بلغ العلیٰ بکمالہ۔۔۔۔۔عدیل رضا

بلغ العلیٰ بکمالہ
کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو علیہ وآلہ
اے رسول ﷺ اور اہلبیت ِ رسول ﷺ تمہارا ذکر ہی ہے یہ جس کی وجہ سے صلوۃ قائم ہے۔ اگر اسے صلوۃ سے حذف کرنے کی کسی نے کوشش کی تو اس کے قیام و سجود اس کے منہ پر مار دئیے جائیں گے ۔ (امام شافعی) ۔
ذکر ِ رسول وہ ذکر ہے جس میں اللہ خود اور اس کے ملائکہ مشغول ہیں ۔ان اللہ و ملائکتہ یصلّون علی النبی یا ایھا الذین آمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیما۔اللہ اور اس کے فرشتے اپنے نبی کے ساتھ اتصال قائم کئے ہوئے ہیں ۔ اے ایمان والوں تم بھی اتصال قائم کرو انہیں تسلیم کرکے۔ ذکر ِ رسول ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ۔ محشر کی حکمرانی میرے رسول کے ہاتھ میں ہے جس کا نورِ ازل سے مقام ِ محمود پر تابندہ ہے۔ جس نور کے آگے ملائیکہ سجدہ ریز ہیں۔ وہ نور جسے اللہ نے سب سے پہلے خلق کیا۔ وہ نور جو آدم کی پیشانی میں چمکا ۔ بس اللہ تھا اور کوئی شے اس کے ساتھ نہ تھی۔ مجھے لوح وقلم کی قسم کوئی بھی نبی کریم ﷺ کے فضائل و مناقب بیان کرنے کا حق ادا نہیں کرسکتا ۔ وجہُ اللہ الکریم علی ابن ابی طالب نے منبر کوفہ سے کھڑے ہوکر فرمایا : سب سے پہلے اللہ نے جو شے خلق کی وہ اس کے حبیب محمد ﷺ کا نور تھا۔

میرے شعور نے سوال کیا کس شے  سے پہلے ؟
بابِ مدینۃ العلم سے جواب آیا: قبل الخلق الما والعرش ولکرسی والسموات والارض واللوح والقلم والجنۃ والنار والملائکۃ والحور والاَدم والحوا باربعۃ وعشرین الف ماۃ الف عام۔۔!!!
فرمایا : ابھی ” الما بھی نہیں تھا ۔
دیکھئے قارئین قرآن فرماتا ہے۔
کان عرشہُ علیٰ الما ۔ سورہ ھود آیت 7
میرا عرش الماء پر ہے۔
یعنیٰ کہ جس چیز پر عرش قائم ہے وہ بھی نہیں تھی۔ عرش نہیں تھا ۔ کرسی نہیں تھی، لوح نہیں تھی ۔ قلم نہیں تھا۔ زمین نہیں تھی۔ آسمان نہیں تھے۔ جنت نہیں تھی۔ جہنم نہیں تھے۔ فرشتے نہیں تھے۔ حوریں نہیں تھیں۔

قارئین !
جناب ِ آدم نہیں تھے۔ حوا نہیں تھیں۔
ان سب سے کتنا سال پہلے؟
چار لاکھ چوبیس ہزار سال پہلے۔
توجہ !!!
کان مقدارہ خمسین الف سنۃ ۔ سورہ العمارج آیت 4
یہاں کے پچاس ہزار گزریں تو وہاں کا ایک دن بنتا ہے۔
لسان ِ علی وجہ اللہ مزید گویا ہوئی:
ہمارے نبی ﷺ کا نور اللہ کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہے۔
اب پھر میرے شعور نے سوال کیا کہ نبی ﷺ کا نور سر جھکا کر کھڑا ہے۔ کر کیا رہا ہے؟
جواب آیا :
یسبحہُ وبحمدہُ
اللہ کی تسبیح و حمد کررہا ہے۔

میرے شعور نے سوال کیا کہ میرے نبی ﷺ کو تسبیح سکھائی کس نے ؟؟؟
باب ِ مدینۃ العلم نے جواب دیا:
اللہ کا دیکھنا تھا کہ اس نور نے تسبیح شروع کردی۔
والحق ینظر الیہ۔ یہ تسبیح کرتا رہا ۔ وہ دیکھتا رہا۔
یہ نور تو تسبیح کرتا رہا ۔ کیا وہ نور کا خالق جس نے اس نور کی خاطر کائنات کو خلق کیا۔ وہ صرف دیکھتاہی رہا ؟
نہیں !!!
عبدی ! انت المرید وانت المراد
اے میرے عبد! تو مرید بھی ہے اور مراد بھی ہے۔ حق کا خالق دیکھتا رہا اور یہ بولتا رہا۔

قارئین!
مرید کہتے ہیں ڈھونڈنے والے کو ۔ مرداکہتےہیں ڈھونڈی ہوئی شے کو ۔ بس وہ تسبیح کے زریعے ڈھونڈ رہا تھا مرید ہوا۔ یہ حق کا خالق اپنے حبیب کے نور کو دیکھ رہا تھا مراد ہوا۔
حق کا خالق کہتا ہے۔
فوعزتی و جلالی !!!
مجھے اپنے عزت اور جلال کی قسم !
لولاک لما خلقت الافلاک
اگر تو نہ ہوتا تو افلاک نہ ہوتے ۔
پھر اللہ نے اپنے حبیب کے نور سے بارہ حجاب خلق کئے ۔
کون کون سے حجاب ؟؟؟
حجاب ِ قدرت ، حجاب عظمت ، حجاب عزت ، حجاب نبوت ، حجاب کبریائی ، حجاب منزلت ، حجاب ہیبت ، حجاب ِ جبروت ، حجاب رحمت ، حجاب رفعت ، حجاب سعادت ، حجاب شفاعت ۔
اپنے نبی ﷺ کو حق کے خالق نے کہا !
ادخلا اولا فی حجابِ القدرہ !!!
میرے حبیب ذرا قدم تو آگے بڑھاو۔ آو ، حجاب قدرت میں داخل ہوجاو۔
ویبقیٰ علیٰ ذلک اثنیٰ عشر الف عام
اور بارہ ہزار سال نورِ نبی حجاب قدرت میں اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتا رہا۔
سبحان العلیٰ الاعلیٰ
پھر حجاب ِ عظمت میں گیا وہا ں گیارہ ہزار سال پڑھا سبحان الملک المنا ن ۔
پھر حجاب عزت میں دس ہزار سال پڑھا سبحان عالم ِ سراوخفیٰ ۔
پھر حجاب ِ ہیبت میں پڑھا سبحان من ھو غنی لافقرہُ ، نو ہزار سال۔
اے وہ غنی جو کبھی فقیر نہ تھا ۔ ۔ ۔
اس کے بعد حجاب ِ جبروت میں گیا، حجاب نبوت میں گیا ۔ حجاب کبریائی و حجاب منزلت و حجاب رحمت ، حجاب رفعت ، حجاب سعادت ، حجاب شفاعت میں منزل بہ منزل نبی ﷺ کا نور داخل ہوا ۔ تسبیح تھی کہ سبحان اللہ العظیم ، سبحان اللہ و بحمدہِ ۔
پھر اللہ نے اپنے حبیب کے نور سے ۔۔۔۔
بحر خلق فرمائے ۔
کون کون سے بحر ؟
بحر ِ صبر، بحرِ خشوع، بحرِ عزت ، بحر تواضع ، بحر رضا، بحر وفا، بحر حلم ، بحر تقاء ، بحر خشیت ، بحر انابت ، بحر عمل ، بحر ہدایت و بحر حیا۔

قارئین !
باری باری نورِ محمدی ﷺ ان بحار میں داخل ہوا ۔ سب سے آخر میں بحرِ حیا میں داخل ہوا۔
توجہ!
جب پانی سے نکلتے ہیں تو قطرے ٹپکتے ہیں نا ؟
لسانِ مدینۃالعلم ؑ گو یا ہے۔ ۔
قطرت منہُ قطرات!
جب نبی کریم ﷺ کا نور بحر حیا سے باہر نکلا تو قطرے ٹپکے ۔ ۔ ۔
کتنے قطرے ؟؟؟
ماۃ الف واربعۃ وعشرین الف قطرۃ ۔ ۔ ۔
ایک کم ایک لاکھ چوبیس ہزار قطرے ٹپکے ۔ ۔ ۔ ۔
پھر اللہ نے ہر قطرہ ء نور سے ایک نبی کو خلق کیا ۔ ۔ ۔
اب جس کےنور کے قطروں سے نبی خلق ہو ۔ ۔۔ جس آدم سے لے کر عیسیٰ تک کے کمالات دیکھ کر عقلیں حیران ہیں وہ ذوات ِ مجسمہ نور ِ محمدی ﷺ کی ہی تو خیرات ہیں۔ ۔ ۔
انبیاء کے اجسام کے انوار خلق ہوئے ۔ ۔ پھر ۔ ۔
صارت تطوف حول ِ نور ِ محمد کالحجاج تطواف حول بیت اللہ۔ ۔
ایک کم ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے اجسام کا نور ، نورِ محمد ی ﷺ کا طواف ایسا کرنے لگا جیسا بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے۔ ۔ ۔
حاجیوں کا قبلہ ہوگیاکعبہ اور نبیوں کا قبلہ ہوگیا رسول ﷺ ۔ ۔ طواف جاری ہے ۔ ۔
تیرا رسول ﷺ ، میرا رسول ﷺ کعبہ ہے۔ ۔ آدم سے لے لیکر عیسیٰ تک حاجی۔۔۔
بات کو سمیٹتا ہوں ۔ ۔
طواف ہورہا ہے اور تسبیح جاری ہے۔ ۔
خلق اللہ من نور ِ محمد جوہرۃ ۔ ۔
اللہ نے اپنے حبیب کے نور سے ایک موتی خلق کیا ۔ ۔
اس موتی کے دو ٹکڑے کردئیے ۔ ۔
فنظر الیٰ القسم الاول بعین ِ الھیبۃ ۔ ۔
پہلے ٹکڑے کو اللہ نے ہیبت کی نگاہ سے دیکھا ۔ ۔
والیَ القسم الاخربعین الشفقۃِ ۔ ۔
دوسرے کو شفقت کی نگاہ سے دیکھا ۔ ۔
جسے نگاہ ِ ہیبت سے دیکھا تھا وہ پگھل کر پانی ہوگیا اور اسی پر اللہ نے اپنا عرش قائم کیا ۔۔ ۔
اور جسے شفقت بھری نگاہ سے دیکھا تھا اس سے عرش قائم کیا ۔ ۔
پھر اللہ نے نورِ عرش سے کرسی کو بنایا ۔ ۔ ۔کرسی کے نور سے لوح کو اور لوح کے نور سے قلم کو خلق کیا ۔۔
پھر فرمایا ۔ ۔ اکتب ۔ ۔ لکھ۔ ۔
یہ سننا تھا کہ ہزار سال پورے قلم جنبش میں رہا ۔ ۔
اللہ کا حکم تھا لکھ ۔ ۔ قلم کا سوال تھاکہ کیا ؟
اللہ کا جواب تھا ۔ ۔ میری توحید ۔ ۔ قلم کا سوال تھا لکھوں تو کیسے ؟؟
اللہ نے فرمایا : لکھ ۔ ۔ لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ ۔ ۔
بس یہ لکھنا تھا کہ قلم سجدے میں گر پڑا۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قلم نے سوال کیا :
یار ربَ ! من محمد ن الذی قرنت اسمہُ باسمک وذکرہُ بذکرات ۔ ۔ یا رب ! یہ محمد کون ہے جس کا نام تو نے اپنے نام سے جوڑ دیا ہے اور جس کا ذکر اپنے ذکر سے مقرون رکھا۔ ۔
اللہ نے فرمایا : یہی مرید ہے ۔ یہی مراد ہے ۔ ۔ یہ اول ِ رسل ہے ۔ یہی شفعِ محشر ہے ۔ ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ، تو بھی نہ ہوتا ۔ ۔ نہ کوئی اور شے ہوتی ۔۔ ۔
بس پھر محمد ﷺ کے ذکر کی مٹھاس سنناتھا کہ قلم شق ہوا۔ ۔ اس میں قطع لگا ۔ ۔
بس قلم میں قطع لگنا تھا کہ ۔ ۔ گویا ہوا۔ ۔
السلام ُ علیک یا رسول اللہ ۔ ۔ ۔
اے اللہ کے رسول ﷺآپ پر میرا سلام ہو۔ ۔ ۔
اللہ نے جواب دیا ۔ ۔ ۔
وعلیکَ السلام منی و رحمتہ اللہ وبرکاتہُ ۔ ۔
اے قلم ! تجھ پر بھی میرا سلام ہو۔ ۔ میری رحمت ہو ۔ ۔ ۔ اور میری برکت ہو۔ ۔ ۔
نبی ﷺ نے سوال کیا اے پالنے والے ! یہ کیا تونے جلدی کی ؟ سلام اس نے مجھے کیا تھا پر تونے جواب دیا ۔ ۔
اللہ فرماتا ہے ! اے نبی ﷺ ۔ ۔ تجھ پر قرض ہوگیا ہے ۔۔ اتار دے ۔ ۔
تجھ میں میری حمد چھپی ہے ۔ ۔ وہ حمد ہی تیرا مقام ہے ۔ ۔ تو میرا احمد ہے۔ ۔ حمد کئے جا اور اپنے مقام کو سمجھتا جا۔ ۔ ۔ !!!!
قارئین !!! محمد ِ مرسل ﷺ کے مقام کا احاطہ کرنے سے عقلیں قاصر ہیں ۔ ۔ اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہ بس اللہ ہے ۔ ۔ وہ اللہ جس کی حمد ِ مجسم کا نام محمد ﷺ ہے۔ ۔ جس کے مقام کو آج تک کو سمجھ نہیں سکا ۔ ۔ اور شاید ہی کوئی سمجھ سکے۔ ۔ ۔۔!!!
تحریر کا اختتام اپنے اس کلام سے کرنا چاہتا ہوں ۔ ۔
***********
سمجھ میں نہ آیا جو نام ِ محمد ﷺ
تو سمجھو گے کیسے مقام ِ محمد ﷺ
دیا رب نے احمد ﷺ کو اک سراپا ۔ ۔
دیا اس سراپے کو نامِ محمد ﷺ۔ ۔
یوں حمد جلوہ نما ہر جہاں ہے ۔ ۔
کہے اس کو اللہ نظام ِ محمد ﷺ۔ ۔ ۔
ہمیشہ کو یہ نام کلمے میں رکھ کے۔ ۔
کیا رب نے ہے انتظام محمد ﷺ۔ ۔
نہیں ختم ہوگا خدا جس طرح سے ۔ ۔
نہیں ایسے ہی، اختتام ِ محمد ﷺ ۔ ۔
ہے حمد ِ خدا سے، محمد ﷺ جبھی تو ۔ ۔
رہا ہر نبی ؑ تشنہ کام ِ محمد ﷺ۔ ۔
ہے اللہ کی الحمد جاری وہ ساری ۔ ۔
تو سمجھو کے جاری ہے نام ِ محمد ﷺ۔ ۔
کرم ہے خدا کے یہ دست ِ کرم کا ۔ ۔
جو پیتا ہے باقی، جام ِ محمد ﷺ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بلغ العلیٰ بکمالہ۔۔۔۔۔عدیل رضا

Leave a Reply