ذوقِ ایرانی۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

اس “مقدُس جذبے ” کو چاہیں تو جمالیاتی حسنِ ذوق کی، جب راہ نہیں پاتے تو چڑھ جاتے ہیں نالے، والی تعبیر کا نام دیا جا سکتا ہے ، مگر اس کیفیت کا موازنہ لواطت سے نہ کیا جائے، جسے زبانِ جدید میں اصنافِ قوی کی ہم جنس پرستی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مذکورہ ذوق کی کیفیت میں عماماً کوئی جنسِ مذکر کسی بے ریش و خوبرو نوجوان کو دل دے بیٹھتا ہے، اس شک کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس حادثے کے برپا ہونےمیں تحت الشعور سے اٹھتی ہیجانی انگڑائیاں اپنا کوئی کردار ادا کرتی ہوں گی، کہ مادُی محبت کی بنیاد میں اہم ترین کردار جنسی جذبات کا ہے، مگر عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ اس تعلق میں پردۂ نفاست کو اس قبیح غلاطت سے پاک رکھا جاتا ہے۔ استثناء ہر شعبے و تعلق میں پایا جاتا ہے، وہ یہاں زیرِ بحث نہیں۔
اس ذوق کی آبیاری کے نشانات قدیم ترین تاریخ و تہذیب میں بھی ملتے ہیں،چاہے وہ یونانی تہذیب ہو، یا پھر قدیم ریاستِ فارس، اہلِ جمالیات نے کبھی معاشرے میں رائج اقدار کو خاطر میں نہ لایا، فارسی شعراء کے ادب میں اس کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا ہے، دلُی اور لکھنؤ کی تہذیب تو ابھی کل کی بات ہے، جس میں معروف اردو شعراء کسی سیب جیسے گالوں، اور غزال آنکھوں والے نوخیز پر اپنی فریفتگی کا اعلان کرتے اور اس بحرِ بے کراں میں کوئی راہ نہ سوجھنے کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دورِ حاضر میں بے شمار علاقائی و قبائیلی گلوکار ، شعراء ، نواب طبیعت افراد ( اب نواب نہیں رہے، مگر نواب طبیعت لوگ موجود ہیں) و دیگر چیدہ شخصیات اپنے بغل میں موجود کسی بے ریش کی موجودگی پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔
جمالیاتی حِس کی تسکین کے سامان کیلئے قدرت کا دامن تنگ نہیں، اور مذاہب نے اس سامان کو جائز و ناجائز، دو حصّوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک واضح لکیر کھینچ دی کہ نفسانی خواہشات کا چرواہا، حضرتِ انسان، اپنے ریوڑ کو غیر کی چراہ گاہ کے پاس بھی نہ بھٹکنے دے، مگر فطرتِ انسانی نے ہمیشہ اپنے اوپر لگی پابندیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا، اور اس کیلئے ممنوعہ شجر کے چکھنے کی خواہش کو دبانا کبھی بھی آسان نہیں رہا، رہی سہی کثر معاشرے میں رائج غلط رسوم و اقدار ادا کیا کرتے ہیں، کہ معاشرتی مزاج اگر جائز سامانِ تسکین میں رکاوٹ ہے تو ناجائز کا پھلنا پھولنا ناگزیر ہے۔
کوئی شک نہیں کہ غیر مخلوط اجتماعیت سے اٹھنے والے طوفانوں کو انسان ابھی تک درست سمت دینے میں کامیاب نہیں ہو پایا، کسی حد تک عربوں نے متعدد شادیوں اور نظامِ طلاق کو آسان بناتے ہوئے اس پیچیدگی پر جزوی قابو پایا ہے، مگر ہر معاشرہ یا شخص اس “عیاشی ” کا متحمل نہیں ہوسکتا، اگرچہ مردوں کا بے ریش نوجوانوں کی طرف راغب ہونے کی بنیادی وجوہات میں جائز سامانِ فطرت کا میسر نہ ہونا ہے، مگر یہ واحد وجہ نہیں، اس کے پیچھے کچھ نفسیاتی عوامل کارفرما ہیں۔، اور جیسا کہ عرض کیا کہ مذکورہ تعلق میں “فعلِ شباب” مقصود نہیں ہوتا تو معاملہ مخلوط یا غیر مخلوط سے زیادہ پیچیدہ دکھائی دیتا ہے۔
کسی بھی فرد کیلئے روانئ طبع سے زیادہ اطمینان بخش جذبہ اور کوئی نہیں، رکاوٹ و تھکاوٹِ طبع نہ صرف باطنی بے چینی و جسمانی امراض کا باعث بنتی ہیں، بلکہ فرد میں موجود شعوری و تخلیقی صلاحیتوں کو دفن کرتے ہوئے اچھے بھلے انسان کو زندہ لاش میں بدل ڈالتی ہیں۔
انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کیلئے جزوی کردار بیرونی عوامل کا رہا ہے اور رہے گا، مگر جنسِ مخالف میں دلچسپی اگر اپنی منزل کو پاجائے تو جذبات کا طوفان تھم جایا کرتا ہے، ادبی تاریخ گواہ ہے کہ خواہشِ وصل کے جلتے رہنے کے عمل نے ہی عام افراد کو عظیم مصنف، شاعر، گائیک، موسیقار یا مصوّر میں بدلتے ہوئے انسانیت کو اپنی اہمیت سے باور کرایا، دورانِ وصل جذباتی و مادّی اخراج کے بعد غفلت کی نیند ہی مقدّر ٹھہرتی ہے، اس سے اگلا قدم کسی نئی محرک کا انتظار ہے کہ نیا عشق ہی انسان میں چھپے فنونِ لطیفہ کی بیداری، یا پھر انسان کی باطنی جمالیاتی حِس کے اطمینان کا باعث بنے، اس کیلئے جائز حربہ وہی متعدد شادیوں و طلاقوں والی معاشرتی قدر ہے، جو عربوں میں رائج ہے، مگر ہر معاشرہ یا فرد اس کی معاشی یا جسمانی صلاحیت نہیں رکھتا، کیونکہ دوسری یا تیسری شادی یا طلاق کو مختلف معاشروں میں خاندان کے اجڑنے سے تعبیر کیا جاتا ہے، ایسے معاشروں کے اقدار انسان کی جرآتِ قلندرانہ سلب کرتے ہوئے اسے “میسر ذرائع” کے استعمال کی طرف دھکیلتے ہیں، جہاں وصل و ہجر، محبت و نفرت کے جذبات کی تازینِ نو کو چھیڑتے رہنے کی مسلسل مشق، نہ صرف نظامِ خاندان میں دراڑ نہیں ڈالتی، بلکہ طبع کی روانی میں ایک محرک کا کام دینے کے علاوہ ، انسان کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع دیتے ہوئے اس کی نفسانی تسلئ کا باعث بنتی ہے، اور یہ جسمانی و اعصابی صحت کیلئے ناگزیر ہے۔
یہاں دو ذیلی عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ظاہری حُسن میں اچھی صحت کا اہم کردار رہا ہے، جن معاشروں میں مرد صحیح معنوں میں غالب ہے، وہاں عورت کی صحت پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی، بچپن میں ہی لڑکی کی بجائے لڑکے کی خوراک پر بوجوہ ،زیادہ توجہ دی جاتی ہے، نتیجتاً لڑکوں کے گالوں کی لالی و آنکھوں کی چمک ایک بےفکر طبع کو چندھیانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
دوسرا اہم نکتہ، جنسِ قوی کیلئےمیسر ماحول و اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق ، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ اسے معاشرے کا اہم فرد ہونے کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ، اس کے طبعی سکون کا باعث بھی واقع ہوا ہے،اگر کسی مخصوص معاشرتی ماحول میں، خواتین اپنی ساری عمر چار دیواری میں گزارے رہنے پر مجبور ہوں تو ایسی خواتین حالاتِ حاضرہ و دیگر دلچسپ مضامین سے ناواقفیت کی بنیاد پر مباحث و گفتگو کیلئے زیادہ موزوں نہیں رہتیں، اسی لیے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ امراء، اپنے گھر میں مشتری شمائل زوجہ کی موجودگی کے باوجود “دار الخدمت” کا رخ کیا کرتے تھے، کہ چڑھتے نالوں کے بہہ جانے کے بعد گیلی ریت کی سُونی خوشبو سے لطف اندوز ہونے کیلئے کسی قدر دان و ہم خیال کی موجودگی ضروری ہے،یہی کردار نوخیز نوجوان بھی نبھایا کرتے ہیں کہ حالاتِ حاضرہ و ساقی گیری کے فن سے واقف ہوتے ہیں، اور یہاں نہ صرف نالوں کے اترنے کا خوف نہیں ہوتا، بلکہ یہاں مسلسل حالتِ وصل میں رہتے ہوئے، اب وہی ترقِ تعلق کے بہانے مانگے، والی کیفیت کا بھی امکان نہیں۔
اس پر کسے موردِ الزام ٹھہرایا جائے ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply