بھڑوے ۔۔اظہر سید

بھڑوے مطلب دنیا کی طلب میں ضمیر فروشی کرنا ۔ بھلے کوئی بے بس اور مجبور جسم فروش عورتوں کا بھڑوا ہو یا قانون اور انصاف کے ساتھ اپنا قلم فروخت کرنے والا دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ،بس کپڑے دونوں کے مختلیف ہیں ،اصل دونوں کی ایک ہے یعنی دلال ۔

جن لوگوں نے ریاست کا عدل اور انصاف یرغمال بنایا وہ بڑے بھڑوے اور جو ان کے ہاتھوں میں استعمال ہوئے وہ ان سے بھی بڑے بھڑوے ۔آج پاکستان دنیا کی قوموں میں حقیر ریاست ہے ۔بھڑووں نے اپنے بچوں کے سنہری مستقبل کیلئے پاکستانی عوام کو یرغمال بنا کر ان کا مستقبل تاریک کر دیا ہے ۔

جنرل ضیا الحق مر کھپ گیا لیکن اسکی بنائی گئی ایم کیو ایم کی وجہ سے تیس سال کے دوران کتنے بے بس پاکستانی قتل ہوئے اس کا حساب پاک ہو گیا ہے ۔جنرل ایوب عام سا جنرل خود ساختہ فیلڈ مارشل تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا اسکی تیسری نسل آج تک فیلڈ مارشل کی کمائی کھا رہی ہے ۔

ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والا جنرل ضیا الحق عوام کو نماز کی ٹوپی پہناتا تھا لیکن سوویت یونین کے خلاف اسرائیل سے بھی اسلحہ لیتا تھا ۔یہود و نصار کو اہل کتاب بنا کر سوویت یونین کے خلاف استمال کرنے والا یہ جنرل ملک کو مذہبی انتہا پسندی کی ایسی دلدل میں دھکیل گیا ہے کہ ابھی تین روز پہلے برطانیہ نے جنوبی ایشیا کے جس ملک کو مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کیلئے منی لانڈرنگ کیلئے خطرناک ملکوں میں شامل کیا ہے وہ پاکستان ہے ۔

ہمیں لگتا ہے کہ آصف علی زرداری نے عقلمندوں کو دھوپی پٹکا دیا ہے اس لئے پیپلز پارٹی سے امیدیں ختم کر کے تحریک لبیک کے غبارے میں ہوا بھری جا رہی ہے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جب مولوی افضل قادری اور خادم حسین نے چند ماہ قبل آنکھیں دکھائیں تو ریاست کے حرکت میں آنے سے تحریک لبیک کے ملک بھر کے راہنما اور کارکن اخباری اشتہارات کے  ذریعے احتجاج سے لاتعلقی ظاہر کرنے لگے ۔مولوی افضل قادری کی ریاستی تحویل میں ایسی مدارت ہوئی کہ اس نے سیاست چھوڑنے کا ہی اعلان کر دیا ۔

اب یکایک کیا ہوا پنجاب بھر کی شاہرائیں ایک گھنٹے میں بند ہو گئیں اور ریاست اپنی رٹ نہیں منوا سکی ۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ فوجی ٹرک سے کیسے ایک باوردی احتجاجیوں کے حق میں نعرہ بازی کر سکتا ہے ۔

ذمہ داران کو شہباز شریف نے مایوس کیا ۔عقلمندوں کو پیپلز پارٹی نے واپسی کے محفوظ راستے اور سوغات ایسے کمبل سے جان چھڑانے کا چکمہ دیا اور ن لیگ یا پی ڈی ایم کا شوکاز نوٹس پھاڑ کر “ہم وفادار ہیں”کا اشارہ دیا لیکن جہانگیر ترین کے شو  آف پاور کے باوجود اسکی کشتی میں سوار ہونے میں بہانے بنانے شروع کر دئے تو پھر مولوی خادم حسین کا بالکا میدان میں کیوں نہ آئے ۔

پی ڈی ایم نے نہ استعفے دینا تھے اور نہ لانگ مارچ کرنا تھا ۔ کائیاں سیاستدان مل کر چکر دے رہے تھے ۔ لانگ مارچ سے عین پہلے پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے بے وفائی ایک سوچی سمجھی سازش تھی جو سو فیصد کامیاب ہو گئی ۔

لانگ مارچ کا حتمی نتیجہ یا مارشل لا تھا یا پھر قہر ناک ریاستی طاقت کا استعمال ۔لانگ مارچ ملتوی کر کے اور ایک جماعت کی طرف سے پی ڈی ایم سے بے وفائی کی چکر بازی سے مارشل لا کا راستہ روک دیا گیا ۔ ریاست کو طاقت کے استعمال سے روک دیا گیا ۔ خدائی تحفہ یعنی سوغات کی وزارت عظمی کو تحفظ دیا گیا اور اب سارے دل ہی دل میں ہنستے ہوئے عقلمندوں کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں ۔

ہم سمجھتے ہیں اپوزیشن سیاستدان بلی چوہے کا کھیل کھیل رہے ہیں اور سوغات کی حکومت ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ۔جو سیاستدان اس وقت ریاست پر غیر آئینی طور پر قابض قوت کو زچ کر رہے ہیں حقیقت میں بیشتر خود بھی اسی قوت کے ہاتھوں بھڑوے بنے رہے ہیں ۔ سیاستدانوں کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں اس لئے اب انہیں سنہری موقع ہاتھ لگا ہے کہ وہ حالات کے جبر کا شکار ریاست پر قابض قوتوں کو پیچھے دھکیل دیں ۔غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر ریاست پر قابض قوتوں نے ریاست پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کیلئے بھڑوا گیری کو فروغ دیا اور تحفظ بھی فراہم کیا ۔ بھڑوا گیری کو تحفظ اور فروغ دینے کے اس عمل نے ریاست کی بنیادیں ہلا دی ہیں ۔ بھڑوا گیری کے اس دور میں معاشرہ کا آئینہ میڈیا سچ کی بجائے جھوٹ کو فروغ دے رہا ہے ۔ عدالتیں عوامی سیاستدانوں کو تنقید کرنے پر ملک چھوڑنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھڑوا گیری کو تحفظ اور فروغ دینے کے اس سلسلہ نے ملک کو معاشی طور پر دیوالیہ کر دیا ہے ۔ عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط سے غربت،بھوک اور بے روزگاری انقلاب کی فصل کیلئے دھوپ ،پانی اور سورج کی روشنی ایسا کام کر رہی ہے ۔راستہ کوئی بھی باقی نہیں بچا یا تو پسپائی کی آپشن لینا ہو گی یا پھر انقلاب کی فصل کٹنے کا انتظار کرنا ہو گا ۔
مریم نواز یا مولانا فضل الرحمن اگر اپوزیشن میں اختلافات کے بہانے کنارے ہو کر بیٹھ گئے ہیں اصل میں وہ حالات کا ادراک کر چکے ہیں اور وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ سوغات کو جیسے مرضی نکالو ہم تو فصل کٹنے کے منتظر ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply