آسیہ بی بی کیس۔۔۔۔۔۔عظیم الرحمن عثمانی

١. ایک شخص توہین رسالت کرتا ہے اور یہ عمل وہ بار بار کرتا ہے. مختلف مواقع ایسے اتے ہیں جب مختلف لوگ اس کی اس توہین آمیز گفتگو کے گواہ ہیں. گویا اس کا مجرم ہونا متعدد واقعات سے واضح ہے.
٢. دوسرا شخص توہین رسالت کو اپنا مشن بنا لیتا ہے. وہ دیگر لوگوں کو بھی توہین پر ابھارتا ہے. توہین آمیز تقریر کرتا ہے یا توہین آمیز کتاب لکھتا ہے یا توہین آمیز خاکے بناتا ہے یا توہین آمیز بلاگ چلاتا ہے وغیرہ ہویا اس کا جرم زمانے بھر پر ثابت ہے.
٣. تیسرا شخص نے زندگی میں کبھی توہین رسالت نہیں کی ہوتی مگر کسی ایسی ہیجان انگیز لڑائی میں اکسانے پر وہ آگ بگولہ ہوکر گستاخ جملے بول جاتا ہے. مگر جب اسے توجہ دلائی جاتی ہے یا اس پر گرفت کی جاتی ہے تو وہ اپنے اس عمل پر نادم ہوتا ہے اور کھلے الفاظ میں کہتا ہے کہ یہ گستاخی وہ غصے میں کربیٹھا مگر درحقیقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل سے عزت کرتا ہے. دھیان رہے کہ باقی ساری زندگی ایک بار بھی اس نے کوئی گستاخ جملہ نہیں بولا تھا.
٤. چوتھا شخص فریاد کرتا ہے کہ مجھ پر ایک بار بھی گستاخی کرنے کا الزام غلط ہے. مجھے ہراساں کرکے اعتراف کروایا گیا. حقیقت میں یہ الزام فلاں دشمنی یا اسی دن ہوئے فلاں جھگڑے یا فلاں فائدے کے سبب اس پر لگایا گیا. ورنہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل سے عزت کرتا ہوں اور بحیثیت غیر مسلم میں اپنی مذہب کی مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بیان دینے کو تیار ہوں. میری پچھلی زندگی میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں بتایا جاسکتا جب میں نے کسی بھی قسم کی کوئی گستاخی کی ہو.
جذبات سے بالاتر ہو کر سوچیے کہ کیا یہ سب برابر کے مجرم ہیں؟ کیا اس کا امکان نہیں کہ تیسرا یا چوتھا شخص سچ کہہ رہا ہو ؟ اگر ہاں اس کا امکان ہے تو پھر فیصلہ کسے کرنا ہے؟ آپ نے؟ مولوی صاحب نے؟ الزام لگانے والے نے؟ یا پھر عدالت نے؟ اگر عدالت نے شواہد کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے تو بس مطمئن ہو جایئے. اب آپ کا کام ہو چکا. اگر شواہد کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے سابقہ فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے تو اب رب حساب اس عدالت و قاضی سے لے گا. اس قاضی کو روز جزاء ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے موجود شواہد و گواہی کی بنیاد پر ٹھیک انصاف کیا یا نہیں؟ آپ خدارا اسلام کے چیمپین بن کر نہ کھڑے ہوں. بالخصوص جب آپ نے اپنی آنکھوں سے واقعات، شواہد اور گواہیوں کو نہ دیکھ رکھا ہو. آسیہ بی بی نے جو بیان عدالت میں دیا وہ میں یہاں درج کررہا ہوں. ٹھنڈے دماغ سے پڑھیں اور سوچیں کہ اگر واقعی یہ سچ ہو ؟
“میں ایک شادی شدہ خاتون اور دو بچوں کی ماں ہوں. میرا خاوند ایک غریب مزدور ہے. میں محمد ادریس کے کھیتوں میں دیگر کئی خواتین کے ہمراہ روزانہ کی اجرت کے عوض فالسے چننے جایا کرتی تھی. مبینہ وقوعہ کے روز میں دیگر کئی خواتین کے ہمراہ کھیتوں میں کام کررہی تھی. مسمات مافیہہ مسمات اسماء بی بی (گواہان استغاثہ) کے ساتھ پانی بھر کے لانے پہ جھگڑا ہو گیا جو میں نے انہیں پیش کرنا چاہا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر منع کردیا چونکہ میں عیسائی ہوں اسلئے وہ کبھی بھی میرے ہاتھ سے پانی نہیں پیئے گی. اس بات پر میرے اور استغاثہ کے گواہان خواتین کے درمیان جھگڑا ہوا اور کچھ سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا. اس کے بعد استغاثہ کی گواہان نے قاری سلام سے مل کر سازش کے تحت میرے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ گھڑا. میں نے پولیس کو کہا کہ میں بائبل پر حلف اٹھانے کو تیار ہوں کہ میں کبھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق توہین آمیز الفاظ بیان نہیں کیئے. میں قران اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دل میں عزت اور احترام رکھتی ہوں لیکن چونکہ پولیس بھی شکایت گزار سے ملی ہوئی تھی. اسلئے پولیس نے مجھے اس مقدمے میں غلط توڑ پر پھنسایا. استغاثہ کے گواہان سگی بہنیں ہیں اور اس مقدمے میں مجھے بدنیتی سے پھنسانے میں دلچسپی رکھتی ہیں. کیونکہ ان دونوں کو میرے ساتھ جھگڑے اور سخت الفاظ کے تبادلے کی وجہ سے بے عزتی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا. قاری سلام /شکایت گزار بھی مقدمے میں اپنا مفاد رکھتا ہے کیونکہ یہ دونوں خواتین اسکی زوجہ سے قران پڑھتی رہی ہیں. میرے آباء و اجداد اس گاؤں میں قیام پاکستان سے رہائش پذیر ہیں. میں بھی تقریباً چالیس برس کی ہوں. وقوعے سے پہلے ہمارے خلاف کبھی بھی اس قسم کی کوئی شکایت نہیں کی گئی. میں عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں اور گاؤں میں رہتی ہوں لہٰذا اسلامی تعلیمات سے نابلد ہونے کی وجہ سے میں کیسے اللہ کے نبی صلی اللہ الیہ وسلم اور الہامی کتاب یانی قران پاک کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئے بے ادبی کی مرتکب ہوسکتی ہوں؟ استغاثہ کا گواہ ادریس بھی ایسا گواہ ہے جو مقدمے میں اپنا مفاد رکھتا ہے کیونکہ اس کا متذکرہ بالا خواتین سے قریبی تعلق ہے.”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply