گرم پانيوں تک رسائي۔۔صديوں پرانا خواب پورا ہوگيا

تحرير محمد لقمان
پاکستان نے اصولي طور پر روس کو بھي چين۔ پاکستان راہداري کا حصہ بنانے کا فيصلہ کرليا ہے۔ اور اب روس کےپاس بھی اپنی مصنوعات کی برآمد اور درآمد کرنے کے لئے پورا سال کام کرنے والي گوادر بندرگاہ سے استفادہ حاصل کرنے کي سہولت موجود ہوگي۔ چين کي طرح روس کو مشرق وسطي اور افریقہ کي منڈي تک پہنچنے کے لئے اب بہت کم فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ روس نے اس منصوبے ميں دلچسپي کا اظہار بہت پہلے کيا تھا۔ مگر اس پر سنجيدگي سے غور و خوض چند ہفتے پہلے روس کي خفيہ ايجنسي کے سربراہ کے دورہ اسلام آباد کے دوران ہوا۔ جس میں نا صرف دفاعی اور اقتصادی تعلقات بڑھانے پر بات ہوئی۔ بلکہ 46 ارب ڈالرز کے اس منصوبے میں شمولیت کے طریقوں پر بھی بحث و مباحثہ ہوا۔ سی پیک میں شامل ہونے سے اب روس کے کم ترقي يافتہ ايشيائي علاقوں کو پاکستان کے راستے دنيا کي بڑي بڑي منڈيوں تک ایک آسان رسائی مل جائے گی۔
روس کا گرم پانيوں خصوصاً بحيرہ عرب تک پہنچنے کا خواب صديوں پرانا ہے۔ اٹھارھويں صدي کی روسی سلطنت جن کو زار چلاتے تھے، نے وسطي ايشياء پر قبضہ بھي اپني اسي خواہش کو پورا کرنے کے لئے کيا تھا۔ 20 ويں صدي کے اوائل ميں ايران پر اثر و رسوخ اور آخري ربع ميں افغانستان پر قبضہ کے پس پردہ بھي يہي خواہش رہي۔ يہ خواہش روس کے زاروں کی ہی نہیں تھی۔ کميونسٹ انقلاب کے بانيان اور بعد کے سوویت سربراہ بھي ايسي مہم جوئي ميں مصروف رہے۔ مگر يہ تمام اقدامات جنگوں اور لشکر کشي کے ذريعے کيے گئے۔ نئے نئے علاقوں کو فتح کرنے کی ھوس کی وجہ سے سوویت یونین کو مغرب اور ديگر ممالک کي طرف سے بہت زيادہ رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ دسمبر 1979 ميں کابل ميں ببرک کارمل کي حکومت کے قيام کے بعد امريکہ نے افغانستان سے سويت يونين کو نکالنے کے لئے ايک دہائي تک جنگ لڑي۔جس کا ايندھن افغان اور پاکستاني بنے۔ 1989 ميں سوويت يونين افغانستان سے مکمل طور پر نکل گيا۔ اور سوويت يونين کے ٹکڑے ہوگئے اور دو درجن کے قريب نئے ممالک نے اس کي کوکھ سے جنم ليا۔ اتنے تباہي کے بعد بھي بچنے والے وفاق روس کا رقبہ ابھي بھي کسي بھي ملک سے زيادہ ہے۔ سوويت يونين کے خاتمے کے بعد امريکہ ايک سپر پاور تو بن گيا۔ مگر مخائل گورباچوف کے بعد آنے والے تمام روسي حکمرانوں کي خواہش رہي ہے کہ روس کے پرانے دبدبے کو بحال کيا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے دوبارہ بين الاقوامي سياست ميں حصہ لينا شروع کرديا ہے۔۔شام ميں جاري خانہ جنگي ميں روس برسر اقتدار حکومت کا حامي ہے۔ ليکن پاکستان کے سلسلے ميں روس کي پاليسي ميں واضح تبديلي آئي ہے۔ اس بار سب کچھ جنگ کشی نہیں بلکہ صلح صفائی سے ہورہا ہے۔ حال ہي ميں پاکستان کے شمالي علاقوں ميں پاکستان اور روس کي مشترکہ فوجي مشقيں ہوئيں ۔ بھارت نے بڑي کوشش کي کہ يہ مشقيں نہ ہوں ۔ مگر روس نے فيصلہ نہيں بدلا۔ دسمبر ميں ماسکو ميں افغانسان کے مسئلے پر سہہ فريقي مذاکرات ميں پاکستان ، چين اور روس حصہ ليں گے۔ بھارت کو شامل نہيں کيا جارہا۔ اس طرح خطے کي سياست ميں بہت بڑي تبديلياں آرہي ہيں۔ جس کي وجہ سے چين اور روس کو امريکي بے توجہي کي وجہ سے پيدا ہونے والے خلا کو پرکرنے ميں مدد ملے گي۔ خصوصاً پاکستان کي جغرافيائي حيثيت اور ابھر کر سامنے آئے گي۔ ہوسکتا ہے کہ کئي پرانے حليف حريف بن جائيں اور مخالفين دوستوں کا روپ دھار ليں۔ کيونکہ بين الاقوامي سياست ميں کوئي چيز بھي مستقل نہيں ہوتي۔ جو چيز مستقل ہوتي ہے وہ صرف قومي مفاد ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ 1950 کي دہائي ميں ہونے والے فيصلوں کے برعکس 2016 ميں ہونے والے فيصلے پاکستان کے لئے سود مند ثابت رہيں گے۔ کيونکہ ايک دوست ہمسايہ ہزاروں ميل دور موجود اتحادي سے ہر لحاظ سے بہتر ہوتا ہے۔

Facebook Comments

محمد لقمان
محمد لقمان کا تعلق لاہور۔ پاکستان سے ہے۔ وہ پچھلے 25سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ پرنٹ جرنلزم کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کا بھی تجربہ ہے۔ بلاگر کے طور پر معیشت ، سیاست ، زراعت ، توانائی اور موسمی تغیر پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply