ڈگری کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔ضیغم قدیر

یہ بات اکثر موٹیویشنل سپیکرز اور انٹرپرینور کرتے نظر آتے ہیں کہ کالج و یونیورسٹی کی ڈگری کچھ بھی نہیں ہوتی اصل بات آپکے تجربے کی ہے۔ایلن مسک اور مارک زکر برگ بھی یہی بات کرتے ہیں کہ ڈگری کچھ بھی نہیں ہوتی۔لیکن وہیں جب فیسبک یا ٹیسلا کی نوکریاں آتی ہیں تو وہ خود کی کمپنی کے لیے  ایک ڈگری ہولڈر کی تلاش میں رہتے ہیں۔۔۔

حقیقت میں اگر دیکھیں تو بزنس سٹوڈنٹس کے لیے  واقعی میں ڈگری اتنی وقعت نہیں رکھتی جتنی وقعت تجربے کی ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے ڈائریکٹ پبلک ڈیلنگ میں جانا ہوتا ہے۔اس لیے  ان بچوں کے لیے   ڈگری اتنی اہمیت نہیں رکھتی(مثال کے طور پہ کامیاب انٹریپرینور ) لیکن وہیں یہ ڈگری کچھ وقعت نہیں رکھتی والی بات ہم سائنس کے کسی بھی شعبے پہ اپلائی نہیں کرسکتے۔اسکی وجہ یہ نہیں ہے کہ آج تک کوئی سائنسدان ڈاکٹر یا انجینئر ڈگری کے بغیر نہیں بنا،یا کوئی شخص ڈگری کے بغیر جان نہیں سکتا،بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ علوم اتنے پیچدہ اور خاص ہیں کہ کالج اور یونیورسٹی جاۓ بغیر ان پہ مکمل مہارت حاصل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ان علوم پہ مہارت ہی تب آتی ہے جب آپ پانچ چھ سال تک مسلسل ایک خاص ماحول میں رہ کر انکو پڑھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب اگر ڈگری کچھ بھی نہیں ہوتی والی بات کرنے والے سپیکرز کی طرف چلے آئیں تو پتا چلتا ہے کہ انکی اپنی کمپنیاں ملازمین کو رکھنے کے لیے ڈگری ہی مانگتی ہیں،انکے اپنے بچے مختلف سکولز اور یونیورسٹیز میں پڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ یہی ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں کہ ڈگری کچھ بھی نہیں ہوتی۔جو کہ ایک کھلا تضاد ہے۔ کالج اور یونیورسٹی علم حاصل کرنے کے لیے  ہیں اب یہ کسی کی مرضی ہے کہ وہ اس علم کا اطلاق کیسے کرتا ہے اور کیسے نہیں۔بزنس ڈگری کے بغیر بھی کاروبار چل سکتے ہیں مگر قانون کو مکمل جانے بغیر (لاء کی ڈگری کے بغیر) وکیل بننا ناممکن ہے یہی قانون سائنس انجینئرنگ میڈیسن پہ لاگو ہوتا ہے کہ ان سب پہ ریسرچ اور کام کرنے کے لیے  ہمیں ڈگری بے حد ضروری ہوتی ہے۔ورنہ اتنے پیچیدہ موضوعات پہ مہارت حاصل کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص آپکو یہ کہتا ہے کہ ڈگری کچھ بھی نہیں ہوتی اصل بات آپکے تجربے کی ہے تو اسکی بات کو صرف بزنس سٹڈیز کے لیے  ہی سیریس لیں باقی کے علوم میں ڈگری بہت کچھ ہے نوکری کے لیے  بھی اور علم کے لیے  بھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply