• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دوستی اور محبت کا استعارہ ۔ عطاء الحق قاسمی/طارق احمد

دوستی اور محبت کا استعارہ ۔ عطاء الحق قاسمی/طارق احمد

دوستی اور محبت کا استعارہ ۔ عطاء الحق قاسمی
کچھ تیس سال سے اوپر ھو گئے۔ ھم اپنی گلی میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کھڑے تھے۔ ھم نئے نئے لیکچرار ھوئے تھے۔ اور ھمارا دوست نیا نیا ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ۔ ھم نے ایک فکاھیہ کالم لکھا تھا۔ اور ھم دونوں دوست اس کالم کی نوک و پلک سنوار رھے تھے۔ اچھا یہ بتاتے چلوں ۔ پہلے ھم اپنے دوستوں سے ایک موضوع ڈسکس کرتے۔ پھر اس پر کالم لکھتے۔ پھر اسے انہی دوستوں کو زبردستی پڑھاتے اور پھر ایڈٹ کرتے۔ اور پھر چھپواتے ۔ وہ دن بھی آئے جب ھمارے یہ دوست ھمیں دیکھ کر ادھر ادھر ھو جاتے۔ لیکن ھماری دسترس سے نہ نکل پاتے۔ یہ ھماری کالم نگاری کا ابتدائی دور تھا۔ اور ھماری تربیت کچھ ایسے ھی مانگ تانگ کر زور زبردستی ھو رھی تھی۔ ھمارے ڈپٹی کمشنر دوست نے کہا۔ کالم اچھا ھے۔ لیکن یہ بتاو طنزومزاح میں کسے فالو کرتے ھو۔ یا یہ کہ فکاھیہ کالم نگاری میں کس سے متاثر ھو۔ اور مستقل کا کیا ارادہ ھے۔ ھم نے آنکھیں بند کیں ۔ کچھ دیر سوچا اور کہا۔ عطاء الحق قاسمی کو ۔۔۔۔ وہ مسکرانے لگا ۔ لیکن وہ تو بہت بڑا نام ھے۔ تم کیسے ان کی گرد تک پہنچو گے۔ ھم نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔ گرد بن کر ساتھ ساتھ اڑتا رھوں گا۔ ھم دونوں نے انگریزی ادب پڑھا تھا۔ ھم اکثر تخلیقی قوت پر بحث کرتے۔ ورڈز ورتھ بہت بڑا شاعر تھا۔ لیکن زندگی کے آخری سالوں میں اس کی کوئ تخلیقی کاوش سامنے نہ آ سکی۔ کرنل خان نے بجنگ آمد کے بعد بسلامت روی لکھی اور بزم ارائیاں تک پہنچتے پہنچتے طنز و مزاح ختم ھو گیا۔ مشتاق احمد یوسفی چراغ تلے سے آب گم تک پہنچ پائے۔ شفیق الرحمن مزید حماقتوں تک رہ گئے۔ یہاں
خدا ناخواستہ ھم ان اساتذہ اور اردو ادب کے بڑے ناموں اور شخصیات کو ان کے مقام سے نیچے نہیں لا رھے۔ لیکن ھمارا تھیسس یہ ھے۔ کہ تخلیقی قوت اور وارفتگی اللہ پاک کی خاص دین ھے۔ اور اللہ پاک نے محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کو اس تخلیقی قوت سے مالا مال کر رکھا ھے۔ یعنی ایک شخص پچاس سال سے طنز و مزاح لکھ رھا ھے۔ اور اس کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ھو رھے۔ ھم نے ایک بار قاسمی صاحب سے کہا۔ کئ بار موضع نہیں ملتا۔ کئ کئ دن گزر جاتے ھیں ۔ ایک سطر نہیں لکھی جاتی۔ مسکرا کر کہنے لگے۔ میرے پاس اتنے موضوعات ھوتے ھیں ۔ لکھتے ھوئے سمجھ نہیں اتی۔ کس پر پہلے لکھوں ۔ فکاھیہ کالم نگاری ، طنزومزاح، شاعری ، ڈرامہ اور سفر نامہ ، ادب کا کونسا شعبہ ھے۔ جس میں انہوں نے نہیں لکھا اور اپنا لوھا نہیں منوایا۔ کتنی نسلیں ھیں ۔ جو ان کی تخلیقی و ادبی کاوشوں سے متاثر ھوئیں ۔ قاسمی صاحب اپنی زات میں ایک مکمل اسکول ھیں ۔ اور اس اسکول میں جو داخل ھوا اسے کبھی چھٹی نہ ملی۔
قاسمی صاحب ساٹھ کی دھائ میں اس وقت امریکہ چھوڑ کر واپس وطن چلے آئے۔ اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ھو گئے۔ جب پیسے کمانے کے لیے لوگ دساور جا رھے تھے۔ ایک محب وطن ، قوم پرست شخص ، ایک نیک عالم باپ کا بیٹا ، لائق اولاد کا قابل ستائش باپ ، دوستوں کا دوست ، ایک مہذب، مدلل ، دھیمے مزاج کا شخص ، مسکرانے اور مسکراھٹ بکھیرتے والا شخص، ایک پر جوش ، محبت بھرا ، پر خلوص شخص، جس کی زندگی میں کوئ طمع نہیں ۔ جو سفیر بنا۔ تو حکومت ختم ھوتے ھی سفارت چھوڑ دی۔ جو پی ٹی وی کا چئیرمین بنا ۔ تو پی ٹی وی میں انقلابی تبدیلیاں لے آیا۔ جس کا سٹاف اس سے محبت کرتا۔ جو الحمرا آرٹس کونسل کا چئیرمین تھا۔ تو اس نے شاعروں اور ادیبوں کے لیے اس کے دروازے کھول دیے۔ یہ ٹھیک ھے۔ قاسمی صاحب کے مخصوص سیاسی نظریات ھیں ۔ لیکن یہ ان کی ایمانداری اور استقامت ھے۔ وہ اپنے نظریات کو کب چھپاتے ھیں ۔ کب دو نمبری کرتے ھیں ۔ منہ سے کہتے ھیں ۔ وہ نواز شریف سے محبت کرتے ھیں ۔ اور ملک کے لیے انہیں ضروری سمجھتے ھیں ۔ تو یہ ان کا حق ھے۔ بے ایمانی تب ھے۔ جب وہ نواز شریف کو مصیبت میں چھوڑ کر کہیں اور نکل جائیں ۔ جو شخص مشکل وقت میں اپنے لیڈر کو نہیں چھوڑتا ۔ اپنے سیاسی نظریات نہیں چھوڑتا ۔ بے بنیاد مقدمات کا سامنا کرتا ھے۔ سیاسی دباو برداشت کرتا ھے۔ سازشوں سے ڈر کر پیچھے نہیں ھٹتا ۔ جس کے سیاسی مخالفین بھی اس کی راست گوی اور ایمانداری کی قسم کھاتے ھیں ۔ اور جو پوری دنیا میں اپنے وطن کی پہچان ھے۔ ایک ایسا باصلاحیت شخص ، ایک ایسا تخلیق کار ، ایک ایسا با کمال استاد ، ایک ایسا منظم سفارت کار ، ایک ایسا ایماندار انسان ، اس کے متعلق جب یہ ارشاد ھو۔ وہ ایک ادارے کا سربراہ بننے کے لائق نہیں ۔ تو افسوس تو ھو گا۔ احتجاج تو ھو گا۔ گلہ تو ھو گا۔ کیا ھم بحثیت قوم اتنے بانجھ ھو گئے ھیں ۔ کہ جو ھمارا فخر ھیں ۔ ھم اس فخر کو مستقل زندگی سے بیزار کر دیں ۔ زندگی کا سفر اتنا بھی رائیگاں تو نہیں ۔
وفا داری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
طارق احمد

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply