اک مسیحا۔ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

اک مسیحا۔ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
شاعر نے تو شاید مبالغہ سے کام لیتے ہوئے کہا تھا کہ
کہتے ہیں تجھ کو لوگ مسیحا مگر یہاں
اک شخص مرگیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
شاعراگر آج زندہ ہوتا تو دیکھتا تو کہ واقعی مسیحاوں کے ہوتے سوتے مریض داعی اجل کو لبیک کہتے رہتے اور مسیحا چوک میں بیٹھ کرسیلفیاں لیتے اور شیئر کرتے رہے۔مریض رُلتے رہے مگر انہیں اپنے مطالبات عزیز تھے۔
مسیحاوں کے ان کرتوتوں کو دیکھ کر سوچا کہ کچھ لوگوں کی وجہ سے یہ پیشہ ہی بدنام ہورہا ہے حالانکہ اسی پیشہ سے وابستہ ایسے فرشتے بھی ہیں جنہیں دیکھ کر رشک آتا ہے۔اک کہانی ہے ایک داستان ہے سوچا قارئین سے بھی شیئر کرلیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب فقیر آئے دن فیس بک اکاونٹ لاگ ان کرتا اور پٹھی سیدھی سیلفیاں اور فراز کے نام پر بے سروپا اور بے وزن اشعار پڑھ کرخون گرماتا اور اکاونٹ معطل کردیتا۔یہ آنکھ مچولی ایک عرصہ جاری رہی تاوقتیکہ کچھ ایسی پوسٹس نظر سے گزرنی شروع ہوئیں ،’’فیس بک کے دس مشہور لکھاری‘‘ ،فیس بک کے دھانسو لکھاری وغیرہ وغیرہ۔ان پوسٹس میں مذکور لوگوں کو ایڈ کرتا گیا اور فیس بک کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوتا گیا۔ان دنوں اک اور لت بھی لگی کہ اخبار کے کالموں میں جس بھی شخص کا تذکرہ پڑھا اس کے بارہ میں گوگل بابا سے معلومات لینی شروع کردیں۔
کہانی شروع ہوتی ہے آج سے تقریباً دوسال قبل جب روف کلاسرہ کے کالمز میں ایک نام کا تذکرہ بار بار پڑھا۔نام کا ایک حصہ کچھ جانا پہچانا معلوم ہوا۔گوگل بابا کے جن سے معلومات لینی شروع کیں تو باباجی نے موصوف کے فیس بک کے ایڈریس کی نشاندہی کی،چنانچہ حسب عادت ’’درخواستِ دوستی‘‘ ارسال کردی جو جلد قبول ہوگئی،چنانچہ ہم نے ان کی ’’دیوار‘‘ پر دوستی کرنے کی وجہ بھی بتا ڈالی کہ جناب آپ سے دوستی کلاسرہ صاحب کے کالمز کے توسط سے ہوئی ہے۔یہ جملہ ابھی بھی فیس بک کے نہاں خانوں میں کہیں دبی ہوئی ہے۔
جواب میں پیغام بہت محبت بھرا پیغام موصول ہوا اورساتھ میں آفر بھی کہ کوئی کام ہو تو میں حاضر ہوں۔یہ شخصیت امریکہ میں مقیم جناب ڈاکٹر عاصم صہبائی صاحب ہیں اور نام کے جس حصہ سے شناسائی تھی وہ جناب شاہین صہبائی صاحب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب شاہین صہبائی صاحب کے فرزند ہیں اور ماہر کینسر ہیں۔امریکہ میں دکھی انسانیت کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اسم بامسمی ہیں ۔عاصم کا مطلب ہے بچانے والا ۔موصوف نہ صرف مسیحا بن کر انسانی زندگیاں بچا رہے ہیں بلکہ دکھی انسانیت کی خدمت میں بھی ہمہ تن مصروف ہیں۔گویا جو نام وہی کام۔ایسے موقعوں پر کہا جاتا ہے نام ہی کافی ہے۔
اس دور نامہرباں میں جہاں ملکی روزنامے آئے دن ایسی خبروں سے انسانیت کا منہ چڑا رہے ہیں کہ بھائی نے بھائی کی جان چند سو روپوں کی وجہ سے لے لی۔بیٹے نے والد کو صرف اس وجہ سے موت کے منہ میں دھکیل دیا کہ بیٹے کی نظروالد کے جائیداد پر تھی۔جہیز نہ لانے پر جہاں بہو کو زندہ جلا دیا جاتا ہو،جہاں جیب خرچ کی وجہ سے والد بیٹے کی جان لے لیتا ہو وہاں اس معاشرہ میں کچھ ایسے فرشتہ صفت انسان بھی حیات ہیں جو بغیر دیکھے،بغیر جانے،بغیر کسی تعارف کے،بس کسی کے کہنے پر لاکھوں روپے غریب لوگوں میں بانٹ دیں اور بانٹتے چلے جائیں۔ایسے لوگوں کو انجیل میں زمین کا نمک کہا گیا ہے کہ جس طرح کھانا بغیر کسی نمک کے بے مزہ ہے اسی طرح ایسے لوگوں کے بغیر انسانیت بھی بے مزہ ہے۔یہ لوگ انسانیت کا وقار ہیں اور انسان دوستی ان کا مذہب۔مخلوق خدا کی خدمت ان کی گھٹی میں ہوتی ہے۔یتیموں اور بیواؤں کے کام آکر انہیں سکون ملتا ہے۔
کہنے کو تو ایک سادہ طبیعت کے ڈاکٹر ہیں مگر انسان دوستی ان کا خاص وصف ہے۔غریب کی مدد ان کا پیشہ ہے۔ان سے دوستی بھی اک اتفاق تھی۔ادب دوست ہیں اور ایک صحافیانہ پس منظر ہونے کی وجہ سے سیاست پرمعقول تبصرے بھی کرتے ہیں جن میں بعض دفعہ ’’خبر‘‘ بھی شامل ہوتی ہے۔
اب یہ فقیر طالب علم جس کی دوڑ بس کتابوں تک ہے کوتو خیر ڈاکٹر صاحب سے کیا کام پڑنا تھا مگر ہاں یادآیا،ڈاکٹر صاحب سے ایک بہت ضروری کام تھا۔ایک ایسا کام جس کو کوکرنے یا کرانے میں یہ عاجز کئی سال سے کوشاں تھا مگر روابط کی کمی یا دوستوں کی ’’دریا دلی‘‘ کہ کسی غریب کے کام نہ آسکے ہم۔پھر یہ مشن اس فقیر نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے رکھا اور ڈاکٹر صاحب سے تو جیسے خدا نے دوستی کروائی ہی اسی وجہ سے کہ میں ڈاکٹر صاحب کو کام کہوں اور وہ کریں۔بس کہنے کی دیر تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے غریبوں،مسکینوں،یتیموں،بیواؤں اور ضرورت مندوں کی دل کھول کر مدد کی۔امید سے کہیں زیادہ!!!توقعات سے کئی گنا بڑھ کر! آس سے کئی گنا زیادہ!اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
تھر میں کسی غریب ہندو بیوہ کی امداد ہو یا اندرون سندھ آباد کسی غریب طالب علم کی فیس ادائیگی کا معاملہ،سعودی عرب میں قید کسی پاکستانی کو وطن واپس آنے میں مدد کرنی ہو یا کسی غریب مسکین مریض کی دوائی کا انتظام کرنا ہو،کسی کمزور کا قرض اتارنا ہو یا پھرکسی بے دست وپا کے کھانے کا انتطام کرنا ہو ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ خدمت خلق کے ان کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب ازراہ تفنن کہا کرتے ہیں کہ اگر میری بیوی مجھے نہ روکتی تو میں شاید اسی خدمت میں ’’دیوالیہ‘‘ ہوجاتا۔گویا دیگر نشوں کی طرح یہ بھی ایک نشہ ہے جو اس کام میں پڑگیا اسے پھر زندگی کا لطف اسی میں ملتا ہے۔
اس دور نامہرباں میں ایسے لوگوں کا وجود ازبس غنیمت ہے۔شاعر نے کسی ایسے ہی ساقی کو یوں دعا دی تھی
بھر بھر کے پلاتا ہے تو پیار کا پیمانہ
آباد رہے صدیوں ساقی تیرا میخانہ

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply