مائیں تو ایسے ہی ہیں۔۔۔۔ولائیت حسین اعوان

 

پچھلے تین چار روز سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر نے لوگوں کی بہت زیادہ توجہ حاصل کی۔بے شمار لوگوں نے اس تصویر کو پسند کرنے، اس پر اپنی رائے دینے کے بعد اسے دوستوں کے ساتھ شئیر بھی کیا۔وہ تصویر تھی پشاور کی ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی جو اپنے چند ماہ کے بچے کو اٹھائے اپنے فرائض منصبی دفتر اور دفتر سے باہر خوش دلی اور انہماک سے سر انجام دے رہی تھی۔یقیناً  یہ ایک قابل ستائش بات ہے۔ممتا کا پیار تو فطری ہے لیکن اسکے ساتھ خاتون کی کام سے لگن کی داد ضرور بنتی ہے۔

مصروفیت سہل پسندی خودغرضی کے اس دور میں آج کی نوجوان نسل کے لیئے واقعی یہ ایک خوشگوار حیرت کی منفرد بات تھی۔شائد مصروفیت اور کمزور یاداشت کے زمانے میں ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ “مائیں” تو ہمیشہ سے ایسے ہی تھیں۔۔۔
مائیں اگر گھر داری کرتی ہیں تو بچہ انکی گود میں ہوتا ہے اور وہ کھانا بنا رہی ہوتی ہیں یا گھر کی صفائی کر رہی ہوتی ہیں۔وہ بیک وقت شوہر ساس سسر دیور نند شوہر اور بچے کی زمہ داریاں ادا کر رہی ہوتی ہیں۔ماں بننے کے بعد انکی لگن استطاعت اور حوصلے میں دوگنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

اگر وہ ملازمت سے وابستہ ہیں تو بھی چھوٹے بچے کی زمہ داریوں سے بری الزمہ نہیں ہیں۔مشترکہ خاندانی سسٹم اور ڈے کیئر سنٹرز کی موجودگی میں بچے کو کسی کے حوالے کرنے کا آپشن تو موجود ہے لیکن اس صورت میں ماں دہری مصروفیت کا شکار ہوتی ہے۔وہ جاب پر جاتے اور واپس آ کر جہاں بچے کو پوری توجہ فراہم کرتی ہے وہاں وہ تمام دن بچے کو اپنی نظروں سے دور ہونے پر زہنی الجھن اور پریشانی بھی محسوس کرتی ہے اور تمام دن اسکا زہن جاب کے ساتھ بچے کی طرف سے طرع طرع کے خیالات میں بھی گھرا رہتا ہے۔یقینا ً یہ اسکی بہت عظمت اور حوصلہ ہے کہ وہ چند ماہ یا دو تین سالوں کے بچے کو سارا دن اپنی نظروں کے سامنے نہ پا کر بھی اپنے فرائض منصبی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی۔میری معمولی رائے میں بچے کو دوران ملازمت ساتھ رکھ کر کام کرنا نسبتاً  آسان ہے اس کام سے جو ایک ماں کو دودھ پیتے بچے سے دور رہ کر سارا دن کام کرنا پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس امر کی ہے کہ مائیں خواہ سرکاری نوکری کر رہی ہوں یا پرائیویٹ انکے لیئے ملازمت والی جگہوں پر بچوں کو انکی نظروں کے سامنے رکھنے کے بہتر اقدامات کئیے جائیں یا انکی طویل چھٹی کے حوالےسے کچھ غور ہونا چاہیئے تا کہ وہ کم از کم دوران رضاعت اپنے بچے کو بھرپور توجہ دے سکیں۔
یہاں میں ان ماوں کا زکر بھی بہت ضروری سمجھتا ہوں جو سکولوں میں ڈے کئیر ،پلے گروپ نرسری کے چھوٹے بچوں کا اپنے حقیقی بچوں کی طرع خیال نگہداشت کرتی ہیں اگر چہہ وہ انکی حقیقی مائیں نہیں ہوتیں اور اپنی خدمات کا معاوضہ لیتی ہیں۔لیکن بچوں کی پرورش میں انکا حصہ بھی بچے کی حقیقی ماں کی طرع کا ہے۔بہر طور بچوں کی پرورش اور نگہداشت یقیناایک انتہائی مشکل کام ہے۔اور اسکو سرانجام دینے کا حوصلہ ہمت توفیق اور ترکیب اللہ پاک نے خاتون کو ہی عطا کی ہے۔ شائد اسی لیئے رب تعالی نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔۔۔۔۔

Facebook Comments

ولائیت حسین اعوان
ہر دم علم کی جستجو رکھنے والا ایک انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply