امام الفقہاء حضرت معاذبن جبل رض۔۔حافظ کریم اللہ

نام ونسب
امام الفقہاء حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاشمار ان جلیل القدرصحابہ کرام علہیم الرضوان میں ہوتاہے جواپنے زمانے میں عظیم المرتبت مجتہدوفقیہ تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم گرامی”معاذ بن جبل بن عمرو“ ہے۔ اور کنیت ”ابوعبدالرحمن“ ہے۔”امام الفقہاء“ کے لقب سے معروف ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتعلق مدینہ منورہ سے تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۷۵۱مرویات ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسب نامہ یہ ہے”معاذ بن جبل بن عمرو بن اوس بن عائذ بن عدی بن کعب بن عمرو بن ادی بن علی بن اسد ابوعبدالرحمن الانصاری الخزرجی“۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج۳ص۷۴۸۱)
قبول اسلام
حلال وحرام کو سب سے زیادہ جاننے والے امام الفقہاء حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصارکے قبیلہ بنوخزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان ستر خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جوتاجدارختم نبوت،امام کائنات احمدمجتبیٰ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی ہجرت مدینہ منورہ سے پہلے مکہ مکرمہ آئے تھے اور بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے۔نبوت کے بارہویں سال جب مدینہ منورہ میں اسلام کی دعوت شروع ہوئی توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے قبول کرنے میں ذرابھی ترددسے کام نہ لیااورفوراًاسلام قبول کرلیا۔مدینہ منورہ میں حضوراکرم نورمجسم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جو عام بھائی چارہ کرایا تھا اس کے تحت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھائی چارہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قائم ہوا۔(ابن سعد،واقدی)ابن اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قائم ہوا تھا۔ابن ہشام نے ان کی تصحیح کی جعفربن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت مدینہ منورہ میں نہیں بلکہ سرزمین حبشہ میں موجودتھے۔اور۷ہجری کی ابتداء میں فتح خیبرکے موقع پرمدینہ منورہ آئے۔سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قاضی اور معلم بنا کر یمن بھیجا تھا اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمرمبارک اٹھارہ سال کی تھی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ بدر،احد،خندق سمیت تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے شریک رہے۔
ملک یمن کی جانب معلم یاامیر بن کرجانا ۰
حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو ان سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس کوئی فیصلہ آیا تو تم اسے کیسے حل کرو گے؟ عرض کیا کہ کتاب اللہ کی روشنی میں اس کا فیصلہ کروں گا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے پوچھا اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو کیا کرو گے؟ عرض کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے پوچھا کہ اگر اس کا حکم میری سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد  کروں گا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کروں گا۔ اس پر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مار کر فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے پیغمبر کے قاصد کی اس چیز کی طرف رہنمائی فرما دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔(مسنداحمد۴۷۰۲،سنن ابی داؤد،ج۲،ص۹۴۱)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں قاضی یا عامل بنا کر یمن روانہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم الوداع کہنے کے لئے کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کو تلقین ونصیحت کرتے رہے۔ نیز اس وقت حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اپنی سواری پر سوار تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ان کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نصائح و ہدایت سے فارغ ہوئے تو فرمایا”معاذ میری عمر کے اس سال کے بعد شاید تم مجھ سے ملاقات نہیں کر سکو گے۔ اور ممکن ہے کہ تم جب یمن سے واپس لوٹو گے تو مجھ سے ملاقات کرنے کے بجائے میری اس مسجد اور میری قبرمبارک سے گزرو۔ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی جدائی کے غم میں رونے لگے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے منہ پھیر کر مدینہ منورہ کی جانب اپنا رخ کر لیا۔ پھر فرمایا ” میرے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو پرہیز گار ہیں خواہ وہ کوئی ہوں اور کہیں ہوں (یعنی خواہ وہ کسی رنگ و نسل، کسی ملک و قوم اور کسی طبقہ و مرتبہ کے ہوں)۔(مشکوٰۃ شریف،جلدچہارم،حدیث ۲۵۱۱)

حضرت سیّدنا عبداللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارختم نبوت،سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے جب حضرت سیّدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو ایک روز صبح کی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشادفرمایا”اے گروہ ِمہاجرین و انصار! تم میں کون ہے جو (دین اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لئے) ہمارا نمائندہ بن کر یمن جائے؟ تو حضرت سیدنا صدّیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو پیش کر دیا مگر سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے سکوت اختیار فرمایا اور دوبارہ یہی ارشاد فرمایا: اے گروہ ِمہاجرین وانصار! تم میں کون ہے جو (دین اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لئے) ہمارا نمائندہ بن کر یمن جائے؟ تو حضرتِ سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو گئے اور عرض کی”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں حاضر ہوں“۔ مگر حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بدستور سکوت فرمایا اور پھر وہی ارشاد فرمایا”اے گروہ ِمہاجرین وانصار تم میں کون ہے جو (دین اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لئے) ہمارا نمائندہ بن کر یمن جائے؟ اب حضرتِ سیّدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اورعرض کی”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں (حاضر ہوں)! تاجدارختم نبوت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: ہاں اے معاذ! تم ہی اس کام کے لئے ہو، پھرتاجدارِختم نبوت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا”اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ!ان کے لئے میرا عمامہ لاؤ“۔ حضرت سیّدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تاجدارختم نبوت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ اقدس میں عمامہ پیش کردیا۔سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر عمامہ شریف باندھا اور پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رخصت کرنے کے لئے مدینہ شریف سے باہر تشریف لائے اور دعاؤں سے نوازتے ہوئے الوداع فرمایا۔(تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس، ذکر معاذبن جبل، ۲/۱۴۲،واللفظ لہ،کتاب الثقات،السیرۃ النبوی،السنۃ التاسعۃ من الہجرۃ، ۱/۱۴۷)

سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے جب حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویمن بھیجاتوارشادفرمایا”تم عنقریب اہل کتاب کی ایک قوم کے  پاس پہنچوگے جب تم ان کے پاس پہنچوتوسب سے پہلے انہیں یہ دعوت دیناکہ اللہ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ”محمدصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم“اللہ کے رسول ہیں۔جب وہ اسمیں تیری اطاعت کرلیں توان کوبتاؤکہ اللہ نے ان پردن رات کی پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔اورجب وہ یہ بات بھی مان لیں توان کوبتاؤکہ اللہ تعالیٰ نے ان پرصدقہ وزکوٰۃ فرض کیاہے۔اوریہ صدقہ وزکوٰۃ ان کے دولت مندوں سے لیکران کے غریبوں کودیاجائے گااورجب وہ اس بات کوبھی تسلیم کرلیں تودیکھوصدقے میں چن چن کران کاعمدہ مال نہ لے لینااورہاں مظلوم کی بددعاسے ڈرتے رہناکیونکہ اس کے اوراللہ کے درمیان کوئی پردہ وحجاب نہیں ہوتا۔(صحیح بخاری،باب اخذالصدقۃ من الاغنیاء۵۲۴۱)اس حدیث مبارکہ میں سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودعوت دین کاطریق سکھارہے ہیں۔کہ دعوت دین کامنہج واسلوب اوراسے بپاکرنے کاعملی طریق کیاہو۔
علم وعمل کے پیکر
حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواللہ تعالیٰ نے علم کی گہرائی اورگیرائی عطاکی تھی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زندگی بھر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجاآوری اورتاجدارختم نبوت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے عشق ومحبت اورسنت مصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی پیروی میں کوئی کوتاہی نہ کی۔اسی طرح حقوق العبادکی رعایت بھی بڑی شدت سے فرماتے رہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوبیویاں تھیں جب ایک کی باری ہوتی تودوسری کے گھرمیں پانی تک نہ پیتے اوروضوتک نہ کرتے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ درازقد،خوبرو،رنگ سفید،آنکھیں بڑی،دانت چمکدار،بال گھنکریالے اور خوبصورت،خوش اخلاق،کشادہ دست،کریم النفس اوربڑے سخی تھے۔حضرت عمروبن حموع بن جموع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبت پرستی اوربتوں سے متنفرکرنیوالوں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاکردارتھا۔قبول اسلام کے بعداپنی ساری زندگی تبلیغ اسلام،تبلیغ قرآن اورشرک کے خاتمے کے لئے وقف کردی۔دین کے مسائل سیکھنے اورقرآنی علوم پڑھنے لگ گئے۔مسائل دین سیکھتے سیکھتے اس مقام پرپہنچ گئے کہ تاجدارختم نبوت سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اپنے اس غلام کویہ بشارت دے دی جس پربجاطورپر فخرکرسکتے ہیں۔جماعت صحابہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویہ سندعطاہوئی”اعلم امتی بالحلال والحرام معاذبن جبل“”میری امت میں سب سے زیادہ حلال وحرام سے واقف معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں“۔

سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اپنی امت کو چار صحابہ کرام علیہم الرضوان سے قرآن کریم پڑھنے اور سیکھنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا”چار شخصوں سے تعلیمات قرآن حاصل کرو۔حضرت عبداللہ بن مسعود،سالم مولیٰ ابی حذیفہ،ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم(صحیح البخاری: ج۱ص۱۳۵،۷۳۵)
حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ مجتہد ہیں جن کو اجتہاد کی سند خود تاجدارِختم نبوت حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں دی اور امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کی تائید فرمائی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علمی فضیلت وبزرگی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فتویٰ دینے کی اہم ذمہ داری آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد تھی اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں بھی۔ جب معلم وقاضی ہو کر یمن چلے گئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے ”معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یمن جا کر اہل مدینہ میں فقہ کا خلاء پیدا کردیا ہے۔امام ذہبی رحمہ اللہ ان کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔”حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فقہاء اور اونچے درجہ کے صحابہ کرام میں سے تھے“۔(تذکرۃالحفاظ: ج۱ص۹۱رقم الترجمہ۸)

امیرالمومنین حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا”کہ جس شخص کو کوئی فقہی مسئلہ درپیش ہو تووہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھ لیا کرے۔(المعجم الاوسط للطبرانی: ج۳،ص۳۳،رقم:۳۸۷۳،تذکرۃالحفاظ للذہبی،ج۱ص۰۲) لوگ جوق درجوق حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسائل پوچھاکرتے تھے۔ حضرت اسود بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ”جب حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن میں معلم یا امیر بن کر آئے تو ہم نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا کہ ایک شخص فوت ہوگیا اور اس نے ورثاء میں ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی ہے۔اب وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ تو حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی وراثت کا نصف حصہ اس کی بیٹی کو دیا اور نصف اس کی بہن کو۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لو گوں کو یہ مسئلہ بتایا تولوگوں نے بغیر مطالبہ دلیل کے محض ان پر اعتماد کرتے ہوئے مسئلہ مان لیا،اسی کا نام تقلید ہے کہ کسی مجتہد کے قول کو بلامطالبہ دلیل مان لینا۔(صحیح البخاری ج۲ص۷۹۹)

ابو الاسود دیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس وقت یمن میں تھے تو ان کے سامنے ایک یہودی کی وراثت کا مقدمہ پیش ہوا جو فوت ہوگیا تھا، اور اپنے پیچھے ایک مسلمان بھائی چھوڑ گیا تھا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام اضافہ کرتا ہے کمی نہیں کرتا اور اس حدیث سے استدلال کر کے انہوں نے اسے وارث قرار دے دیا۔(مسنداحمدبن حنبل،جلد۹،حدیث۲۷۰۲)
شان ِصحابہ کرام،بزبان مصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا”کیاہی اچھے لوگ ہیں۔”ابوبکر،عمر،ابوعبیدہ بن جراح،اسیدبن حضیر،ثابت بن قیس بن شماس،معاذبن جبل اورمعاذبن عمروبن جموع رضی اللہ تعالیٰ عنہم“(سنن ترمذی۵۹۷۳)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”میری امت میں ”ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ ”ہی میری امت کے لوگوں کے حق میں سب سے زیادہ مہربان اور سب سے بڑے درد مند ہیں (کہ وہ نہایت لطف ومہربانی اور درد مندی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور ان کو فلاح ونجات کے راستہ پر لگاتے ہیں) اور میری امت کے لوگوں میں ”عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ“ اللہ کے دین کے معاملات میں سب سے زیادہ سخت ہیں (کہ نہایت سختی اور مضبوطی کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے ہیں) اور میری امت کے لوگوں میں ”عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ سب سے سچے حیادار ہیں، اور میری امت کے لوگوں میں سب سے بڑے فرائض داں ”زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ہیں اور میری امت کے لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والے اور سب سے بڑے ماہر تجوید قرآن”ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ہیں، اور میری امت میں حلال وحرام کو سب سے زیادہ جاننے والے”معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ ہیں اور ہرامت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین”عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ہیں۔ (سنن ترمذی،مسنداحمدبن حنبل) اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس حدیث کو معمر نے بھی قتادہ سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اور (معمر کی) اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ”: میری امت کے لوگوں میں حق کے مطابق سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ”علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ہیں۔”(سنن ترمذی،مشکوۃ شریف، ج۵،مناقب عشرہ مبشرہ،حدیث ۰۵۷)

 بشارت مصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر جبکہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیچھے سوار تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے (حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) فرمایا ”اے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ! حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ”لبیک یا رسول اللّٰہ و سعدیک“! حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ تین مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب کیا اور ہر مرتبہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی الفاظ دہرائے۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا”جو کوئی سچے دل سے اس بات کی شہادت (گواہی)دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم! کیا میں اس بات سے لوگوں کو مطلع نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا”نہیں! اگر تم انہیں یہ بات بتا دو گے تو وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھے رہیں گے (اور عمل میں کوتاہی کریں گے) چنانچہ حضرت معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث اپنے انتقال کے وقت بیان کی تاکہ حدیث بیان نہ کرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہوں۔“ (متفق علیہ)

سیدناحضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے پیچھے ایک گدھے پرسوارتھا۔جسکانام ”عفیر“تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔(مسنداحمد،جلد۹،حدیث۱۷۰۲)

حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک سفرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ تھا۔چلتے چلتے مجھے ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے قریب ہونے کاموقع ملا۔میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!مجھے کوئی ایساعمل بتائیں جومجھے جہنم سے دورکردے اورجنت میں لے جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”اے معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ!تونے بہت بڑے مسئلے کے متعلق سوال کیاہے۔لیکن جس کے لئے اللہ تعالیٰ اسے آسان کردے۔اس کے لئے یہ انتہائی آسان ہے۔تواللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کر،اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرا،نمازقائم کر،زکوٰۃاداکر،رمضان المبارک کے روزے رکھ اوربیت اللہ کاحج کر۔ (مسنداحمد۵/۱۳۲،سنن ترمذی ۶۱۶۲،سنن ابن ماجہ۳۷۹۳)
  حکمران وقت کے بارے میں
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مفصل حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ”خبردار! اللہ کی کتاب اور اقتدار جدا جدا ہونے والے ہیں۔ ایسے میں کبھی کتابِ الٰہی سے جدا نہ ہونا۔ خبردار! تم پر ایسے لوگ حکمران ہو جائیں گے جو تمھارے بارے میں (قرآنی تعلیمات کے خلاف) فیصلے کیا کریں گے۔ اگر ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمھیں گمراہ کر دیں گے اور اگر ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمھیں موت کے گھاٹ اْتار دیں گے۔ صحابہ کرام علہیم الرضوان نے عرض کیا”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم! ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم
نے فرمایا: وہی جو عیسیٰ بن مریم کے ساتھیوں نے کیا”انھیں آروں سے چیرا گیا، تختہ دار پر لٹکایا گیا (لیکن انھوں نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا)۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں موت، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں زندگی سے زیادہ بہتر ہے۔ (طبرانی)
  اللہ کی محبت کی خاطر کسی سے محبت کرنا
ابوادریس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ دمشق کی جامع مسجد میں داخل ہوا وہاں ایک نوجوان اور کم عمر صحابی بھی تھے ان کا رنگ کھلتا ہوا، بڑی اور سیاہ آنکھیں اور چمکدار دانت تھے، جب لوگوں میں کوئی اختلاف ہوتا اور وہ کوئی بات کہہ دیتے تو لوگ ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ امام الفقہاء حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔اگلے دن میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ایک ستون کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے نماز کو مختصر کیا اور خاموشی سے بیٹھ گئے میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا بخدا! میں اللہ کے جلال کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے قسم دے کر پوچھا واقعی؟ میں نے بھی قسم کھا کر جواب دیا انہوں نے میری چادر کا پلو پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا اور فرمایا تمہیں خوشخبری ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں میری وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔(مسنداحمدبن حنبل)
  جہادکرنیوالے اور شہادت کی تمنارکھنے والے کی فضیلت
حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو مسلمان آدمی اللہ کے راستہ میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر بھی قتال (جہاد)کرے اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے اور جو شخص اپنے متعلق اللہ سے صدق دل کے ساتھ شہادت کی دعا کرے اور پھر طبعی موت پا کر دنیا سے رخصت ہو تو اسے شہید کا ثواب ملے گا اور جس شخص کو اللہ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے یا تکلیف پہنچ جائے تو وہ قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ رستا ہوا آئے گا لیکن اس دن اس کا رنگ زعفران جیسا اور مہک مشک جیسی ہوگی اور جس شخص کو اللہ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے تو اس پر شہداء کی مہر لگ جاتی ہے۔(مسنداحمدبن حنبل،جلد۹،حدیث۰۸۰۲)
بیت المقدس کاآبادہونا۰
حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس کا آباد ہو جانا مدینہ منورہ کے بے آباد ہو جانے کی علامت ہے اور مدینہ منورہ کا بے آباد ہونا جنگوں کے آغاز کی علامت ہے اور جنگوں کا آغاز فتح قسطنطنیہ کی علامت ہے اور قسطنطنیہ کی فتح خروج دجال کا پیش خیمہ ہوگی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ران یا کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا یہ ساری چیزیں اسی طرح برحق اور یقینی ہیں جیسے تمہارا یہاں بیٹھا ہونا یقینی ہے۔(مسنداحمد)
امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ کاچارسودیناربھیجوانا
مالک الداررحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا امیرالمومنین حضرت عمرفاروق بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چار سو دینارتھیلی میں رکھ کراپنے غلام کوحکم دیا یہ تھیلی سیدناحضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودے آؤ۔ اورانہیں بتاؤ کہ امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تھیلی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے ہدیہ بھیجی ہے۔ اور پھر کچھ دیر وہیں رک کر دیکھنا کہ وہ اس تھیلی کا کیا کرتے ہیں۔غلام وہ تھیلی لے کر روانہ ہوااورسیدنا حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی کہ امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیے ہیں اورکہاہے کہ اس رقم سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی ضروریات کوپورا کرلیں۔سیدناحضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ تھیلی لیتے ہوئے عرض کیا”اللہ انہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے اور ان پر رحمتیں نازل کرے“۔ اس کے بعد اپنی ایک خادمہ کو بلایا اور کہا کہ یہ لو سات دینار فلاں کو دے آؤ، پانچ فلاں کو دے آؤ، پانچ فلاں کو۔ یہاں تک کہ سارے کے سارے دینار اسی وقت مختلف لوگوں میں تقسیم کردیے اور اپنی ضرورت کے لیے ایک دینار بھی نہ رکھا۔غلام نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرہوکرساراواقعہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گوش گزار کردیا۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چار سو دینار کی ایک اور تھیلی تیار کی اور غلام سے کہا کہ یہ تھیلی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے جاؤ اور انہیں بھی کہنا کہ یہ تھیلی امیر المومنین نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ضروریات کے لیے بھیجی ہے اور وہاں بھی تھوڑی دیر رک کر دیکھنا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔غلام وہ تھیلی لے کر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا اور عرض کیا کہ امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رقم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بھیجی ہے تاکہ آپ اسے اپنی ضروریات پوری کرنے میں صرف کرلیں۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ”کہ اللہ ان کو بہتر صلہ دے اور ان پر رحمت کرے“اور پھر اسی وقت اپنی خادمہ کو بلایا اور حکم دیاکہ اتنے اتنے دینارلے جاکر فلاں فلاں کے گھردے آؤ۔اوراتنے اتنے فلاں کودے آؤ۔ اتنے میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے پردے سے پیچھے سے جھانک کر کہا”خدا کی قسم ہم بھی بہت ضرورت مند ہیں ہمیں بھی کچھ دیجیے۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تھیلی میں جھانکا تو اس میں دو دینار بچے تھے یہ دو دینار انہوں نے اپنی بیوی کی طرف پھینک دیے۔غلام امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لوٹ آیا اور سارا قصہ سنایا توامیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ خدا کی قسم یہ سب لوگ بھائی بھائی ہیں اور ایک جیسے ہیں۔ (طبرانی فی الکبیر۴۶،الترغیب و الترہیب۸۵۳)
  رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی دس وصیتیں
نوجوان صحابی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی، چنانچہ فرمایا
(۱) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اگرچہ تمہیں جان سے مار ڈالا جائے اور جلا دیا جائے۔
(۲) اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو اگرچہ وہ تمہیں اپنے اہل اور مال چھوڑ دینے کا حکم دیں۔
(۳) جان بوجھ کر کوئی فرض نماز نہ چھوڑو کیونکہ جو آدمی عمداً نماز چھوڑ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
(۴) شراب مت پیو کیونکہ شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
(۵) اللہ کی نافرمانی اور گناہ سے بچو کیونکہ نافرمانی کرنے سے اللہ کا غصہ اتر آتا ہے۔
(۶) جہاد میں دشمنوں کو ہرگز پیٹھ نہ دکھلاؤ اگرچہ تمہارے ساتھ کے تمام لوگ ہلاک ہو جائیں۔
(۷) جب طاعون کی وباء (کینسر) پھیل جائے اور تم ان میں موجود ہو تو ثابت قدم رہو یعنی ان کے درمیان سے بھاگو مت۔
(۸) اپنے اہل و عیال پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرتے رہو۔
(۹) تادیباً اپنا ڈنڈا ان سے نہ ہٹاؤ۔
(۰۱) اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں انہیں ڈراتے رہو یعنی اہل و عیال میں سے کسی کو سزاء یا تا دیبا کچھ مارنا پیٹنا ضروری ہو تو اس سے پہلو تہی نہ کرو اور
ان کو اچھی اچھی باتوں کی نصیحت و تلقین کرتے رہا کرو اور دین کے احکام و مسائل کی تعلیم دیا کرو اور ان کو بری باتوں سے بچانے کی کوشش کرو۔ (مسند احمد بن حنبل)
  وصال پُرملال
۸۱ھجری میں عمواس(رملہ اوربیت المقدس کے مابین واقع ایک بستی)میں طاعون (کینسر)کی وباء پھیلی۔جوملک شام وفلسطین کے پورے علاقے میں پھیل گئی اس وباء نے۵۲ہزارجانیں لیں۔حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات بھی اسی سے ہوئی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوبیویاں اوراکلوتے بیٹے عبدالرحمان بھی طاعون میں مبتلاہوکراس دنیاسے رخصت ہوئے۔آخرمیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی متعدی بیمارمیں مبتلاہوکراس فانی دنیاسے رخصت ہوئے، انتقال کے وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار کہتے تھے۔”الہٰی!یہ (سخت ترین طاعون بعض اعتبار سے) درحقیقت تیرے بندوں پر تیری رحمت ہے الہٰی!معاذ اور معاذ کے اہل وعیال کو اس رحمت سے محروم نہ رکھ۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ دم رخصت حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر کچھ اس طرح کے الفاظ تھے۔ الہٰی! موت کی سختی کم کردے جتنا تو چاہے قسم ہے تیری عزت کی تو خوب جانتا ہے کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس آیت (اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا۔سورۃ النحل ۰۲۱) کے مضمون میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دیا کرتے تھے۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ آیت کریمہ پڑھی گئی توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا”کہ معاذبھی ایک امت تھے۔اللہ کے فرماں بردارتھے۔ان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے دریافت کیاگیاتوآپ نے فرمایا”جانتے ہو”امت“‘وہ شخص ہے جولوگوں کوخیرکی باتیں سکھاتاہے۔(فتح الباری جلد۸،صفحہ۴۹۴)

Advertisements
julia rana solicitors

منقول ہے کہ رحلت کے وقت آپ کے ساتھی رونے لگے تو ان سے پوچھا ”تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ ان سب نے کہا کہ ہم علم کو رو رہے ہیں جو آپ کی موت کے سبب منقطع ہوا چاہتا ہے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا”علم اور ایمان لازوال ہیں قیامت تک باقی رہنے والے ہیں، حق جس سے بھی ملے حاصل کرو باطل پر جو بھی اس کی تردید ومخالفت کرو۔
اللہ تعالیٰ کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین طٰہ ویٰسین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply