آج کیا کیا؟۔۔۔۔حنا شاہد

کئی دنوں سے ہر روز دن کے اختتام پر ایک سوال میرا منہ چڑا رہا ہوتا ہےآج بھی جیسے ہی رات کو کام سمیٹ کےسونے کیلۓ لیٹی ہوں تو میرا ضمیر دھک سے حاضر ،اور ایک ہی سوال ۔۔۔۔آج کیا کیا؟؟ میں شش و پنج میں مبتلا ،کورے دماغ میں کچھ نہ آیا تو کہہ دیا “” کچھ بھی نہیں “ـ غصے اور حیرانگی کی ملی جلی کیفیت میں دوبارہ پوچھا گیا” کچھ بھی نہیں ؟”پورا دن ضائع کردیا؟غضبناک سی کیفیت ہو گئی  اسکی یہ پوچھتے ہوۓــ
پھر میں نے سوچ سوچ کے بتانا شروع کیا۔آج میں نے
نماز پڑھی، کھانا کھایا،گھر کی صفائی کی،تلاوت بھی کی ،گھر کے کچھ چھوٹے موٹے کام کیے،کھانا بنایا اور (جیسے جیسے میں بتا رہی تھی میری گردن فخر سے بلند ہورہی تھی کہ واہ میں نے ایک دن میں اتنے کام کر لۓ اب تو یقیناًًً میرا ضمیر مجھے ضرور شاباش دے گا)۔
اور ؟اس نے پھر پوچھا۔۔۔۔
بس باقی جو وقت بچا میں نے کچھ تحریریں لکھنے اور موبائل پہ گزار دیا۔۔یہ سب بتا کے میں ہلکی پھلکی ہو کے سونے لگی کہ چلو جان چھوٹی۔۔۔۔
ایک دم کرخت آواز آئی “۔یہ سب کس کے لیۓ کیا؟؟”
حد ہوگئی ،مجھے غصہ آیا۔۔ عجیب سوال ہےـ؟ اور پھر ایک اور سوال :
“دنیا کیلۓ یا آخرت کیلۓ؟؟”
میں نے ذہن میں یہی الفاظ دہراۓ “دنیا “کے لیے  یا” آخرت کے لیے؟؟”
اب میں الرٹ ہو کے بیٹھ گئی۔۔ایک ایک کام پہ غور کرنے لگی،جب کافی دیر کچھ نہ بولی تو پھر اسکی آواز آئی:
“نماز فرض ہے”ـ کیا اسے فرض سمجھ کے ادا کرتی ہو ۔یا اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کیلۓ خشوع خضوع اور عاجزی سے ادا کرتی ہو؟؟؟
سوال مشکل تھا۔میں ہلکا سا منمنائی۔۔۔
“فرض تو ادا کرنا ہی ہوتا ہے جیسے مرضی کرو۔۔۔””۔
لیکن اس کڑوی حقیقت نے میرے دل کو اندر تک دہلا دیا کہ میں تو اکثر دکھ تکلیف آنے پر ہی نماز کو بہت خشوع وخضوع سے ادا کیا کرتی تھی۔ورنہ تو بس یہ ہوتا کہ پڑھی اور سر سے بوجھ اترا۔اور بعض دفعہ تو دعا بھی مانگنا یاد نہ رہتا،” یعنی میں اس سوال کے جواب میں فیل ہو گئی  ۔”مجھے دکھ سے رونا آنے لگا۔
لیکن اس کے سوال تو ابھی رہتے تھے۔وہ پھر گویا ہوا:
پھر تم تین وقت کھانا کھاتی ہو۔ظاہر ہے مسلمان ہو سنت کے مطابق ہی کھاتی ہوگی ،شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتی ہوگی اور ختم کرکے الحمداللہ تو ضرور کہتی ہوگی؟اس نے جیسے تصدیق چاہی کہ یہاں تو جیسے میں ضرور کامیاب ہوجاؤں گی۔۔
میرا روم روم کانپ اٹھا۔حلق سے ہلکی سی آواز نکلی
“نہیں “بس کبھی کبھار ہی،”
“اوہ تو تم کھانا بھی ضائع کردیتی ہو”؟کیسی ناشکری ہو تف ہے تم پر”
میں احساس شرمندگی سے نظریں جھکا گئی تھی۔
لیکن وہ تو جیسے مجھے کٹہرے میں ہی کھڑا رکھے ہوۓ تھا۔ایک بار پھر آواز آئی:
اور یہ جو تم گھر کے کام کرتی ہو،گھر والوں کی خدمت کرتی ہو۔سوچتی تو ہوگی کہ اللہ راضی ہوجاۓ گا۔۔اس میں تو دکھاوا نہیں ہوتا نا؟؟ جانتی تو ہوگی کہ ریاکاری گناہ ہے؟؟
میں حیران رہ گئی  کہ مجھے یوں بھی بےنقاب کیا جاۓ گا۔۔
اللہ کی رضا کے لیے تو میں کچھ بھی نہیں کرتی تھی۔امی بھابھیوں اور بہنوں کی نظر میں اچھا بننے کے لیے ،ان سے اپنی تعریف سننے کے لیے ہی تو سب کام کرتی ہوں۔۔مجھے اپنی یہ محنت بھی رائیگاں جاتی نظر آئی۔۔میری آنکھیں نم ہوئیں تو اس نے حوصلہ دیا چلو چھوڑو ۔
“اچھا یہ بتاؤ جب گھر کے کام یا ذاتی کام کررہی ہوتی ہو توکسی اول فول سوچ کی بجاۓ ساتھ ساتھ دل ہی دل میں اللہ کا ذکر کرتی ہو نا ؟؟ شاید میرا ضمیر میری محنت کو رائیگاں جاتا نہیں دیکھ سکتا تھا اس لیۓ یہ سوال پوچھا کہ مبادا میں کامیاب ہوجاؤں ؟؟
لیکن مجھ گناہگار سے اتنی بڑی توقع کیسی؟؟
” ہاں بس کبھی کبھی “ــ میں جھکے سر سے اتنا ہی کہہ سکی۔اس نے نخوت سے سر جٹھکا ۔
پھر بڑے حوصلے سے پوچھا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اچھا تم لکھتی بھی ہو؟کیا لکھتی ہو؟
میں خوش ہوگئی کیونکہ یہ سوال میری پسند کا تھا۔
میں بہت اصلاحی لکھتی ہوں،معاشرے کے مسائل کے بارے میں اور تو اور دین کے بارے میں بھی میں نے بہت لکھا۔۔۔
اچھی شہرت کے لیے؟دو ٹکا سا جواب آیا
نہیں ۔۔۔۔لوگوں کی اصلاح کے لیے
خود بھی عمل کرتی ہو؟؟
میں خود؟؟ہاں کوشش کرتی ہوں۔۔
دیکھو!کیا تم نہیں جانتی نبی پاکﷺ نے اس شخص کو سخت ناپسند فرمایا ہے جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور خود اس پہ عمل بھی نہیں کرتا۔۔۔
“بس بس کرو ۔!”۔میں چیخ  پڑی
اب یہ باتیں میری برداشت سے باہر ہوگئی تھیں
میں زاروقطار رونے لگی،خوف اور دکھ اتنا کہ اب نیند آنا تو ناممکن تھا”
“۔میں نے زندگی کے بیس سال ضائع کردیے  یہ سوچ میری جان لینے والے تھی۔۔”
“شا ید آج آخری دن ہو۔امتحان سر پہ کھڑا ہے اور میرے پلے تو کچھ بھی نہیں ہے ۔۔جو کیا تھا وہ بھی ریاکاری کی نظر ہوگیا۔۔اب کیا کروں؟؟دل تکلیف سے پھٹنے لگا۔۔
مجھے تو اللہ پاک نے دنیا کے بازار میں اس لیۓ بھیجا کہ جا میری بندی! اپنی پسند کی اچھی اچھی چیزیں خرید لا۔۔اور میں کیسی بدنصیب کہ اس عارضی بازار کی چمک دمک میں کھو گئی ,یاد ہی نہ  رہا کہ کچھ خریدنے آئی تھی اوراس لیۓ اب تک خالی ہاتھ ہی ہوں۔۔ مجھے تو چاہیۓ تھا ہر اچھی چیز سے جھولیاں بھر لیتی ۔سارے قیمتی موتی سمیٹ کے اپنی روح تک کو روشن کر لیتی۔لیکن میں تو کھڑی ان موتیوں کو دور دور سے دیکھتی رہی پاس جانے کی زحمت ہی نہ کی۔۔۔
مجھے لگ رہا تھا اگر میں نے آنکھ بند کی تو میری آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کیلۓ بند ہوجائیں گی۔لیکن پھر میں اٹھی وضو کیا قرآن پاک کھولا
تو اس آیت پہ نظر پڑی :
ترجمہ:اور دلوں کا سکون تو اللہ کے ذکر میں ہے
دل بھرآیا۔۔یہاں ہے سکون تو، میں کہاں ماری ماری پھرتی رہی؟؟
ارے میں تو ضمیر کو جواب نہ دےپائی کل میدان حشر میں کیسے اس مالک کل کے سامنے جوابدہ ہو پاؤں گی۔۔؟؟؟
پھر کئی دن ایسے ہی روتے روتے آنکھوں میں رات کٹ جاتی ۔۔۔نئی صبح کا سورج طلوع ہوتا تو بہت شکر ادا کرتی ۔۔۔
لیکن دل و دماغ میں ایک ہی سوال ہوتا کہ آج کیا کیا؟؟؟
سارا دن اس سوال کے بہتر جواب کے لیے خود کو تیار کرتی رہتی ہوں ۔۔
رات ہونے پہ دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ۔۔ پھر وہی ہر روز اپنا ہی ضمیر سوالوں میں گھیر لیتا ہے۔۔۔لیکن اب بہتری آتی جارہی ہے ، تھوڑی بہت سر خروئی تو حاصل ہو ہی گئی ہے۔
اب پہلے سوال پہ فوراًًً کچھ بھی نہیں ، نہیں کہتی بلکہ اعتماد سے بتادیتی ہوں ۔اس ایک سوال نے مجھے جینا سکھادیا مجھے زندگی کا مقصد سمجھادیا ۔۔میں اپنے لیۓ اب بھی کچھ نہیں کرتی۔دوسروں کیلۓ جیتی ہوں مجھے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد پورے کرنا بھی آتا جارہا ہے ۔۔۔اور ذکر اللہ سے تو زبان ہر وقت تر رہتی ہے۔
اور آج یہ اعتراف کرتے ہوۓ میری آنکھیں بھر آئیں ہیں کہ مجھے زندگی اب بہت خوبصورت لگتی ہے اسکی قدروقیمت کا اندازہ مجھے اس ایک سوال سے ہوا ہے کہ “آج کیا کیا؟؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply