توہم پرستی۔۔۔۔۔مختیار ملغانی

اس اصطلاح کیلئے یونانی و عبرانی زبانوں میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان کے مطالب بالترتیب، دھواں اور خود فریبی کے ہیں، گویا کہ توہم پرستی خود کو دھوکہ دینا، سراب کے پیچھے بھاگنا یا کسی ایسے وجود کو منبعُ یقین گرداننا جس کی حقیقت چھَٹتے دھوئیں سے زیادہ نہیں، کے مترادف ہے۔
اگر تمام نہیں تو بلامبالغہ انسانوں کی بھاری اکثریت کسی نہ کسی سطح پر توہم پرستی میں مبتلا نظر آتی ہے، یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس موضوع کا تعلق ماورائے طبیعات سے ایسا ہی ہے، جیسا کہ ایمان بالغیب کا، اگرچہ ان دو حقیقتوں کے درمیان تضاد بعد المشرقین واقع ہوا ہے، مگر ان دونوں کے تانے بانے مادّی فضا سے اوپر جاتے محسوس ہوتے ہیں۔
شاید یہ کہنا درست نہیں کہ توہم پرستی، مختلف مذاہب میں مکمل سرایت کئے ہوئے ہے، مگر اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ ایمان بالغیب کے دعویداروں کے قلوب ہی اس طائرِ منحوس کا نرم و گرم گھونسلہ واقع ہوئے ہیں ، جہاں یہ آسیب اپنے انڈوں بچوں سمیت پھل پھول رہا ہے، وہ الہامی علوم جن کے بنیادی مقاصد میں توہم پرستی و دیگر نفسیاتی الجھنوں سے انسان کو نجات دلانا تھا، انہی علوم کے پیروکار آج گردن تک اس دلدل میں دھنسے نظر آتے ہیں، اور واقع یہ ہے کہ جن “مفکرین و پیرانِ صالحین ” نے انسانوں کو اس دلدل میں دھکیلا، عام ذہن اسی کو ہی نجات دہندہ ، نہ صرف مانتا ہے بلکہ منوانے پر بضد ہے، گویا کہ،
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انسانی روح کا اپنے مرکز ، یعنی خالق، کی طرف جھکاؤ، بلکہ پرواز کہیئے، ایک فطری عمل ہے، اور اس اشتیاق کیلئے چراغِ راہ کا کام حقیقی الہامی تعلیمات و اخلاقیات دیتے ہیں، اگر یہ تعلیمات انسان تک اپنی اصل روح کے ساتھ نہیں پہنچیں، اور دوسری طرف اگر انسان کے قلب و شعور کو ابتدائی طور پر اس کیلئے تیار نہیں کیا گیا تو کچھ بعید نہیں کہ روحانی احساسات اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے، اپنی اپنی استطاعت و سمجھ کے مطابق ایک نئی روحانیت تشکیل دینا شروع کر دیں ، اور یہی توہم پرستی کا نقطۂ آغاز ہے، اس سے آگے پھر سماجی و تاریخی عوامل اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں رائج توہم پرستی مذہبی نوعیت کی ہے، دربار و مزار ہی اس کا حقیقی گڑھ ہیں، انسان کو اس حد تک ذہنی مفلوج بنا دیا گیا ہے کہ قبر پہ چادر چڑھانا، کسی ننگ دھڑنگ “درویش” سے دنیوی و اخروی خیر و برکت کیلئے رجوع کرنا، مخصوص دنوں میں کسی بزرگ کے نام پر خیرات کرنا وغیرہ جیسی خرافات روزمرہ مشاہدات میں سے ہیں۔ اور ایسا کرنے والے اپنے تئیں پُر یقین ہیں کہ یہ خرافات ہی ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہیں ۔یہ غالباً انسان کی تہذیبی تاریخ کا ورثہ ہے جو تب سے جاری ہے، جب کسی قبیلے کا سردار اپنے قبیلے کیلئے دیوتا کا درجہ رکھتا تھا، اسی لیے مذہبی و سیاسی گٹھ جوڑ کا نتیجہ عوام الناس کی ذہنی و جسمانی غلامی کی صورت پیدا ہوا، اور یہ آج تک جاری ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ وہی ہے، جیسا کہ عرض کیا گیا کہ، نہ تو الہامی تعلیمات کو ان کے اصل روپ میں پنپنے دیا گیا اور نہ ہی انسان کے قلب و شعور کو صحیح سمت دی گئی، مسلّط قوتوں نے اپنے مادّی فوائد کیلئے تخلیقِ کامل کو بد ترین شکل میں استعمال کیا، اندازہ کیجئے کہ اگر کسی معاشرے کے صرف ایک چوتھائی افراد بھی ایسی توہم پرستی میں مبتلا ہائے جاتے ہوں تو ، انجامِ گلستاں، کیا ہو گا، اور ہم اپنے معاشرے میں یہ دیکھ سکتے ہیں، یعنی کہ کم از کم ایک چوتھائی افراد اس معاشرے کی ظاہری و باطنی ترقی میں نہ صرف حصّہ نہیں ڈال رہے، بلکہ رکاوٹ ہیں۔
مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے، جو کہ سراسر منفی ہے، توہم پرستی کا ایک مثبت پہلو بھی ہے، کسی دانشور کا فرمان ہے کہ، غلط یقین کا رکھنا، یقین نہ رکھنے سے کہیں بہتر ہے، گاہے انسان اپنے لئے کچھ معیارات مقرّر کرتا ہے، کہ اگر وہ یوں کرے گا تو یہ کامیابی ملے گی، اگر اس رنگ کے کپڑے پہن کر نوکری کیلئے جائے گا تو مثبت جواب پائے گا، کسی مخصوص شخص کے چہرے کی زیارت سے صبح کا آغاز کرے گا تو دن اچھا گزرے گا، اسی طرح کچھ تعویز دھاگے وغیرہ بھی اسی کام کیلئے استعمال ہوتے ہیں ، یہ تمام حماقتیں انسان کو ظاہری اعتماد بخشتی ہیں، اس سے اعصاب پرسکون رہتے ہیں۔ نیند بھی اچھی آتی ہے، تندرستی بحال رہتی ہے، انسان بے یقینی کی اذیت سے دوچار نہیں رہتا، اور کامیابی و کامرانی کا کریڈٹ، مذکورہ خرافات کو دیتے ہوئے دنیاوی زندگی کا سفر جاری رکھتا ہے، گویا کہ یہ رویہ، چراغِ امید کیلئے تیل کا کام دیتا ہے، اور اگر ایسا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟
یہ نکتہ قارئین کیلئے دلچسپ ثابت ہوسکتا ہے، کہ توہم پرستی کا مثبت پہلو ایسے معاشروں میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں مذہب ایک انفرادی معاملہ ہے، یا معاشرہ سرّے سے لا مذہب ہے، اس کے برعکس مذہبی معاشرے میں توہم پرستی ایک ناسور ثابت ہوئی ہے، یعنی کہ اگر توہم پرستی کو مذہبی اور سیکولر حصوں میں تقسیم کیا جائے تو کم از کم دنیاوی طور پر سیکولر پہلو اتنا بھیانک نہیں جتنا کہ مذہبی۔ اگرچہ تیرہ کے ہندسے اور کالی بِلّی کے راستے کاٹنے کو نحوست جاننا اور اس پہ اعتقاد رکھنا، سیکولر ذہن کی دقیانوسیت کا اشارہ دے رہی ہیں۔
توہم پرستی کی دونوں اقسام کی کچھ طبّی و نفسیاتی توجیہات بھی ہیں، گاہے اس کے مثبت نتائج دیکھتے ہوئے انسان کا اعتقاد توہم پرستی پہ مزید بڑھتا ہے، بالخصوص صحت سے متعلق معاملات میں جہاں روایتی طریقۂ علاج ناکام ثابت ہو، یا انسان اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو مختلف پیروں و عاملوں سے رجوع کرنا معمول کی بات ہے، مشتاق یوسفی مرحوم نے لکھا تھا، کہ حیرانی کا پہلو یہ نہیں کہ ہمارے ہاں لوگ، خونی پیچش کا علاج تعویز گنڈوں سے کرتے ہیں، حیرانی اس بات کی ہے کہ وہ ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں، مزاح اپنی جگہ، مگر یہ حقائق ہیں جن کا ہم روزمرہ بنیادوں پر مشاہدہ کر سکتے ہیں، آج طب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کو اگر اس کی مشکلات یا صحت کی بابت نفسیاتی طور پر مطمئن کر دیا جائے تو انسانی دماغ ایک خاص قسم کے ہارمونز، endorphins, خارج کرتا ہے، جو انسانی جسم کیلئے مارفین کا کام دیتے ہیں، اور مختلف درد کی کیفیتوں میں کایا پلٹ ثابت ہو ئے ہیں، گویا کہ عقیدے کی قوت سے ، بیماریوں کے خلاف جسم میں موجود توانائیوں کو بیدار کیا جا سکتا ہے، یہاں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ مارکیٹ میں موجود بے شمار ادویات میٹھی گولیوں سے زیادہ کچھ نہیں، یہ نام نہاد ادویات صرف اسی صورت اثر کریں گی، اگر مریض عقیدہ رکھتا ہو کہ ان سے وہ صحت یاب ہو جائے گا، گویا کہ امید، باقاعدہ ایک حیاتیاتی کیمیا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
مگر یہ دنیاوی معاملات ہیں، بات جب ایمان باللہ جیسے سنجیدہ و اہم موضوع پر ہو تو، توہم پرستی ایک بھیانک مرضِ قلب و شعور گردانی جائے گی، کہ شرک و بت پرستی کی شروعات اسی ذہن سے ہو گی جو توہم پرستی کی طرف جھکاؤ رکھتا ہو گا۔
اگر حقیقی خدا کو جھٹلاتے ہوئے انسان کسی بھی دوسری ہستی پہ یقین رکھتا ہے تو ، بت پرستی، کی اصطلاح ایسے ہی شخص کیلئے استعمال ہوتی ہے، بت پرستی یا پرستشِ فطرت صرف خدا کا انکار نہیں، بلکہ یہ ایک فکر ہے، جو انسان کے سماجی و فکری شعور پر اثر انداز ہوتی ہے، انسان کی سوچ، اس کا نکتۂ نظر، اس کا طرزِ زندگی سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے، بت پرستی اور پرستشِ مظاہرِ فطرت ایک مکمل نفسیات ہے، جس میں آسودگی نفس و اطمینانِ ظاہری، روحانیت کا نعم البدل بن کے سامنے آئے ہیں، یہ نفسیات صرف ہندؤں میں نہیں، بلکہ نام نہاد مؤحد دائروں میں بھی اسی شدّت کے ساتھ موجود ہے۔
پرستشِ فطرت کی جڑواں بہن کو، جادُو، کہا جاتا ہے۔ جادو نام ہے اس سعی کا جس میں انسان باطنی دنیا کو اپنے تابع کرنا چاہتا ہے، یعنی کہ مجازی خدا ( شوہر نہیں ) بننے کی کوشش۔ ایسا شخص روحانی ہم کلامی کی بجائے روزمرہ امورِ زندگی میں اپنا اقتدار چاہتا ہے، فطرت و نوعِ انسانی کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے، حرص و نفسانی خواہشات روح پہ غالب آجاتی ہیں، انسان اپنی توانائیاں اس سمت میں صرف کرتے ہوئے مخصوص فوائد کی امید پالتا ہے، جس کے نتیجے میں، نفسیاتِ لین دین ، بالآخر غالب آجاتی ہے، ایک عام انسان اپنی عبادت کو اسی زاویے سے دیکھ اور پرکھ سکتا ہے، دوسرے الفاظ میں ہمارے معاشرے کا ایک عام مذہبی انسان، بالقوہ، غیر خدا کی پرستش کا جھکاؤ رکھتا ہے، کہ فلاں سرکار کی مہربانیوں کی بدولت اس کی والدہ روبصحت ہیں، اور یہ کیفیتِ شرک، در حقیقت توہم پرستی کے بیج سے پرورش پاتی رہی۔
عبادات کا تعلق جب کچھ پانے کے لالچ سے ہوگا تو ایسی عبادات صرف دکھاوا بن کے رہ جاتی ہیں، بڑی بڑی افطاریاں، علی الاعلان صدقہ جات و دیگر ایسے افعال درحقیت انسان کی اس نفسیات کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں کہ انسان سماجی برتری و وقار کا متلاشی ہے، اور ایسا ذہن اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود توہم پرست ہوگا کہ اسے یقین ہے کہ پچھلے سال داتا دربار پر خیرات کی گئی دیگ کی بدولت ہی اسے اولادِ نرینہ سے نوازا گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply