کیا اگلا آرمی چیف قادیانی ہو گا

ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی کئی ایک پالیسیوں کے ساتھ اختلاف رکھنے کے باوجود ہمیں اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ملک کا مضبوط ترین اور منظم ادارہ پاکستان آرمی ہے۔ پاکستان آرمی کی صلاحیتوں اور قربانیوں کا انکار کرنا انگلی کے پیچھے سورج کو چھپانے کے مترادف ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کے عوام اپنی فوج کے پیچھے کھڑے رہے ہیں۔ عوام کا آرمی کے ساتھ تعلق اور محبت ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن تین بار ملک میں مارشل لاء لگانے اور سات سمندر پار سے آنے والی ایک فون کال پر ڈھیر ہو جانے کے بعد اس تعلق میں دراڑ پڑ گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز کیانی اور موجودہ چیف جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت کے دوران میں اس بات کی بھرپور کوشش کی ہے کہ فوج پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ میرے خیال میں دونوں آرمی چیفس اپنی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔جو کہ خوش آئند بات ہے۔

اس وقت چونکہ راحیل شریف نے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دی ہیں تو ہر عام و خاص کی دلچسپی اس امر میں ہے کہ آنے والا چیف کون ہو گا۔ چند روز پہلے تک یہی لوگ راحیل شریف جائیں گے یا رکیں گے، ایکسٹنشن ملے گی یا فیلڈ مارشل بنا دیا جائے گاکی الجھی ہوئی گرہ کو سلجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ خدا خدا کر کے یہ بحث اس وقت ختم ہوئی جب آئی ایس پی آر نے خبر دی کہ راحیل شریف نے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ جس کے بعد بحث کا رخ سے اس نکتے کی طرف مڑ گیا ہے کہ نئے چیف کا قرعہ فال کس کے نام نکلے گا۔ سینیارٹی لسٹ میں موجود چاروں جرنیلوں کی تعلیم، تجربے، مہارت اور صلاحیت پر رپورٹس، بیپس اور بریکنگ نیوز کا سلسلہ جاری ہو گیا تھا۔ لیکن پھر اچانک کسی طرف سے کہا گیا کہ آنے والا چیف قادیانی ہے۔اور قادیانی چونکہ غدار وطن اور ملک دشمن ہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ملک کو غیر محفوظ ہاتھوں میں جانے سے بچائے۔ خدا جانے کس کمبخت نے یہ ہوائی اڑائی ہے لیکن جب ہوائی اڑی ہے تو یقیناًاس کے پیچھے کچھ عوامل کارفرما ہوں گے۔ آئیے چند ممکنہ عوامل کا جائزہ لیتے ہیں۔

پہلی بات، قادیانی آئین پاکستان کی رو سے غیر مسلم ہیں۔ لیکن آئین پاکستان میں کہیں نہیں لکھا کہ پاکستان میں بسنے والے غیر مسلم ملک دشمن اور غدار ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مسیحی، سکھ، ہندو اور دیگر غیر مسلم بھی ملک دشمن اور غدار قرار پاتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قادیانی گھر میں پیدا ہونا اور اس قادیانی خاندان کا پاکستانی ہونا شریعت، قانون، سماج اور انصاف کے کس ضابطے کی رو سے غدار یا ملک دشمن ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ؟ خدانخواستہ اگر ایک خاندان کے دیگر افراد غدار تھے یاہیں تب بھی ان کی اولاداور رشتہ داروں کو ملک دشمن یا غدار ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے؟

دوسری بات، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا تو مذہب کا معاملہ تھا اور مذہب نے اپنی اس قانونی اور جمہوری جدوجہد کو کامیابی سے انجام تک پہنچا دیا ہے جس کے بعد انہیں بحیثیت پاکستانی کسی بھی مثبت سرگرمی میں شامل ہونے سے روکنا مذہب کی کونسی خدمت ہے؟ خاص طور پر یہ سوال اس مذہب کے پیروکاروں سے ہے جو اعلانیہ دشمنوں کے ساتھ بھی میدان جنگ کے علاوہ ہر موقع پر امن، سلامتی اور رواداری کے ساتھ رہنے کا درس دیتا ہے۔ مانا کہ رسالت مآب ﷺ کی محبت اور ختم نبوت کے عقیدے کا تقاضا یہی ہے کہ جو انہیں نبی آخر الزمانﷺ نہ مانے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن اس سے یہ نکتہ کشید کرنا تو سراسر زیادتی ہے کہ جو لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہوں ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔ تاریخ اسلام اور عقائد کی دسیوں کتابیں چھاننے کے بعد بھی ہمیں ایسی کوئی ایک مثال نہیں ملتی جس سے ثابت ہو کہ مسلمانوں نے مخصوص عقائد کے لوگوں سے جینے کا حق چھینا ہو یا انہیں مسلسل دیوار سے لگایا گیا ہو۔ بلکہ اسلامی تعلیمات تو یہ کہتی ہیں کہ جو جتنا دور ہے اس کے ساتھ زیادہ اچھا اور روادارانہ تعامل رکھا جائے تاکہ وہ اسلام کی حقانیت اور وسعت ظرفی سے متاثر ہو کر اسے قبول کرنے پر آمادہ ہو سکے۔ نامور مسلمان مفکرین لکھتے ہیں کہ قرآن تمام انسانیت کی کتاب ہے، اس کی تعلیمات آفاقی ہیں اس لیے کسی بھی درجے میں مسلمان معاشرے کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی خاص گروہ کا سوشل بائیکاٹ کرے یا اسے نفرت کا استعارہ بنا کر دیوار سے لگانے کی کوشش کرے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ مسلمانوں سے متنفر ہو گا۔ مسلمانوں سے متنفر ہوا تو مسلمانوں کی کتاب قرآن سے دور ہو گا اور قرآن سے دور ہوا تو حق تک نہیں پہنچ پائے گا۔اور جو مسلمان معاشرہ کسی ایک فرد یا گروہ اور اللہ کی کتاب قرآن کے درمیان آڑ بنے گا وہ کتمان حق کا مجرم ہو گا اور کتمان حق کے مجرم کے لیے حدیث نبویﷺ میں جو وعیدیں آئی ہیں ان کا تصور کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔

تیسری اور سب سے اہم بات، آرمی چیف کی کرسی عصائے موسی(ع) کے جیسی کوئی معجزانہ شے تو ہے نہیں کہ جونہی گوشت پوست کا ایک انسان اس پر براجمان ہوتا ہے تواسے دیومالائی قوتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ جن کے سہارے وہ جی ایچ کیو میں بیٹھ کر پاکستان کی تمام جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی نگرانی کرنے کے قابل ہو جاتا ہے بلکہ ڈی جی آئی ایس آئی، کور کمانڈرز اور دیگر فور سٹارز جنرلز مل کر ہی ایک آرمی چیف کی آنکھیں، کان اور دماغ بنتے ہیں جن کے ذریعے وہ سنتے، دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آرمی چیف تو انہی جنرلز میں سے کوئی ایک ہو گا یا کم از کم اسی ادارے کا حصہ تو ضرور ہو گا جو اگر آپ کی گرمجوشی دیکھ کر آرمی چیف کی سیٹ تک نہ بھی پہنچا تو اسی ادارے کا حصہ رہے گا جس کے ذمے ملک کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔ ایسے میں جب آپ یہ واویلا کرتے ہیں کہ ملک دشمن قادیانی کو آرمی چیف بننے نہیں دیں گے تو آپ براہ راست پاک فوج کی صلاحیت کو نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں۔ آپ کا واویلا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فوج کے درمیان وہ لوگ بھی موجود ہیں بلکہ نا صرف موجود ہیں بلکہ ترقی کرتے کرتے فور سٹار جنرل کے عہدے تک پہنچ چکے ہیں جو بقول آپ کے ملک دشمن اور غدار وطن ہیں۔ کیا آپ بحالت ہوش و حواس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدانخواستہ وطن عزیز پاکستان کی حفاظت اس ادارے کے ذمہ ہے جس کی اپنی صفوں میں ملک دشمن اور غدار وطن بیٹھے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

ایک بار سوچیے گا ضرور کہ آپ کی چیخ و پکار سماج دوست ہے یا سماج دشمن۔۔ مذہبی تعلیمات کے مطابق ہے یا اس کے مخالف۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ ان عناصر کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں جو آپ کو تقسیم در تقسیم کے حوالے کر کے نفرتوں کا پیامبر بنا رہے ہیں۔ ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ مذہب کے نام پر طبقاتی تقسیم اور فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں۔ ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف کی ان تمام کوششوں پر پانی پھیرنے کے کام آ رہے ہیں جن کے توسط سے وہ عوام اور فوج کے مابین ٹوٹا اعتماد بحال کرنے اور فوج کا وقار بلند کرنے میں لگے رہے؟۔۔ ایک بارہی سہی مگر سوچیے گا ضرور۔۔۔

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply