چی گویرا کا فیڈل کاسترو کے نام خط

(یہ خط اپریل 1965 میں چی گویرا نے بولیویا کی گوریلا تحریک میں شامل ہونے کا ارادے کو عملی جامہ پہناتے ہوۓ ، کیوبا کو خیرباد کہتے وقت فیڈل کاسترو کے نام رقم کیا تھا۔)
فیڈل،
اس لمحے مجھے کئی ایک باتیں یاد آ رہی ہیں۔ جب میں تمہیں ماریا انٹونیا کے ہاں ملا تھا، جب تم نے مجھے ساتھ آنے کی دعوت دی تھی، وہ پریشانیاں جو تیاریوں سے متعلق تھیں، سبھی باتیں مجھے یاد آ رہی ہیں۔ ایک روز انہوں نے دریافت کیا تھا کہ موت کے بعد کسے اطلاع دینی چاہیے اور اس امکان کی حقیقت بننے کے احساس نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بعد ازاں ہم نے جانا تھا کہ یہ احساس درست تھا کہ ( اگر انقلاب تگ و دو حقیقی ہو ) انقلاب میں یا تو جیت ہوتی ہے یا پھر موت مقدر بنتی ہے۔ فتح کی منزل تک پہنچتے پہنچتے ہمارے کئی ایک ساتھی موت کی گود میں جا سوۓ۔
آج ہر شے نسبتاً کم ڈرامائی نظر آتی ہے کہ ہم نسبتاً زیادہ باشعور ہو گۓ ہیں۔ لیکن یہ حقیقت، موت کی حقیقت خود کو دھراۓ جاتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کر دیا ہے کہ جس نے مجھے کیوبا کی سرزمیں اور انقلاب سے منسلک کر رکھا تھا، سو میں تم سے ساتھیوں سے اور تمھاری عوام سے کہ جو کبھی کی میرے ہو چکے ہیں رخصت ہوتا ہوں۔ میں رسمی طور پر پارٹی کی قومی لیڈرشپ کے عہدے سے میجر کے عہدے سے اور اور اپنی کیوبن شہریت سے کوئی قانونی بندھن اب مجھے کیوبا سے نہیں باندھے ہے۔ جو بندھن موجود ہیں وہ ایک اور نوعیت کے ہیں۔ ایسے بندھن جنہیں عہدوں کی مانند مرضی سے توڑا نہیں جا سکتا۔
اپنی گزشتہ زندگی کو یاد کرتے ہوۓ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے کافی دل جمی اور خلوص کے ساتھ انقلابی فتح مندی کو استحکام بخشنے کوشش کی ہے اس سلسلے میں فقط ایک غلطی سرزد ہوئی اور وہ یہ کہ میں نے تم پر اس درجہ انحصار نہ کیا جتنا کرنا چاہیۓ تھا۔ تم میں مضمر لیڈر اور انقلابی بننے کی صلاحیتوں کو سمجھنے میں مجھے دیر ہوئی۔
میں نے عظیم الشان دن گزارے ہیں کہ کریبین بحران کے عظیم پر افسردہ دنوں میں خود کو عوام کے ساتھ متعلق پانے کے باوقار احساس میں میں نے اپنے آپ کو تمہارے ساتھ پایا تھا۔ شاذو نادر ہی کوئ سیاستدان اتنا سمجھ دار ہو سکے گا کہ جتنے تم ان دنوں میں ثابت ہوۓ تھے۔ میں نازاں اس امر پر کہ میں نے بلا جھجک تمہارے احکامات کی تکمیل کی، خود کو تمہارے انداز فکر سے ہم آہنگ کیا اور خطروں کے درمیان اصولوں پر کاربند رہنے کی جسارت کی۔
دنیا کی دوسری قومیں میری ناچیز کاوشوں کو آواز دے رہی ہیں میں وہ کچھ کر سکتا ہوں جو تم کیوبا کے سربراہ ہونے کی ذمہ داری کہ باعث نہیں کر سکتے سو ہمارے بچھڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں یہ کام خوشی اور غم کے ملے جلے جزبات کے ساتھ کر رہا ہوں میں یہاں قوم کیلیے ایک معمار کی پاکیزہ ترین امیدوں اور اپنے پیاروں میں سے عزیز ترین لوگوں کو چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جنہوں نے مجھے ایک بیٹے کی حثیت سے قبول کیا تھا۔ اس احساس کا زخم بہت گہرا ہے۔ میں تمہارے بخشے ہوۓ ایمان کو اپنے سینے میں سمویا۔ اپنی عوام کے انقلابی جزبوں سے سرشار، اپنے مقدس ترین فرض کی ادائیگی کے احساس کے ساتھ جنگ کے نئے محازوں پر سامراج کے خلاف کہ وہ جہاں بھی ہے جدوجہد کرنے جا رہا ہوں۔ یہ احساس عمیق ترین زخموں کو بھی بھر دے گا۔
اگر میں نے آخری لمحوں میں خود کو کسی اور آسمان تلے پایا، تو میرا آخری خیال اس عوام کے اور بلخصوص تمہارے بارے میں ہو گا۔ میں تمھاری تعلیمات کا شکرگزار ہوں اور اپنے اعمال کے انتہائی نتائج سے دیانت دار رہنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے ہمیشہ ہمارے انقلاب کی خارجہ پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔ میں جہاں کہیں بھی ہوں گا خود کو ایک کیوبن انقلابی سمجھوں گا۔
مجھے اس امر کا افسوس ہے کہ میں اپنے بچوں اور اپنی بیوی کیلیے کچھ چھوڑ کر نہیں جا رہا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ یہ ایسا ہے۔ میں ان کیلیے کچھ نہیں چاہتا کہ میں جانتا ہوں کہ ریاست ان کے اخراجات اور تعلیم کیلیے انہیں خاطر خواہ رقم دے دیا کرے گی۔
میں تم سے اور اپنے لوگوں سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن شاید اس کی ضرورت نہ ہو۔ الفاظ وہ کچھ ادا کرنے سے قاصر ہیں جو میں ان کے ذریعے کہنا چاہتا ہوں۔ ایسے میں محض اصطلاحوں کے استعمال سے کیا حاصل۔ فتح کی جانب مسلسل بڑہتے چلو ۔ میں تم سے اپنی تمام تر انقلابی خدمت کے ساتھ بغل گیر ہوتا ہوں۔
اب بھٹیاں دہکنے کا وقت ہے
اب صرف روشنی نظر آنی چاہیے

Advertisements
julia rana solicitors

اکتساب: چی گویرا کی ڈائری

Facebook Comments

بلال حسن بھٹی
ایک طالب علم جو ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو میں رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply