جہیز اور۔۔۔۔غیرت مرداں؟۔۔۔۔۔۔۔رابعہ الرَبّاء

جہیز ۔۔۔یہ لفظ سنتے ہی مجھے مردوں کی غیرت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر یاد آ جاتا ہے ۔ جو شادی کے اس موقع پہ نجانے کہا ں چلا جاتا ہے ۔ اس سے زیادہ تعجب یہ ہو تا ہے جب مرد یا اس کے گھر والے فخر سے یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ جہیز میں کیا کیا آیا ۔ اور اس کے بعد اس فخر کو مذہب یا سماج سے منسوب کر کے حلال کر دیا جاتا ہے۔
اور پھر اس کے بعد سب سے اہم مرحلہ جہیز میں آئے پلنگ بسترپہ جوہرِ فاخر سے مغرور ہو نا۔ اور کمال کہاوت بنا ڈالنا کہ عورت کے جہیز اور مرد کی کمائی میں بہت برکت ہو تی ہے۔ اف عقل پناہ مانگتی ہے۔
کسی بھی رسم یا چیز کے مو جود ہو نے کی تصدیق کرنی ہو تو اس زبان کی لغت سے کی جاتی ہے ۔ عربی لغت میں جہیز کے لئے جو لفظ ملتا ہے ۔ وہ ’’جھاز،، ہے ۔ اس کے لغوی معانی دیکھیں تو ’’مسافر کا سامان ،، ہے ۔اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسافر کا سامان کس قدر ہوسکتا ہے؟
ہم اس کو آ ،جا کربرصغیر کے ہندو سماج کی رسم سے جوڑ دیتے ہیں ۔ کہ وہ بیٹیوں کو ساز و سامان(جہیز )دے کر ان کی وراثت رکھ لیتے تھے۔
لیکن جہیز کی رسم کے آغاز کے شواہد تاریخ کچھ اور طرح بھی ملتے ہیں ایک راویت ہے کہ جہیز کا آغاز سر زمین بابل میں بسنے والی قدیم اقوام آشوری ،عکاری اور سومری سے ہوا۔ خصوصاََ سومری قوم سے ہوا۔ سومری قوم کی لڑکیا ں بالغ ہوتے ہی عصمت فروشی شروع کر دیتیں ۔ اور اس سے حاصل ہو نے والی رقم سے جہیز بناتی تھیں۔
یہ خطر ناک طرز زندگی کا دور تھا ۔قبائل میں جنگو ں کے دور طویل چلا کرتے تھے۔ مردوں کو شکاری مہمات پہ جانا پڑتا تھا۔ جس کے باعث مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں کم رہ گئی۔ مردوں کی قدر وقیمت بڑھ گئی جس کا انہو ں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اور عورت سے شادی کے بدلے اسے مال ودولت لینے لگے۔ لہذا لڑکیوں میں عصمت فروشی کی رسم نے رواج پایا۔ باکرہ لڑکی کو تو شادی کے قابل ہی نہیں  سمجھا جاتا تھا۔ اسی لئے عصمت فروشی کو بھی بْرائی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بات کہ گہرائی تک آپ کو خود جانا ہو گا۔
یہاں الفاظ آپ کے ساتھ چھوڑ دینا مناسب ہے۔
جہیز کی تشہیر کا دور کافی حد تک کم ہو گیا ہے ۔ لیکن جہیز کے ساتھ خصوصی تحائف بھی ہو تے ہیں ۔ جو لڑکے کے گھر والوں کے لئے لیے جاتے ہیں۔ کچھ خاندانوں کے رواج ایک دوسرے کو پہلے ہی گنوا اور بتا دئیے جاتے ہیں۔ لہذا لڑکی والے اپنی بساط سے زیادہ تر دینے کی کوشش کر تے ہیں ۔
اس کے علاوہ اب تھیم میرج نے سماج کے نئے رواج میں جگہ بنا لی ہے ۔ اس میں بڑھ چڑھ کر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کے اخراجات جہیز سے زیادہ ہوتے ہیں۔ جہیز کو اب یو ں نہیں لیا دیا جاتا۔ بلکہ اس میں لڑکا اورلڑکی دونوں جانب کے خاندان اب معاشی پیکج کی مدت اور معیاد تک نظر رکھتے ہیں۔ اب سرکاری جاب بھی جہیز ہے۔اب اس میں صرف لڑکے والے قصور وار نہیں ہیں ۔ بلکہ لڑکی والے بھی اتنے ہی ملوث ہو تے ہیں۔ وہ جہیز دینا چاہتے ہیں ۔ تھیم میرج پہ بھی اعتراض نہیں کرتے۔ تحائف کا ایشو بھی نہیں بناتے۔ بس ایک ایسا پیکج سیٹ کر لیتے ہیں کہ لڑکا مستقبل قریب میں والدین سے الگ ہو جاتا ہے ۔ گویا اب جو ذمہ داری اس کی بیگم پہ نہیں ہے۔ وہ اس پہ بھی نہیں ہے کہ مترادف ایک نئی زندگی شروع ہو تی ہے۔ اس میں ہم کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے ۔ کیونکہ یہ ماضی کے اس جہیز کلچر کا رد عمل ہے۔ جب جہیز کی نمائش ہو تی تھی۔ جب جہیز کو بوجھ بنا دیا گیا تھا ۔ اب یہ بوجھ اتارنے کا وقت ہے ۔
اللہ بھلا کرے ان لڑکیو ں کا جو ڈرامے لکھ رہی ہیں ۔جہیز پہ ایسے ایسے قاتلانہ ڈرامے لکھے ہیں کہ کسی مرد راج میں یہ ممکن نہیں تھا۔
اب دور وہ نہیں رہا کہ جہیز ، تحائف اورزیورات کی بات ہو گی ۔ اب یہ بات سے نظر ہٹانے والی بات ہے ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جہیز کوئی ایشو نہیں ۔ اب بھی لڑکے والے ڈیمانڈ کر تے ہیں ۔ اب ذرا سلجھے ہو ئے طریقے اپنائے جاتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے۔ مطلب آپکو گھر گاڑی چاہئے تو آپ کہہ سکتے ہیں ۔ارے بہن اب جہیز کا دور کہا ں رہا ۔اب تو بچی دو چابیوں میں رخصت کر دی جاتی ہے۔
پر وقار سادگی کی اپنی شان ہے۔ایک دن کہ کہانی کو پندرہ سے سات تک تھیم کے نام پہ طول دینا ۔ کہا ں کی دانشمندی ہے۔ اب دور وہ ہے کہ جب سادگی اپنانے کی بات ہو نی چاہئے۔ ورنہ مستقبل قریب میں یہ نئے رواج، جو ابھی محسوس بھی نہیں ہو رہے، جان کا عذاب بن جانے والے ہیں۔
بات جہیز سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ اس گاڑی کو پکڑنے کی کوشش بھی کیجئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply