مشتاق کاملانی ، مختصر آپ بیتی ۔۔۔محمد فیاض حسرت

بیٹا بات سننا ،
جی بابا عرض کیجئے ۔
بیٹا وہ سامنے آدمی نظر آ رہا ہے آپ کو ؟
جی ہاں ،بابا کیا ہوا اس کو ؟
بیٹا مجھے یہ معلوم نہیں کیا فرق لگا ہے اُس کو ، ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے پاس دوڑا چلا آیا اور کہتا ہے ۔ مشتاق کاملانی صاحب ، کیا ہوا آپ کو ؟ یہ کیسی حالت بنا رکھی ہے ۔ تو جواباً عرض کیا میں نے۔ارے صاحب ، مجھے کیا ہونا ہے ۔ ہوا تو آپ کو کچھ ہے ۔ میں مشتاق کاملانی نہیں ہوں ،آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔ تو وہ مجھے یہ کہہ کے چلا گیا کہ غلط فہمی مجھے ہوئی ہے اور وہ بھی اپنے بارے میں ۔ آپ مشتاق کاملانی ہی ہیں ۔
بیٹا مجھے اس آدمی پر یقین نہیں پر آپ پر یقین ہے ۔
مجھے بتلائیے کہ کیا میرا نام مشتاق کاملانی ہے ؟ کیا گزرے وقت میں مجھے لوگ ادیب اور کہانی نویس کے طور پر  جانتے تھے ؟
جی بابا بالکل ایسا ہی ہے ۔ قریباً تین سال پہلے میں نے آپ کو صرف ایک ہی بار دیکھا ، اس وقت میرے بابا میرے ساتھ تھے تو انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ یہ کہانی نویس، مشتاق کاملانی صاحب ہیں ۔بابا آپ کو نہیں پتا؟ کل نیوز میں آپ کے ہی بارے خبریں آ رہی تھی کہ مشتاق کاملانی ، ماضی کے ادیب اور کہانی نویس حالات کے سبب مشکلوں سے دو چار ہیں ۔
بیٹا اُس آدمی نے مجھے اس نام سے بلایا تو مجھے ایسے ہی محسوس ہوا کہ وہ کسی اور کو بلا رہا ہے لیکن آپ پر مجھے یقین ہے کہ آپ ابھی چھوٹے ہو اس لیے اپنے بڑوں سے جھوٹ نہیں بولو گے ۔ میں آپ کی بات کا یقین کر لیتا ہوں ۔
بیٹا اگر میرے بارے میں اور کچھ پتا ہو تو آپ بتائیں مجھے ۔
جی نہیں بابا اور کچھ مجھے نہیں پتا جتنا جانتا تھا وہ میں آپ کو بتا چکا ۔ آپ خود سوچیے شاید آپ کو یاد آ جائے ۔
بیٹا یہ کون کہہ رہا ہے کہ میری حالات کے سبب یہ حالت ہوئی ؟
میں نے آپ کی بات کا یقین کیا ۔ اگر میں ان حالات کا بتاؤں تو آپ یقین کرو گے ؟
جی ہاں بابا ،کیوں نہیں آپ بتائیں ۔
بیٹا مجھے یاد ہے میری عمر بھی ایسی ہی تھی جیسی اب آپ کی ہے ۔ مجھے لکھنے کا شوق تھا ۔ میں کہانیاں لکھتا تھا پر کبھی کبھار حق باتیں بھی انہی  کہانیوں میں لکھ دیا کرتا تھا ۔ مجھے جہاں تک یاد ہے میں یونیورسٹی کا طالبِ علم تھا ۔ انہی  دنوں میں میں نے ایک کہانی لکھ کے شائع کروائی تھی ۔ اس کے تین چار دن بعد مجھے گھر کے رستے سے اٹھا دیا گیا تھا ۔ بیٹا ، اس سے آگے کیا ہوا وہ میں بالکل بھی نہیں جانتا ۔جہاں تک یاد آ رہا ہے وہ اس کے تقریباً تین مہینے بعد کا حصہ ہے ۔
بابا وہی بتا دیجئے ۔ پھر کیا ہوا؟
ہوا یوں کہ میں ایک انجان سڑک کے درمیان پڑا ہوا تھا اور میری آنکھ کھلی ۔ آنکھ کھلتے ساتھ ہی میں نے چلانے کی کوشش کی پر زبان سے آواز نکل نہ پا رہی تھی ۔ پھر کچھ دیکھنے کی کوشش کی اس میں بھی کامیاب نہ ہوا ۔ سب کچھ دھندلا نظر آ رہا تھا ۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی تو اس میں بھی برابر ناکام رہا ۔ میرے جسم کی ہڈیاں درد کے مارے چور چور ہو رہی تھیں۔
کتنا بے بس تھا میں ، اس برے وقت میں! جو دیکھنا چاہوں تو دیکھ بھی نہ پاؤں ، جو بولنا چاہوں تو بول بھی نہ پاؤں ، جو اٹھنا چاہوں تو اٹھ بھی نہ پاؤں ۔ ہائے کتنا بے بس تھا میں کہ اپنے جسم کے کسی حصے پر بھی مجھے مکمل اختیار نہ تھا ۔ واقعی میں بے بس و لاچار ہوا پڑا تھا ۔
پھر قدرت نے کرم کیا میں بے ہوش ہو گیا ۔ اس بے ہوشی کے بعد جب ہوش آیا تو مجھے کچھ یاد نہ تھا ۔ہوش آنے والے دن سے پہلے کی سبھی زندگی بھول چکا تھا ۔
ارے بیٹا تم کیوں رو رہے ہو ؟ یہ کچھ تمہارے ساتھ تو نہیں ہوا نا یا تمہارے کسی اپنے کے ساتھ نہیں ہوا جو تم رو رہے ہو ۔ اس بے حس معاشرے میں تمہیں کیسے احساس ہونے لگا کسی اور کے دکھ درد کا ۔
سنو بیٹا ، خدا تمہیں جیتا رکھے ۔
اس کے بعد کیا کیا ہوا میرے ساتھ اب وہ بتاؤں تو آپ سن نہ پاؤ گے ۔ بس مختصر اتنا بتا دیتا ہوں کہ اس کے بعد گویا میری زندگی ، میری زندگی ہی نہ تھی ۔گویا میں زندہ ہی نہ تھا ۔ بس یونہی کبھی کسی کے در اور کبھی کسی کے در چلا جاتا ۔ لوگ مجھے بھکاری سمجھ کر کچھ ٹکڑے کھانے کے دیتے ، وہ ٹکڑے جو کھانے کے قابل نہ ہوں پر میں وہ کھا لیتا ۔ بس یونہی زندہ رہ رہا ہوں ۔
بابا ، آپ جیسے پہلے تھے ویسے ہی ہوں گے ۔ انشا اللہ کوئی خدا کا بندہ آپ کی اب مدد کرے گا ۔
بیٹا خدا تمہاری زبان مبارک کرے پر خدا کی مخلوق کے لیے کچھ بھلا کرنے کے لیے اک عمر چاہیے ہوتی ہے ۔ مجھے طالبِ علمی کے زمانے میں امید تھی کہ میں کچھ بھلا ضرور کروں گا ۔وہ عمر جو میرے اس بھلے کام میں صرف ہوتی وہ ساری عمر میرے ہی افسانے میں صرف ہو چکی ہے ۔ اب یہ عمر کا آخری حصہ ہے ۔اس حصے میں ، یونہی رہنا بہتر جانتا ہوں کیونکہ اگر کسی بھلے انسان نے میری مدد فرمائی اور میں کسی بھلے کام کرنے کے قابل ہو گیا تو ممکن ہے پھر سے وہی کچھ ہو ۔بیٹا پھر سے میرے ایک اور افسانے کے لیے ایک عمر چاہیے ہو گی جو کم پڑ جائے گی ۔
خدا حافظ بیٹا،
چلتا ہوں ۔ خدا تمہاری حفاظت کرے ۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply