• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ڈاکٹر عبدالقدیر خان سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک۔۔گُل بخشالوی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک۔۔گُل بخشالوی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جسد ِ خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر فیصل مسجد کے احاطے میں لایا گیا، جہاں ان کی نمازِ جنازہ ادا کیے جانے کے بعد انھیں ایچ ایٹ کے قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ڈاکٹر اے کیو خان کی عمر 85 برس تھی اور وہ خاصے عرصے سے علیل تھے۔‘ڈاکٹر عبدالقدیر خان 26 اگست 2021 کو کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے جس کے بعد حالت اچانک بگڑ گئی تھی اور انھیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا تاہم کچھ روز بعد ان کی طبیعت سنبھلنے لگی تھی اور انھیں واپس گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔ پھر   دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو 2004میں جوہری ٹیکنالوجی کی مبینہ منتقلی کے بارے میں ‘اعترافِ جرم’ کے بعد نظربند کیا گیا تھا اور وہ پانچ برس نظربند رہے تھے۔ تاہم 2009 میں عدالتی حکم پر نظربندی کے ’خاتمے‘ کے بعد بھی وہ عوامی تقریبات میں دکھائی نہیں دیتے تھے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان 27 اپریل 1936 کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے تھے اور برصغیر کی تقسیم کے بعد 1947 میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کی تھی۔کراچی میں ابتدائی تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وہ یورپ گئے اور 15 برس قیام کے دوران انہوں نے مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوین سے تعلیم حاصل کی۔

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر رابطوں کے بعد 1976 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان واپس پاکستان آئے اور 31 مئی کو انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کا نام یکم مئی 1981 کو جنرل ضیاالحق نے تبدیل کر کے ان کے نام پر ‘ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز’ رکھ دیا تھا۔ ڈاکٹر اے کیو خا ن نے ایک کتا ب میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ ِ بنیاد اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا۔

پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک اس پروگرام کے سربراہ رہے تاہم مئی 1998 میں جب پاکستان نے انڈیا کے ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب جوہری تجربہ کیا تو بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان کے پاس نہیں تھی بلکہ یہ سہرا پاکستان اٹامک انرجی کے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے سر رہا۔

ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بَری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیں ،جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کر دیا تھا ۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دو مرتبہ ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ امتیاز دیا گیا۔ پہلے 14  اگست 1996 کو صدر فاروق لغاری اور پھر 1998 کے جوہری دھماکوں کے بعد اگلے برس 1999 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے انھیں اس اعزاز سے نوازا۔ اس سے قبل 1989 میں انھیں ہلال امتیاز بھی دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر قدیر خان نے جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ‘الزامات’ سے متعلق کہا تھا کہ ایسے الزامات ایک آدمی پر ڈال دیں تو ملک بچ جاتا ہے۔ بات ملک پر سے ہٹ جاتی ہے۔’نظربندی کے خاتمے کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘بات کرنے اور آزادی میں بہت فرق ہے۔ آزادی کے معانی ہیں کہ میں گھر سےباہر جاسکوں، لوگوں سے ملوں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اور یہ (بات کرنے کی آزادی) کوئی بڑی آزادی نہیں۔ کیا ہم کوئی سرکاری راز کھول رہے ہیں کہ ہمیں باہر نہیں جانے دیا جا رہے۔ ہمیں تو دعا سلام ہی کرنا ہے۔’ڈاکٹر قدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہینریٹا (ہنی خان) سے شادی کی جن سے ان کی دو بیٹیاں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قیام ِ امریکہ کے دوران کہی گئی ایک نظم صنف تو شیح میں
ڈاکٹرعبدالقدیر خان فخرِ پاکستان
ڈالی ہے تُو گلاب ِ وطن کی نظیر ہے، عالم میں دیس کا تُو دمکتا سفیر ہے
ا اللہ کی نگاہِ کرم ہے ترا کمال، گل دیس کے لئے تُو عدیم النظیر ہے
کردار میں تو حسنِ وطن ہے گلاب توُ سیرت ترے کمال کی زندہ ضمیر ہے
ٹکرا رہا ہے دشمنِ دیں سے ترا وجود تو شان ہے وطن کی تُو رو شن ضمیر ہے
روشن ترا کمال وطن کی بہار تُو،مخلص ہے تیری ذات وطن کا ظہیر ہے
عقلِ سلیم رب سے عطاجو تجھے ہوئی ،شاہد ہے کُل جہاں  تُو اس کا اسیر ہے
بزدل کریں تو کیا کریں ذہنی غلام ہیں، تُو آج اپنے دیس میں گھر میں اسیر ہے
دشمن کے دل سے خون کے رکھنے کا کیا سوال، تُو ایٹمی عیار کا مہلک وہ تیر ہے
لُوٹا ہے جس نے قوم کو وہ ہیں تو خوش خرام ،کردار میں جو دیس کا ہر اک فقیر ہے
قیدی ہے آج دیس میں کل تک تو شان تھا ،حاکم کے اس عمل سے توُ کتنا زہیر ہے
دشمن کی خواہشات کی تکمیل کے لئے ،تیرے خلاف دیس کا ہر بے ضمیر ہے
یکتا ہے تیری فکر ِ ہنر بھی کمال کا پیو ست بزدلوں کے دلوں میں توُ تیر ہے
رشکِ وطن ہے رشک ِ چمن رشک ِ دین تُو بھٹو کا انتخاب ہے تُو بے نظیر ہے
خادم تو اپنی قوم کا تجھ کو مرا خدا رکھے سدا اماں میں دعا یہ کثیر ہے
الزام لگایا ہے دشمنوں نے خوف سے ،بد بخت جانتے ہیں کہ تُو ٹیڑھی کھیر ہے
نازاں ہیں تجھ پہ قوم کے مخلص غریب لوگ ،تیرے خلاف دیس کا حاسد امیر ہے
فخرِِ  وطن ہے تجھ سے فروزاں ہے گل وطن، عالم میں دیس کا تُو دمکتا سفیر ہے
فخرِ ِ خدا نہیں ہے قیادت ہے بے ضمیر، آنکھوں میں اس لئے تو لہو رنگ نیر ہے
روشن رہے تو دیس میں کرتی ہے یہ دعا ،تیرے لئے تو دیس کی ہر بے نظیر ہے
پاکیزہ تیری فکر کو کرتا ہے وہ سلام ،اہل ِ وطن میں جو بھی کوئی با ضمیر ہے
اقبال سر بلند رہے گا ترا سدا، دشمن ترا ہے جو بھی مقابل صغیر ہے
کل کی خبر نہیں ہمیں لیکن یقین ہے، فاتح ہے تُو کہ تیرا مقدس ضمیر ہے
سنتا نہیں دیس کا سردار گر تجھے قانون نے بھی آنکھ پہ رکھی تو لیر ہے
تاریخ تجھ کو بھول سکے گی نہ خان جی ،مٹ جائے گی جو آج یہ فوج ِ ِ وزیر ہے
ا  للہ کے کرم سے رہے گا ترا جلال بد بخت حاسدوں کا تُو تنہا ہی پیر ہے
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے کس نے حق کی مٹائی لکیر ہے!

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply