چلیں مان لیا کہ آپ بہت رحم دل ہیں اور ہم بے رحم ہیں لیکن آپ کے گھر میں آپ کے کسی عزیز کی لاش ہو اور افطار کا وقت ہو جائے تو آپ افطاری نہیں کریں گے؟ بالکل کریں گے۔ اہتمام سے نہ سہی لیکن پیٹ کے جہنم کو سرد کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ حلق سے اتاریں گے ضرور۔ اسی طرح سے نماز کا وقت ہو جائے تو نماز بھی پڑھیں گے۔ عید قرباں کا دن ہو اور اسی دن اللہ نہ کرے آپ کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے تو بکروں کو ہانک نہیں دیں گے بلکہ ان کی قربانی کریں گے۔
٢٠١٨ میں میرے والد عمرے پر تھے۔میرے جواں سال بہنوئی کا انتقال ہو گیا۔ ابا نے کہا کہ میں آ رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے وقت پر آئیں، میت کیلئے دعاء فرمائیں۔ یہاں ہم ہیں اور ہم اپنا فرض پوری ایمانداری سے کریں گے۔
یہ تو فرد کا معاملہ ہوا اب قوم کو دیکھ لیتے ہیں۔ امت محمدیہ پر بیک وقت سکھ اور دکھ دونوں طرح کے لمحات گزرتے رہے ہیں لیکن ایساکبھی نہیں ہوا کہ یہ امت غموں سے نڈھال ہو کر گر گئی ہو۔ ہر بار یہ بڑے سے بڑے غم کو جھیل لے گئی ہے۔ پچھلی بار تقریباً نوے سال تک قدس صلیبیوں کے قبضے میں رہا لیکن نہ حج رکا، نہ عمرہ۔ تاتاری یلغار کے دوران بھی یہ سلسلہ جاری رہا لیکن آج کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ بند ہو جائے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے طفیل ہاشمی نے آل سعود پر أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ کی پھبتی کسی تو ہم جیسے طفل مکتب بھی زیر لب مسکرا کر رہ گئے کہ یہ ہے ہمارے بزرگوں کی قرآن فہمی۔ جو آیت مشرکین مکہ کیلئے اتری تھی اسے خادمین حرمین پر چسپاں کیا جا رہا ہے۔ آج ایک صاحب کے کمنٹ باکس میں دیکھا کسی نے جھنجھلا کر لکھا تھا کہ
یا عابد الحرمین لو ابصرتنا
لعلمت انک بالعبادۃ تلعب
“اے خانہ کعبہ میں بیٹھ کر عبادت کرنے والے
کاش تو ہمیں (محاذ پر ڈٹے ہوئے)دیکھ لے
تو تجھے اپنی عبادت شغل میلا لگے ۔۔
یہ عین وہی دلیل ہے جسے عید قرباں کے موقعے پر ملحدین پیش کرتے ہیں کہ قربانی کے بجائے یہی رقم غریبوں میں بانٹ دی جائے۔ غم و الم کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
یہ امت غزہ میں جن حالات سے دوچار ہے کیا یہ پہلی بار ہے؟ غزہ جیسی صورتحال سے یہ امت ہمیشہ کہیں نہ کہیں دوچار رہی ہے۔عین اس وقت جب قسطنطنیہ فتح ہو رہا تھا اسی وقت غرناطہ کے مسلمان موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھے لیکن اس کی وجہ سے فتح قسطنطنیہ کے رنگ میں بھنگ کبھی نہیں پڑا۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر نکلے ادھر ڈوبے
دراصل کچھ لوگوں کے مزاج ہی میں ماتم ہی ہوتا ہے۔ انہیں دنیا کی ہر خوشی مل جائے لیکن پھر بھی یہ لوگ دکھی آتما بنے رہتے ہیں۔ ماحول ایسا بنا دیا گیا کہ کوئی کھل کر کے ہنس بھی نہیں سکتا۔ ہنس رہا ہے تو وہ بے حس ہے۔ وہ بے حس نہیں ہے۔ وہ زندہ دل ہے۔ وہ جینے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔
خدا نخواستہ ہم غزہ کی اہمیت نہیں کم کر رہے۔ یہ جنگ ہے اور جنگوں میں کامیاب وہی ہوتا ہے جس کا حوصلہ آخری وقت نہیں ٹوٹتا۔ فلسطین کے مسلمان پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی سے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس کے دوران آپ کے دادا بھی پیدا بھی ہو گئے اور ابا بھی اور آپ بھی دنیا میں تشریف لے آئے تو میری جان! یہ دنیا ہے اور دنیا کی زندگی میں سکھ دکھ لگا رہتا ہے۔ کوئی غموں سے چمٹ کر اگر کھانا پینا اور شادی بیاہ کرنا اور پیدا ہونا نہیں بھولتا تو پھر حج و عمرہ ہی کرنے والے کیوں آپ کی نظروں میں مجرم ہیں؟
آپ کہتے ہیں کہ جتنے لوگ رمضان میں عمرہ کرنے گئے ہیں اس کے صرف دس فیصد نہ جاتے اور غزہ والوں کی مالی مدد کر دیتے تو غزہ والے ثابت قدمی سے ڈٹے رہتے۔ کس دنیا میں ہیں آپ؟ ایک کلک پر ساری دنیا کا ڈیٹا موجود ہے تو پھر یہ تحقیق کیوں نہیں پیش کر رہے کہ اہل فلسطین کے معاونین کون ہیں؟ ابھی کل تک ہم نے ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ حزب اللہ کی محبت میں گرفتار ہیں لیکن پھر ہم نے وہ دن بھی دیکھا جب وہ اپنی اس ناکام محبت کا مرثیہ پڑھتے ہوئے ملے۔ جسے دیکھو وہی شعوبی بنا ہوا ہے۔ حال تو یہ ہے کہ یمن کے حوثیوں کو معاون سمجھتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو ارض حرم پر بھی راکٹ فائر کرنا نہیں چھوڑتے۔ جن کے پرکھوں نے بحرین سے آ کر حاجیوں کا قتل عام کیا تھا اور حجر اسود اٹھا کر لے گئے تھے انہیں آپ قبلۂ اول کا محافظ سمجھ رہے ہیں۔ یہ ہے آپ کی فراست اور یہ ہے آپ کا شعور۔
ملامت اور سینہ کوبی سے اگر کبھی فرصت ملے تو صبر و عزیمت کا باب بھی پڑھ لیں خاصا افاقہ ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں