کیا صرف میری ایک کمی ہی میری شناخت ہے؟۔۔ابصار فاطمہ جعفری

بلئینگ کیا ہے اس کی وجوہات اور حل
“اللہ کی شان تنکے میں جان”
وہ  سکول میں داخل ہواتوکسی جانب سے آواز آئی۔
دو قدم چلا ہوگا کہ دوسری طرف سے آواز آئی “ارے جیب میں دو پتھر رکھ لیا کر بھائی کسی دن اڑ جائے گا۔”
ماتھے پہ آتا پسینہ بھی صاف کرنے کی ہمت نہیں تھی قدم تیز کرنے کی کوشش کی مگر لگتا تھا پیروں میں جان ہی نہیں بمشکل کلاس تک پہنچا۔

یہ روز کا معمول تھا ایسا نہیں تھا کہ اس کے دوست نہیں تھے یا وہ کوئی ڈرپوک یا پڑھائی میں نکما لڑکا تھا مگر ہر کوئی اس کے دبلے پن پہ کوئی جملہ کسنا جیسے فرض سمجھتا تھا حد یہ کہ اساتذہ بھی اس فقرہ بازی میں شامل ہوتے وہ ہر بار سوچتا اب کسی کی بات کو دل پہ نہیں لے گامگر ہر بار اپنا مذاق اڑنے پہ اس کا سارا اعتماد گم ہوجاتا تھا۔ مگر اگلی صبح کچھ عجیب ہوا وہ داخل ہوا اور پورا رستہ کسی نے اس کو کچھ نہیں کہا بلکہ کچھ سنسان سنسان سا لگا پھر لوگوں کی تلاش میں اس کی نظریں دھونڈتی ڈھونڈتی گراونڈ کے ایک درخت کے نیچے لگی ایک بیچ پہ جاکر ٹھہریں جہاں ایک چھوٹا سا مجمع لگا ہوا تھا دور سے ہلکی ہلکی قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ سمجھا صبح صبح کوئی کمپنی والے آئے ہوں گے اپنی پراڈکٹ کی پروموشن کے لیئے عموما وہ کوئی کامیڈین یا میجیشن وغیرہ کو لے آتے تھے۔ مگر قریب پہنچ کر اندازہ ہوا کہ دائرے کے بیچ کوئی بڑا آدمی یا عورت نہیں ایک بچہ ہی کھڑا تھا بہت موٹا اتنا موٹا کہ اس کی بھی ہنسی نکل گئی۔

ہاہاہا۔۔۔اس میں کیا اس کے ابو نے ہوا بھروائی ہے۔ یا غبارے کو بیٹا بنا لیا۔ اس نے غیر ارادی طور پہ پاس کھڑے لڑکے سے کہا۔ دونوں زور سے قہقہہ مار کے ہنس دیئے اس کی ہنسی میں لطف بھی تھااور ایک عجیب سی خوشی جیسی دشمن سے پرانا بدلہ لے کر ملتی ہے۔ اس کو دوگنی خوشی ملی تھی ایک تو اسکول خاص کر کلاس کے باقی طلبہ کی توجہ اب اس موٹو پہ تھی اور اب کوئی تھا جس کا وہ بھی مذاق اڑا کر اپنا غصہ نکال سکتا تھا۔ نئے آنے والے لڑکے کے مٹاپے کے سامنے اس کا دبلا پن کچھ بھی نہیں تھا۔ اسے یقین تھا کہ اب اس کا مذاق اڑنا کم ہوجائے گا۔ وہ کوشش کرنے لگا کہ زیادہ سے زیادہ موٹے کے قریب رہے تاکہ کوئی جیسے ہی اس کے دبلے پن پہ کچھ بولتا وہ اس کا دھیان موٹے کی طرف کروا دیتا پھر وہ مل کر اس موٹو کا مذاق اڑاتے۔ ہر ایک نے موٹو کو پنچنگ بیگ سمجھ لیا تھا گھر سے پٹ کر آنے والا، ٹیچرزسے غلطی پہ بار بار بے عزتی سہنے والا، لوگوں کے بے توجہی کا شکار غرض سب موٹو سے اپنے مسئلوں کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ کیونکہ موٹو کے گھر سے کوئی کبھی کمپلین لے کر نہیں آیا۔ اور موٹو میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کلاس ٹیچر یا پرنسپل سے شکایت کرسکتا اس لیئے سب بے خوف ہو کر موٹو کا مذاق اڑاتے اور اس کی تاثرات دیکھ کر خوب لطف اٹھاتے۔

نیا مہینہ شروع ہونے والا تھا اور ٹیچر نے نیا ٹاپک دیا “بلیئنگ bullying” پھر تھوڑا وضاحت کرنی شروع کی کہ دیکھیں بلئینگ کا مطلب ہوتا ہے مذاق اڑانا کسی کی رنگت پہ قد پہ جسامت پہ فقرے کسنا جیسے موٹو سوری معیض کو سب اس کے موٹے ہونے پہ چڑاتے ہیں تو ایسا کرنا بلئینگ کہلاتا ہے اس کا نتیجہ بہت خطرناک ہوسکتا ہے بچے خودکشی بھی کرلیتے ہیں مگر میعض آپ ایسی کوشش مت کیجیئے گا کہیں چھت ہی نا گر جائے۔ ٹیچر آگے پتا نہیں کیا کیا بتاتی رہیں مگر معیض کا دماغ سائیں سائیں کرتا رہا۔ اگلے دن معیض اسکول نہیں آیا بلکہ اخبار میں خبر آئی ساتویں کلاس کا شاگرد ٹیچر کی معمولی مذاق پہ ناراض گلے میں پھندا ڈال کر دنیا چھوڑ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معیض تو ایک تصوراتی کردار تھا۔ مگر اصل زندگی میں بھی بلئینگ ہمیں ناصرف ہر جگہ نظر آتی ہے بلکہ ہم کبھی نا کبھی اس کا شکار بھی ہوئے ہوتے ہیں۔ بلئینگ کی مختلف اقسام ہیں جن میں سب سے زیادہ عام مذاق اڑانا ہے اس کے علاوہ کسی کے لئے جنسی نوعیت کےکمنٹ کرنا، کسی کے لئے افواہیں پھیلانا، اس کو کسی مخصوص ذات یا طبقے سے تعلق کی بنا پہ بار بار کمتر ہونے کا احساس دلانا دھمکیاں دینا، اپنی طاقت کے مظاہرے کے طور پہ مارنا پیٹنا یہ سب بلئینگ کی اقسام ہیں۔ اس کے علاوہ اب ایک منفرد قسم سامنے آئی ہے وہ ہے سائبر بلئینگ یعنی انٹرنیٹ اور موبائل کی مدد سے دوسرے کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے والے اقدامات کرنا جس میں کسی کو دھمکی آمیز میسجز بھیجنا، فحش میسجز یا تصاویر بھیجنا، سوشل سائیٹس پہ مختلف جگہ کسی شخص کو بار بار اپنی موجودگی کا احساس دلا کر چڑانا اس کی ایکٹوٹی پہ نظر رکھنا اور پھر اس کے حوالے سے اسے حراساں کرنا جسے عمومی طور پہ اسٹالکنگ کہا جاتا ہے۔ یہ سب بھی بلئینگ کا حصہ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب سے فرق کیا پڑتا ہے اگر ہم “اگنور” کردیں تو معاملہ ختم؟؟؟ یہی مشورہ دیا بھی جاتا ہے مگر اصل میں نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں ایک ماہر نفسیات ہونی کی حیثیت سے روز کئی لوگ ہمارے پاس کم اعتمادی، پبلک میں بات کرنے کی گھبراہٹ ، تنہائی کا احساس، چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصہ آجانا، اپنا آپ غیر اہم لگنا، فیصلہ سازی کی صلاحیت نا ہونا اور ایسی کئی شکایات لے کر آتے ہیں جو کہ مسلسل بلئینگ کا شکار ہونے کا شاخسانہ ہوتی ہیں۔

دنیا بھر میں روز کئی بچے کسی نا کسی قسم کی بلئینگ کا شکار ہوتے ہیں۔ جن میں سے 30 فیصد بچے خود کو تکلیف دینا شروع کردیتے ہیں 30 فیصد بچے خودکشی کا بار بار سوچتے ہیں اور 10 فیصد عمل بھی کر لیتے ہیں مزید دس فیصد بچے نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ اور بقیہ 20 فیصد اسکول جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں بلئینگ سے متعلق معلومات جمع کرنے کا کوئی منظم نظام موجود نہیں۔ جن تھوڑے بہت سرویز کی بنیاد پہ اسٹیٹسٹکس بنائی گئیں اس کے حساب سے پاکستان دنیا بھر میں بلئینگ میں بائیسویں نمبر پہ ہے۔

آیئے اب دیکھتے ہیں کہ کس قسم کی جگہ پہ کس قسم کی بلئینگ پائی جاتی ہے۔ اسکولوں میں عموما جسمانی ساخت رنگ ذات کی بنیاد پہ مذاق اڑانا سب سے عام ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اساتذہ طلبہ کو روکنے کی بجائے مختلف طریقوں سے خود بھی اس نامناسب فعل کا حصہ ہوتے ہیں۔ اپنے لیکچر کو ہلکا پھلکا بنانے کے لیئے کسی موٹے یا دبلے بچے پہ کمنٹ کردینا کسی بچے کے نکمے ہونے کو بار بار زیر بحث لانا کسی بچے کے بات چیت کے انداز کی وجہ سے اسے بار بار احساس دلانا کہ وہ مکمل لڑکا یا لڑکی ہے اور اسے ایسا ہی رویہ رکھنا چاہیے اساتذہ کی طرف سے کی جانے والی بلئینگ ہے۔ کسی زیادہ ذہین بچے کی بلاوجہ نمبر کاٹ لینا اس کی غلطی بنا کر کلاس کے سامنے بے عزت کرنا بلئینگ کا ایسا طریقہ ہے جو کسی بھی ذہین بچے کی زندگی برباد کر دیتا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں سوچنے اور سوال کرنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی بجائے انہیں پیچھے رکھنے کے لئے اوپر بیان کیے گئے حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور بچے اپنی عزت نفس بچانے کے لئے سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور ہم حیران ہوتے ہیں کہ امتحان میں کم مارکس آئے تو اتنی سی بات پہ بچے نے خودکشی کیوں کرلی یا تعلیم کیوں چھوڑ دی۔ اسکولوں کی بلئینگ زدہ ماحول میں بچے آہستہ آہستہ تعلیم میں دلچسپی گنواتے جاتے ہیں۔ بلئینگ کا شکار بچوں کو  سکول سے خوف آنے لگتا ہے۔ ہر لمحہ بے عزتی یا مذاق اڑائے جانے کا خوف ان کی ہر صلاحیت ختم کردیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سکول انتظامیہ کی حیثیت سے پرنسپل اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ اول تو خود کسی بھی قسم کی بلئینگ سے گریز کریں۔ ایک ایسی کمیٹی بنائیں جو ایسے اساتذہ پہ مشتمل ہو جو بچوں کی نفسیات سمجھتے ہیں اور نرم مزاج رکھتے ہیں۔ بلئینگ کا شکار بچے کا مسئلہ سن کر سب سے پہلے ان بچوں کو الگ کیا جائے اگر ایک سیکشن میں ہیں تو سیٹس دور رکھی جائیں، یا سیکشن تبدیل کیا جائے، بلئینگ کرنے والے بچے کو سزا دینے کی بجائے یہ پتا چلانے کی کوشش کی جائے کہ وہ بچہ خود ایسے کونسے مسئلے کا شکار ہے جس کی بنیاد پہ وہ اس منفی عادت میں مبتلا ہوا۔ جہاں تک ممکن ہو اس بچے کی مدد کریں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply