حکومت و اسٹبلشمنٹ کے لیے لمحۂ فکریہ ۔۔ابو امامہ ربّانی

یقیناً جیسے ایٹم بم ملکی دفاع کے لیے ضروری ہے ویسے ہی ایٹم بم کی حفاظت بھی ضروری ہے، اسی وجہ سے حکومت اور ادارے اسکی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ،بلکہ اسباب کی دنیا کی ہر چیز ان کی حفاظت میں صَرف کردی جاتی ہے۔۔ لیکن کچھ عرصہ سے خود حکومت اور اداروں کا بیانیہ یہی ہے کہ ایٹمی جنگ کی جگہ اب ہابرڈ وار نے لے لی ہے ۔

اور دشمن اپنی تمام تر توانائیاں و توجہات اسی پر صَرف کررہا ہے، اسی سلسلے میں سے ایک اکابر علماء کو شہید کرواکر  فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا بھی ہے، ادارے یہ بات جانتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں، اور اس کا پہلا وار بھی حضرت ڈاکٹر صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ کی صورت ہم دیکھ چکے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلامیانِ پاکستان کی طاقت ہابرڈ وار میں بہر صورت ایٹم بم سے زیادہ ہے اور اس سیلاب کے آگے اگر کوئی بند بندھا ہوا ہے تو وہ یہی حق پرست اور محب وطن علماء ہیں جو اس ایٹم بم کی حفاظت پر مامور ہیں جن میں سے کئیوں کو شہید کر دیا گیا اور نہ جانے کتنے نشانے پر ہیں۔

اس تمام صورتحال کے پیش نظر میرا مقتدر اداروں سے سوال یہ ہے کہ کیا ان حضرات کی حفاظت آپکے ذمہ نہیں ہے ، اگر ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے تمام مقتدر علمائے حق کو یا تو حکومتی سکیورٹی فراہم ہی نہیں کی جاتی یا بہانے بنا کر واپس لے لی جاتی ہے اور حضرت ڈاکٹر صاحب کی شہادت اس کی زندہ گواہی ہے، جبکہ یہ تھریٹ خود حکومتی ادارے دیتے رہتے ہیں کہ آپ پر حملہ ہو سکتا ہے ، کیا ادارے صرف انتباہ کے لیے ہی رہ گئے ہیں، کیا ان علماء کے تحفظ کی ذمہ داری ان اداروں کے سر نہیں، اگر ہے تو یہ اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کرتے اور اگر نہیں ہے تو پھر ایسے سانحات کے بعد دوسروں پر الزام لگا کر اور امن کی اپیلیں کر کے کس بات کا ثبوت دیتے ہیں۔

از راہ کرم ،سمجھ لیا جائے کہ ادارے اپیلوں سے نہیں چلتے ، اس لیے اگر اسلامیانِ پاکستان کے سیلاب کے آگے علمائے حق کے اس بندھ کو دشمن تاک تاک کر گراتا رہے تو یقین جانیے وہ دن دور نہیں جب یہ سیلاب امڈ آئے گا اور اس کی زد سے نہ ہندوستان بچ سکے گا اور نہ ہی پاکستان، اس لئے اداروں کو اس مسئلہ کی سنگینی کو سمجھ لینا چاہیے اور غیرذمہ داری سے باز آجانا چاہیے، ایک ہی غلطی کو بارہا نہیں دہرایا جا سکتا لہذا اس بے حسی کو ختم کیا جائے اور تمام مقتدر علماء کو ہائی پروفائل حکومتی سکیورٹی فراہم کی جائے تاکہ دشمنوں کے عزائم خاک ہوجائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

” تحریکِ تحفظِ علمائے پاکستان”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply