روہنگیا مسلمان مختلف چھوٹی بڑی کشتیوں میں سمندر کے بیچوں بیچ سر گرداں ہیں کہ ان کو کوئی ملک قبول کرنے کو تیار نہیں ، ان میں بوڑھے بھی ہیں جوان بھی، عورتیں بھی ہیں اوربچے بھی، سوشل میڈیا کے توسط سے ان کی گریہ وزاری آہ و بُکا لوگوں کی سماعتوں سے ٹکرائی جو عرش اِلہی کو تھرا دینے کے لئے کافی تھی۔ اس حال میں بھی سنگدل ایجنٹوں نے کتنے ہی جوانوں اور بوڑھوں کو سمندر برد کیا، کتنی ہی عورتوں کی عصمتوں کو پامال کیا!! فاللہ المستعان۔
یہ وہ تمام حالات تھے،جوجون ۲۰۱۲ء سےاكتوبر ۲۰۱۶ء تك پیش آئے۔
لیكن۹/اكتوبر ۲۰۱۶ء سےظلم وستم كی ایك عظیم لہراٹھی اوراس ظلم وستم نےسابقہ سارےریكارڈ توڑڈالے،بنگلہ دیش كی سرحد پہلےسے بندتھی اوراب یہ نہتےمسلمان بوڑھےجوان،مرد،عورتیں اورمعصوم، بلكہ نومولود بچے برمی ملٹری اورپولیس كےشكارہیں۔ ان كمزوروں كاشكاران ظالموں كامرغوب ترین مشغلہ ہے، جس كی تفصیل كچھ یوں ہے:
حالیہ ظلم وستم كی لہر:
برمی بڈھسٹ فوج،پولیس اورمگھ دہشتگردوں اورویراٹھونامی فرعون نمابدھ بھگشواوراُس كےہمنواؤں كےآئےروزظلم وستم سےتنگ آكرچندغیرت مندلوگوں نےایك پولیس چوكی پرحملہ كردیا، جس كےنتیجہ میں وقتی طورپریہ بھاگ گئے،تاہم اس كےبعدظلم وستم نےایك نئی تاریخ رقم كردی:
• مسلمانوں كےعلاقوں كامحاصرہ كیاگیا۔
• گھرگھركی شدیدتلاشی لی گئی۔
• حكم دیاگیاكہ گھروں كےاردگردجوچٹائیوں كی دیواریں ہیں، وہ سب گرادیں۔
• تلاشی كےدوران اگرگھرمیں مردملتے توانہیں گرفتار كركےلےجاتے اورپھرمارڈالتےہیں،اس لئےعموماً گھركے مردحضرات گرفتاری كے ڈرسےپہاڑوں اور جنگلوں كاراستہ لیتےہیں اورعورتیں رہ جاتی ہیں،یہ برمی ملٹری اِن خواتین كی عصمت دری كرنےاوربلكہ ان كو جان سےمار ڈالنےسےبھی دریغ نہیں كرتی۔ حدیہ كہ چھوٹی چھوٹی نابالغ بچیوں تك كےساتھ درندگی كامظاہرہ كیاگیا۔
• پورےپورےعلاقہ كوآگ لگاكرخاكستركردیا،ان جلائےجانےوالےعلاقوں میں ناكھورہ، دودائنگ،وابك،بڑاگوزو بیل،چھوٹاگوزو بیل، باگ گونہ،دونسے،كیاری پرانگ۔
• دكانیں جلادی گئیں،توڑپھوڑكركےسب كچھ بربادكردیا۔
• كھیتی باڑی كےلئےنكلناتودركنار،فصل كاٹنےتك كےلئےنكلنا ناممكن بنادیا۔
• گھرمیں كھانےپینےكی كوئی چیزنہ ہونےكےباعث قریبی دریا، یاتالاب میں مچھلی كےلئےجانےوالوں كوگولیوں كانشانہ بنایاگیا۔
• گن شپ ہیلی كاپٹراستعمال كركےپوری پوری بستیوں كوہلاك كیاگیا۔
• آگ جلانےكی وجہ سےجان بچاكرنكلنےوالی خواتین اوران كے بچوں كوآگ میں پھینكاگیا۔
• بعض خواتین كی گودسےچھوٹےبچوں كوچھین كرآگ میں ڈال كر بھسم كردیا۔
• عالمِ دین كودیكھتےہی اُن كی داڑھی منڈوادیتے اورپھرذبح كردیتےہیں۔
گذشتہ نومبر ۲۰۱۶ ء كےاوائل میں ”یواین او“كےایك اعلی سطحی وفدنےمتاثرہ علاقوں كادورہ كیا،برمی حكومت نےاول تومسلمانوں كووفدسےملاقات سےروكنےكی كوشش كی،بلكہ كچھ مگھ بدھسٹوں كومسلمان ظاہر كركے ملوا دیا اور ان سےكسی قسم كاظلم نہ ہونےكابیان دلوادیا۔ تاہم مسلمانوں نےاس سازش كوجان پركھیل كرختم كیا اوربڑی تگ ودوكےبعدوفد سےملاقات كی اورصورت حال سےآگاہ كیا۔
لیكن وائےافسوس! وفدكے جاتے ہی ظلم وستم میں اور اضافہ ہوگیا۔
ایك محتاط اندازےكےمطابق اب تك ستر ہزار اَفراد بےگھر ہوگئےاورسینكڑوں شہیداورزخمی ہوئے، ایك سودس افرادسےزیادہ كو گرفتاركركےلےگئے۔
ان تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارا مطالبہ ہے کہ:
(۱) میانمار کی حکومت اور اس کی بھر پور حمایت کے ساتھ وہاں کی فوج ، پولیس، عوام، بدھ بھکشو اور دہشت گرد تنظیمیں روہنگیا مسلمانوں کی مکمل نسل کُشی کے درپے ہیں، لہذا ان کی نسل کشی بندکی جائے اور اس سلسلہ میں اقوامِ متحدہ اپنا کردار ادا کر ے اور فوری طور پر وہاں اپنی امن فوج بھیجے، وہاں کے بچے کچھے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان کی فوری آبادکاری کا انتظام کرکے زندگی کی تمام تر بنیادی ضروریات و سہو لیات انہیں بہم پہنچائی جائیں۔
(۲) عالم ِ اسلام بلکہ پورے عالم کے انسان دوست ممالک سے مطالبہ ہے کہ وہ فوری طور پر برما/ میانمار کی حکومت پر سفارتی اور اخلاقی دباؤ ڈالے تاکہ وہ انسانیت کُش حرکتوں سے باز آئے۔ روہنگیامسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کرنے والے انسانیت سوز اور ظالمانہ قانون کو ختم کرے اور ان کی شہریت اورحقوق کو بحال کرے۔
(۳) رابطہ عالمِ اسلامی ، موتمر عالمِ اسلامی اور او آئی سی نمائشی قراردادوں اور جذباتی بیانات داغنے کے بجائے فوری طور پر مؤثر اور عملی قدم اٹھائیں۔
(۴) آسیان ممالك كی تنظیم فوری اپنا كردار ادا كرے۔
(۵) پڑوس میں واقع بنگلہ دیش ، بھارت اور چائنا اس سلسلہ میں اپناكرداراداكریں، اور برما میں نسل كشی كے گھناؤنےاقدامات كی روك تھام كریں۔
(۶) صدر مملكت ، وزیر اعظم پاكستان ، وزیر خارجہ ، مشیر خارجہ اور دیگر اربابِ اختیار سے بھی اپیل ہے كہ وہ اس سلسلہ میں قائدانہ كردار ادا كریں۔
(۷) روہنگیا مسلمانوں كے وہ افراد جو ہجرت كركے تھائی لینڈ ، سری لنكا ، بھارت ، ملائیشیا اور انڈونیشیا پہنچ چكے ہیں ، ان كو جیلوں اور حراستی مراكز میں ٹھونس كر ركھنے كے بجائے انہیں آزاد فضا میں سانس لینے كا موقع دیا جائے، ان كو ان متعلقہ ممالك میں "ریفیوجی" كی حیثیت سے تسلیم كیا جائے اور ان كو انٹر نیشنل لاء كے مطابق ریفیوجیز كے جتنے حقوق ہیں وہ ان كو فراہم كئے جائیں ، خاص طور پر بنیادی ترین حقوق تعلیم اور صحت كی فراہمی كی جائے۔
(۸) بنگلہ دیش میں موجود رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ تمام ریفیوجیز كے ساتھ كیمپوں میں جو غیر انسانی سلوك روا ركھا جارہا ہے، اس سلسلہ كو بند كیا جائے اور انہیں عزت كے ساتھ رہنے بسنے كی آزادی دی جائے ، انہیں تعلیم كے مواقع فراہم كئے جائیں اور ان كو صحت علاج ومعالجہ كی بھر پور سہولتیں دی جائیں اور عالمی تنظیموں کو ان تک براہ راست رسائی دی جائے۔
(۹) رنگون اور اكیاب میں او آئی سی یا موتمر عالمِ اسلامی كا باقاعدہ دفتر كھولا جائے تاكہ عالمِ اسلام كے ذمہ داران روہنگیا مسلمانوں كے حالات سے كما حقّہ واقف رہ سكیں۔
(۱۰) جن ایجنٹوں ،دلالوں اور انسانی سمگلروں نے انسانیت سوز اور شرمناك حركتیں شروع كرركھی ہیں ان كو كیفرِ كردار تك پہنچایا جائے۔
(۱۱) برمی حكومت كے تعاون نہ كرنے كی صورت میں اس كا اكنامك بائیكاٹ كیا جائے اور اسے نشانِ عبرت بنایا جائے۔
(۱۲)برما كی جمہوریت كی چیمپین نوبل انعام یافتہ سیاست دان "آنگ سانگ سوچی" سےاب تك امیدباندھی گئی تھی كہ یہ جمہوریت پریقین ركھنےوالی اورجمہوریت كےلئےجدوجہدكرنےوالی انصاف پسندلیڈرہیں،اس لئےان كی پارٹی ”این ایل ڈی“برسرِاقتدارآنےكے بعدمسلمانوں كی ضروراشك شوئی كرےگی اورمسلمانوں كی محرومیوں كا ازالہ كرےگی،لیكن اےبسا آرزو كہ خاك شدہ،چنانچہ آنگ سان سوچی نےبرسراقتدارآنےكےبعد اب تك روہنگیا مسلمانوں كے تحفظ كے سلسلہ میں كردار تو كیا! اُلٹازخموں پر نمك پاشی كا كام كیا ہے ، معمولی اقتدار كی ہوس كی خاطر روہنگیا مسلمانوں كی نسل كشی سے اپنی آنكھیں بند كر ركھی ہیں،ان سے امن كا نوبل انعام لے لیا جائے اور ان كو عبرت كا نشان بنایا جائے۔
(۱۳) ان تمام فتنوں اور فسادوں کی ایک اہم جڑ وہاں کے متعصب بدھ بھکشو ہیں، خاص طور پر 969 کا سربراہ ویراٹھو کا کردار انتہائی نفرت انگیز اور عالمی برادری کے لیے نہایت قابل نفرین رہا ہے، اس تنظیم کودہشت گرد قرار دے کر اس کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے اور جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔
(۱۴)پاکستان، سعودی عرب، ترکی ، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی اعلی ترین سطح پر کمیٹی تشکیل دی جائے جو روہنگیا مسلمانوں کی اراکان کے اندر آباد کاری اور ان کے تحفظ کا انتظام کرے اور جتنے روہنگیا مسلمان مختلف ممالک میں دربدر ہو چکے ہیں ان کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا اہتمام کرے۔
(۱۵) پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے ایجنڈے کو اپنے بنیادی پروگراموں میں مقدم رکھیں اور ترجیحی بنیادوں پر اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
(۱۶) پاکستان کی تمام مؤثر شخصیات سے خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی ہوں انسانیت کی بنیاد پر اپیل ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کے دُکھ اور مصائب کے ازالہ کے سلسلے میں اپنا کردار ضرور ادا کریں۔
(۱۷)تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں، نیز با اثر شخصیات اور مقتدر علماء کرام ایک ایسی مشترکہ کمیٹی تشکیل دیں جو حکومتی کمیٹی اور بین الملکی اعلی سطحی کمیٹی کے کاموں کے تسلسل پر نظر رکھ سکے اور کسی قسم کے تساہل کی صورت میں عمل درامد کرا سکے۔
(۱۸) صحافی برادری خواہ ان کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکٹرونک میڈیا سے، اسی طرح سوشل میڈیا سے متعلق ہر ہر فرد سے گذارش ہے کہ خدا را موجودہ دورکے اس عظیم انسانی المیے کو نظر انداز نہ ہونے دیں تا وقتیکہ ان مظلومین کو ان کا حق نہ مل جائے۔
(۱۹) انسانی حقوق کی علم بردار شخصیات اور تنظیموں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ آج ایک کتے بلی تک کے حقوق کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے سے دریغ نہیں کیا جاتا، خدارا ! اس صدی کی اس عظیم انسانی ٹریجڈی کو سنجیدگی کے ساتھ اس طرح ٹریٹ کیجئے کہ ان بے سہارا اور بے خانماں انسانوں کو عزت کی زندگی گذارنے کا موقع مل سکے اور انسانیت کی آتما کو آسودگی حاصل ہو۔
(۲۰) تمام اہل خیر حضرات سے اپیل ہے کہ روہنگیا مسلمان جو اراکان میں پھنسے ہوئے ہیں اسی طرح مختلف ملکوں میں پناہ لے چکے ہیں ان کی خوراک، صحت اور تعلیم کا مؤثر انتظام کریں۔

Facebook Comments

شفقت اللہ
شفقت اللہ گوجرانوالہ ہاشمی کالونی کنگنی والہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply