• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • محسن انسانیتﷺ زمانہ جدید کے پیغمبر کے حسن اخلاق۔۔۔۔۔ ام ابیھا صالح جتوئی/مکالمہ عظمتِ محمد ﷺ ایوارڈ

محسن انسانیتﷺ زمانہ جدید کے پیغمبر کے حسن اخلاق۔۔۔۔۔ ام ابیھا صالح جتوئی/مکالمہ عظمتِ محمد ﷺ ایوارڈ

نبوت سے پہلے ہی نبی اکرمﷺ کا وجود تمام خوبیوں اور کمالات کا منبع تھا جو متفرق طور پر لوگوں کے مختلف طبقات میں پاۓ جاتے ہیں آپﷺ اصابت فکر دوربینی اور حق پسندی کا بلند مینار تھے آپﷺ کو حسن فراست پختگی فکر اور وسیلہ و مقصد کی درستی سے حَظِ وافر عطا ہوا تھا آپ اپنی طویل خاموشی سے مسلسل غور و خوض دائمی تفکیر اور حق کی کرید میں مدد لیتے تھے آپﷺ نے اپنی شاداب عقل اور روشن فطرت سے زندگی کے صحیفے ،لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا اور جن خرافات میں قریش مکہ بہت لت پت تھے ان سے سخت بیزاری محسوس کی اور اپنی حکمت و بصیرت سے حسن اخلاق کا عملی نمونہ پیش کیا نبی اکرمﷺ کی بعثت انسانیت پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے جس کا مقصد انسانوں کو اللہ کی عبادت کے طریقے سکھانا اور ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنا تھا جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
“میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ عمدہ اخلاق کی تکمیل کروں. ”
آپﷺ خود بھی اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے جس کی گواہی خود خالق کائنات نے دی۔۔ فرمایا:
“اور بے شک آپﷺ اعلیٰ اخلاق پر فائز ہیں.” (القلم: 4)
میرے نبیﷺ کا اخلاق ہی تھا جس نے پتھر جیسے لوگوں کو موم بنا ڈالا اور وہ آپﷺ کے صحابہ بن کے آپﷺ کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے ،آپﷺ کا حسن اخلاق ہی تھا جس کی وجہ سے دشمن بھی آپﷺ کو صادق و امین کے لقب سے پکارتے تھے کفار نے آپ کو طرح طرح کی تکالیف دیں لیکن پھر بھی آپﷺ کے لیے بددعا نہ فرماتے تھے بلکہ ان سے محبت کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے تھے کیونکہ میرے نبیﷺ کو یہ ہرگز گوارا نہ تھا کہ کوئی بھی شخص جہنم کا ایندھن بنے اور اسی وجہ سے آپﷺ کے حسن سلوک کو دیکھ کر وہ مسلمان ہو جاتے. طائف کا واقعہ آپﷺ کے حسن اخلاق کا بہت بڑا نمونہ ہے آپﷺ تبلیغ کی غرض سے طائف کی طرف روانہ ہوۓ تو وہاں کے سرداروں نے آوارہ لڑکوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا انہوں نے آپﷺ پہ پتھر برساۓ اور آپﷺ کے جوتے مبارک خون سے بھر گئے اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے جان پر کھیل کر آپﷺ کی جان بچائی کافروں کے اس ظلم و تشدد کے باوجود اللہ کے رسولﷺ کی اپنی امت سے محبت ملاحظہ کیجئے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺ سے عرض کی اگر آپﷺ علیہ وسلم حکم دیں تو ان دو پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں اور قوم کو  تباہ کر دیا جاۓ لیکن قربان جاؤں اس پاک پیغمبرﷺ پہ جس نے حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوۓ یہ فرمایا:
مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشتوں سے ایسی اولاد پیدا فرماۓ گا جو ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراۓ گی۔ کیا کبھی ایسی ہستی  کسی نے دیکھی  جو اتنے ظلم و ستم پہ بھی دشمن کے لیے دعا کرے ایسا حسن اخلاق کا پیکر ہمارا محبوب پیغمبرﷺ ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ایک مرتبہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا آپ کے جسم اطہر پر گاڑھے حاشیے والی چادر تھی ایک بدو آیا اس نے آپﷺ کی چادر اتنے زور سے کھینچی کہ آپﷺ کے مبارک کندھے پر نشان پڑ گئے پھر وہ آپﷺ سے کہنے لگا اے محمدﷺ میرے ان دو اونٹوں پہ اللہ کا مال لدواؤ اور ہاں سن لو یہ مال تمہارا ہے نہ تمہارے باپ کا ہے آپﷺ اس کی بے ہودہ گفتگو پر خاموش رہے اور آپﷺ نے فرمایا سنو یہ مال تو اللہ کا دیا ہوا ہے میں اس کا بندہ ہوں لیکن تم نے جو بدتمیزی کی ہے اس کا بدلہ تو لیا جا سکتا ہے اس نے کہا آپﷺ کی بات تو درست ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ آپﷺ ایسا نہیں کریں گے آپﷺ نے دریافت کیا آخر کیوں؟
وہ بولا اس لیے کہ آپﷺ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے آپﷺ یہ جواب سن کے مسکرا دیے اور اس کو معاف فرما دیا اور اس کے اونٹوں پر جَو اور کھجوروں کو لاد کر رخصت کیا.
ثمامہ آپﷺ کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کے اسلام لے آۓ ان کا واقعہ کچھ اس طرح قلمبند کرنا چاہوں گی ثمامہ کفر میں معروف تھا اور اسلام دشمنی میں اس کے عزائم ڈھکے چھپے نہ تھے اس لیے حفاظتی دستے کی گرفت میں آ گیا اور اسے گرفتار کر کے مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا گیا اللہ کے رسولﷺ کو اس کی گرفتاری کی خبر دی گئی آپﷺ تشریف لاۓ اور آپﷺ نے پوچھا ثمامہ کیا حال ہے؟
آخر میرے رب نے تم پر قابو دے ہی دیا اس نے نہایت غصے اور تکبر سے جواب دیا اے محمدﷺ ٹھیک ہے معاملہ ایسا ہی ہو گا مگر سنو اگر مجھے قتل کرو گے تو میرے قتل کا بدلہ لیا جاۓ گا کیونکہ میں کوئی معمولی آدمی نہیں ہوں اور اگر احسان کرو گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کرو گے جو اس کا شکرگزاری کے ساتھ بدلہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ہاں اگر مال و دولت کی ضرورت ہو تو بات کرو جتنا چاہو دیا جا سکتا ہے آپﷺ پہ قربان جس نے اتنی بے ادبی کے باوجود صحابہ کو ثمامہ کے لیے دودھ لانے  کا کہا۔۔ دوسرا دن ہوا آپﷺ نے پوچھا کیسے ہو ثمامہ تو اس نے پھر وہی جواب دیا تیسرا دن ہوا اس نے آپﷺ کے سوال کا پھر وہی جواب دیا اور اس کا سر تن سے جدا  کرنے کی بجاۓ آپﷺ نے فرمایا اس کی رسیاں کھول دو اور فرمایا جاؤ ثمامہ میں تمہیں بغیر کسی شرط کے رہا کرتا ہوں اور وہ چل دیا لیکن آپﷺ کی محبت نے اسے اسیر بنا ڈالا اور وہ مسلمان ہو گیا شاعر نے کیا خوب عکاسی کی ہے
“اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے!!

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں چاہئے اس یقین کے ساتھ نبیﷺ کی سیرت کو اپنائیں کہ یہی پروردگار کا سیدھا راستہ ہے جس پر ہمارے آقا اور پیشوا رسول اللہﷺ عملاً  تمام شعبہ ہاۓ زندگی میں گامزن تھے. اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply