تاریخ بہت ظالم ہے۔۔۔سیّد شاہد عباس

تاریخ بہت ظالم ہے ،یہ کسی کا ادھار نہیں رکھتی۔ تاریخ میں بڑے بڑے طرم خان گمنام لکھے جاتے ہیں۔ اور عام سے لوگ تاریخ میں ہیرو کا درجہ پا جاتے ہیں۔ تاریخ کے پاس اپنے معیارات ہیں۔ وہ ہمارے کہنے سے نہ کسی کا کردار لکھتی ہے نہ ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کون کس کو پسند ہے اور کسے نا پسند۔ آپ عارضی طور پر کسی کی شان میں قصیدے لکھتے ہیں۔ قصیدہ گو خود بھی بن جاتے ہیں اور لفاظی کے تمام ہنر آزماتے ہیں اس امید پہ کہ آپ کی قصیدہ گوئی کو تاریخ بھی یاد رکھے گی،اور آپ کا کسی کے حق میں رطب اللسان ہونا آپ کی صفت بن جائے گا۔ لیکن تاریخ ایسی قصیدہ گوئی آپ کے منہ پہ دے مارتی ہے۔ جب کہ آپ کسی شخص کی جتنی مرضی کردار کشی کر لیں۔ اس کی ذات کے بخیے ادھیڑ لیں۔ جیسے چاہیں  اس کو ذلیل و رسوا کر لیں۔ لیکن اگر تاریخ کی مرضی ہو تو وہ اس شخص کو ہیرو بنا کے آپ کی باقیات کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔ اور پاکستان میں بھی تاریخ ایسا ہی کرتی ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک دیکھیے کہ شخصیات کی ظاہری نمود و نمائش سے مبّرا ہو کے تاریخ دو دھاری تلوار بن جاتی ہے۔ بھٹو آج بھی زندہ ہے،اور کوئی شک نہیں کہ بھٹو صاحب جیسا لیڈر پاکستان کو میسر نہیں ہوا۔ بے باک انداز، جاندار لہجہ، اور لفظوں کر موقع پر بہترین استعمال۔ لیکن تاریخ جب لکھنے بیٹھی تو اس نے لکھا کہ کیسے اکثریتی جماعت کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔ رائے موجود ہے کہ حالات بہت پہلے سے ہموار کیے جا رہے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ ہموار کیے جا رہے تھے لیکن اس کو عروج دینے والوں کو بھی تاریخ کبھی نہیں بھولتی۔ اور ایسا ہی ہوا۔۔ ایوب خان نے 65ء کی جنگ فتح کرنے کا تمغہ اپنے سینے پہ سجایا۔ دو ڈیم بنا کے دے دیے۔ لیکن تاریخ جب ذکر کرنے کو آئی تو ایک ڈکٹیٹر سے آگے  ذکر نہیں  کیا، اور ڈیم و جنگ کے قصے کہانیاں بھی تاریخ رقم کرتی رہی۔

شریعت کا نفاذ کرنے والے ضیاء الحق ہوں یا سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے مشرف سب تاریخ کی نظر میں محفوظ ہے۔ بھٹو کی بیٹی آئی ہے کا نعرہ لگا ہو یا ملک کو ایشیائی طاقت بنانے کا دعویٰ  کرنے والے نواز شریف سب کی اچھائیاں برائیاں ان کے مشیران کی قصیدہ گوئی سے بالکل ہٹ کے تاریخ لکھتی رہی اور  شخصیات تاریخ کا حصہ بنتی رہیں۔ ظلم یہ ہے کہ تاریخ اپنا ماضی رقم کرنے کے لیے تاریخ دانوں کی محتاج نہیں ہے۔ ہم تصور کر لیتے ہیں کہ تاریخ دان ہی تاریخ لکھتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، تاریخ خود اپنے آپ کو لکھتی ہے۔

کرونا وائرس نے پوری دنیا کو جکڑ لیا۔ ایک ملک سے بات 150 ممالک تک پہنچ گئی۔ جہاں دنیا سکون سے بیٹھی تھی کہ چین کو مسائل ہیں۔ وہ چین دوبارہ سے کھڑا ہو گیا اور دنیا گھٹنوں کے بل آگئی ۔ چین جیسی اقتصادی طاقت کو جہاں کرونا وائرس نے ناکوں چنے چبوا دیے ،وہاں ایران جیسا پابندیوں کا شکار ملک بھی شکار بن گیا۔ اٹلی و برطانیہ جیسے یورپی ملک نہیں بچے تو افغانستان و انڈیا جیسے ایشیائی ملک بھی شکار ہو چکے ہیں۔ ہر طرف بھاگ دوڑ جاری ہے۔ تحقیق کرنے والے علاج کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔ علاج کرنے والے علاج کر رہے ہیں۔ لیکن تاریخ یہاں بھی اپنا وار کر رہی ہے۔
وفاق اور صوبہ سندھ کی محاذ آرائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وفاق اور سندھ میں مخالف سیاسی جماعتیں ہیں چنانچہ محاذ آرائی یقینی ہے۔ لیکن کرونا وائرس آنے کے بعد سے سندھ حکومت نے واویلا مچائے رکھا کہ وفاق تعاون نہیں کر رہا۔ اور وقت نے ثابت کیا کہ وفاق کی تھوڑی سی سُستی کی وجہ سے ائیرپورٹ سے لوگ نکلتے رہے۔ شہروں میں آتے رہے اور کچھوے کی رفتار سے مریضوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ لیکن وفاق نے پھر بھی شاید اس لیے معاملات کو سنجیدہ نہیں لیا کہ سندھ تک بات تھی۔ حیرت کا مقام ہے کہ جس مراد علی شاہ کو ہم وراثتی حکمران کا طعنہ دیتے رہے ہیں وہ اس مشکل میں ابھر کر سامنے آیا۔ سندھ حکومت نے کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔ ساتھ وفاق سے گلہ شکوہ جاری رہا۔ لیکن حالات کنٹرول میں رہے۔ دو ماہ سے سنتے آئے کہ تفتان بارڈر پہ زائرین کو خیمہ بستی کے قرنطینہ میں رکھا گیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہم نے چین سے تو پاکستانیوں کو ملک میں نہیں بلایا لیکن اطلاعات رہیں کہ ایران جیسے شدید وائرس کا شکار ملک سے لوگ پاکستان آتے رہے۔ تفتان پہ قرنطینہ بنا، سہولیات ناکافی تھیں، المیے کی نشاندہی کی جاتی رہی۔ وفاق کے کان پہ جوں تک نہ رینگی۔ نہ تو تفتان بارڈر پہ سکروٹنی سخت کی گئی نہ قرنطینہ بہتر بنانے کی طرف توجہ دی گئی۔ تفتان بارڈر سے سندھ سے تعلق رکھنے والے زائرین جب سندھ پہنچائے گئے، 14 دن کے قرنطینہ کے بعد بھی تو ان میں سے پچاس فیصد وائرس کا شکار ثابت ہوئے۔ اب ہر طرف شور مچا۔ وفاق کی بدحواسی سامنے آئی۔ پتا چلا کہ تفتان میں تو چیک کرنے یا ٹیسٹ کرنے کا کوئی نظام ہی موجود نہیں تھا۔ مشینیں پرانی تھیں یا کچھ بھی۔ اور اب بھاگم بھاگ وہاں انتظامات کیے جا رہے لیکن اب فائدہ اس لیے نہیں  کہ زائرین تو شکار ہو چکے۔ اور وائرس لیے ہوئے مریض صوبوں میں بھی پہنچ چکے۔ یکدم کچھوے کی رفتار سے وائرس کے پھیلاؤ نے خرگوش کی چھلانگ لگا دی۔ آخری اطلاعات کے مطابق دو سو کے قریب مریض، اور لاہور میں ایک موت کی خبریں ہیں ۔

کوئی شک نہیں کہ تنقید بر موقع  و محل نہیں ہے۔ لیکن عقل کے اندھے فیصلہ سازوں سے کوئی پوچھے کہ اگر تفتان میں سہولیات تھیں ہی نہیں تو لوگوں کو 14 دن تک قید جیسی حالت میں رکھا کیوں گیا؟ سب اچھا ہے کی گردان سننے والے کانوں سے عرض اتنی سی ہے کہ صاحب! جب سب اچھا نہیں تھا تو کیوں کبوتر کی طرح آپ نے آنکھیں بند کیے رکھیں؟ کیا آپ کی عقل کے کسی گوشے میں دنیا کا واویلا نہیں آیا؟ آپ نے ایران میں  گرتی لاشیں نہیں دیکھیں؟ چین جیسی اقتصادی طاقت کو آپ نے چاروں شانے چت نہیں دیکھا؟ دنیا تو پھر بھی کنٹرول کر لے شاید۔ آپ کے ہاں تو وائرس کا ٹیسٹ ہزار روپے کا ہو رہا ہے سب دعوؤں کے باوجود تو جس کو علامات ہیں بھی کیا وہ لیب میں جائے گا رضاکارانہ طور پر؟ آپ مریضوں سے توقع کر رہے ہیں  کہ وہ رضاکارانہ طور پر ٹیسٹ کروائیں۔ لیکن آپ کیوں رضاکارانہ طور پر خلوص نیت نہیں دکھاتے اور اس ملک پر رحم کرتے کہ کبھی تو کوئی ایسا فیصلہ کر دیجیے کہ کسی ہنگامی آفت میں عوام آپ کے گُن گائیں؟ مراد علی شاہ کا کردار مثبت طور پر اُبھرا کہ وہ با اختیار ہیں۔ پنجاب میں اللہ نہ کرے ویسے حالات پیدا ہوئے تو اوپننگ بیٹسمین کے پاس کتنے اختیارات ہیں ،سب جانتے ہیں۔ آپ نے کمزور پیادہ آگے کیا کہ بہتی گنگا سے کوئی اور ہاتھ نہ دھوئے لیکن افتاد ایسی آن پڑی کہ لوگ ماضی کے بقول آپ کے “چوروں” کو یاد کرنے لگے ہیں ،کہ وہ ہی بہتر تھے۔ مراد علی شاہ جہاں اس افتار سے اُبھرے وہاں پنجاب میں صورتحال کیا ہے؟ لکھا جاتا رہا، بولا جاتا رہا، کہ وسائل کا رُخ بلوچستان کی طرف کیجیے کہ المیہ سر پہ ہے۔ آپ کے کان پہ جوں نہیں رینگی اور سیاسی لحاظ سے چوں چوں کا مربہ وہاں بنا ہوا ہے، لہذا بروقت فیصلہ نہ ہو سکا۔ اور وباء پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ بے فکر رہیے۔ آپ کا کردار مثبت ہے تو ہماری توصیف آپ کے لیے۔ آپ کا کردار منفی ہے تو ہماری تنقید آپ کے لیے۔ لیکن ہم ہوتے کون ہیں توصیف یا تنقید کرنے والے۔ آپ اگر درست اور ہم غلط تو ہمارے الفاظ گمنام اور آپ کا عمل یاد رہے گا۔ لیکن اگر حقیقت میں آپ کا کردار سستی کا شکار ہونے کی وجہ سے منفی ہو گیا۔ اور آپ کے بروقت فیصلہ نہ  کرنے کی وجہ سے پاکستان میں یہ وباء پھیل گئی تو تاریخ بہت ظالم ہے۔ وہ آپ کے ساتھ بھی بہت ظلم کرے گی۔ وہ آپ کو ایسے یاد رکھے گی کہ آپ کی نسلیں بھی اس یاد رکھنے پہ سر جھکائے ہوں گی۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply