ایک جائزہ کتاب لبِ گویا کا۔۔۔عامر کاکازئی

دو سال پہلے اتفاق سے سوشل میڈیا پر ایک کتاب “زمین” پر نظر پڑی۔ جب پتہ چلا کہ یہ تو رئیل سٹیٹ اور اس سے منسلک بزنس کے اوپر  لکھی گئی  کتاب ہے تو تجسس پیدا ہوا کہ کس نے لکھی ہے۔ پتہ چلا کہ یہ کتاب ایکسپرس نیوز کے عمرعبدالرحمٰن جنجوعہ صاحب کی ہے۔ فوراً رابطہ کیا اور ایک دن کے اندر اندر انہوں نے بغیر کسی جان پہچان کے تحفہ کے طور پر کتاب بھیج دی۔ پڑھ کر عجیب سا لگا کہ کسی نے پہلی بار ایک مختلف موضوع پر کتاب لکھی ہے۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی کتاب “زمین” پنجوانی انسٹیٹوٹ اَف مینجمنٹ سائنس کراچی کے نصاب میں شامل ہوئی ہے۔ جس کے لیے یہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

انہی عمر صاحب کی دوسری کتاب “لبِ گویا” ابھی حال ہی میں پبلش ہوئی ہے۔ خوبصورت نام اور پرنٹنگ کے ساتھ صرف 350  روپے میں دستیاب ہے جو کہ حیرت انگیز ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں اتنی سستی کتاب؟

یہ   ان کی گیارہ سالہ صحافت کے کالمز کا مجموعہ ہے۔ جس میں  آپ کو ورائٹی ملے گی۔ جس میں سماج، سیاست انٹرویوز اور ادب و فکر پر مشتمل تحریریں ہیں۔ ان کی تحریر میں خوبی ہے کہ ذہن پر پوجھ ڈالے بغیران کی بات سمجھ میں  آ جاتی ہے۔ ان کی کتاب سے جہاں  آپ کو ارفع کریم رندھاوا   کی زندگی کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف ملالہ یوسف زئی  کے بارے میں مفصل رپورٹ ملتی ہے۔ اسی طرح چوہدری نثار کی طرز سیاست سے لے کر شاہد خاقان عباسی کی سیاست کے بارے میں مکمل تفصیل ملتی ہے۔

ان کی ایک بہت خطرناک تحریر آئن کی شق 295c  (توہین رسالت) کے بارے میں ہے۔ اس موضوع پر لکھنا زندگی کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے مگر عمر صاحب نے اس کو جرات اور خوبصورتی سے متنازعہ ہوئے بغیر لکھ ڈالا۔

اس کتاب کی سب سے خوبصورت تحریر “کوڑے کے پھول” ہے۔ جو کہ معذورلوگوں، عورتوں اور ان بچوں جو کہ بازاروں میں کام کرتے ہیں،   کے بارے میں ہے۔ اس تحریر کی تعریف صرف اس جملے میں ہے کہ “کاش یہ تحریر ہم نے لکھی ہوتی”

ان کی تمام تحریریں مکمل ہوم ورق اور تحقیق کے بعد لکھی ہوئی  لگتی ہیں۔ مگر چار موضوعات پر بغیر کسی تحقیق کے صرف جذبات کا سہارا لے کر لکھ ڈالا جو کہ 65  کی جنگ،  کشمیر، دہشتگردی اور طالبان پر ہے۔ لیکن شاید یہ ان کی ابتدائی  تحریروں میں سے ہیں، کہ نوجوانی میں جوش زیادہ ہوتا ہے۔

ان کی کچھ تحریریں ہمیں ایسی چیزوں، محکموں اور شخصیات کے بارے میں معلومات دیتی ہیں جو دوسرا مصنف شاید نظر انداز کر دے۔ جیسے کہ پی ڈبلو ڈی کا محکمہ، حجامہ، رمشا کیس، راۓ حارث کے بارے میں، او جی ڈی سی کا محکمہ، افتخار عارف صاحب کا انٹرویو وغیرہ شامل ہیں۔

ان کی ایک تحریرمیں بزرگ ارکیٹیکٹ جناب سعید احمد میاں صاحب سے ایک گفتگو شامل ہے، جو ہمیں پاکستان کے ابتدائی دور کے بارے میں آپ ڈیٹ کرتی ہے۔

ان کی دو تحریریں بہت الجھن کا شکار لگتی ہیں، ایک میں وہ عورت کے جدید لباس پر شدید تنقید کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری تحریر میں وہ آرٹ، فلم، میوزک ، عورت کا ڈرامہ اور فلم میں کام کرنے کی حوصلہ افزائی  کرتے ہیں۔ اس تحریر میں انہوں نے بہت تفصیل کے ساتھ آرٹ، فلم اور میوزک کا دفاع کرتے ہوئے اسے جدید دور کی ایک ضرورت بتایا ہے اور جو کہ مذہب سے ہرگز بھی تصادم میں نہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔ “تعب ہے جو  آواز گلے سے نکلے وہ حلال ہے جبکہ کسی بانسری یا تار سے نکلے وہ حرام”

اس تحریر کو ان کے ایک مضمون سے لیے گئے   جملے پر ختم کرتے ہیں کہ

“فاتحہ لوگوں کے مرنے پر نہیں بلکہ احساس کے مرنے پر پڑھنی چاہیے۔ کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر  آ جاتا ہے۔ مگراحساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے”

Advertisements
julia rana solicitors london

(اس کتاب کو ہر لکھنے والا اپنے پاس ایک ریفرنس بک کے طور پر ضرور رکھے)

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply