• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ : ششم)۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ : ششم)۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

افغانستان :روایت و جدیدیت کی کشمکش

افغان ریاست و سماج کی جدت کاری کی مہم :

ہم اس امر کا اندازہ بخوبی قائم کرسکتے ہیں کہ بیسویں صدی کے اواخر سے اکیسویں صدی کے وسط تک جدیدیتِ فکر و عمل کی لہر  مسلم دنیا میں اپنی جگہ بنارہی تھی،جدیدیت کی لہر  کے دائرے مسلسل بڑھتے گھٹتے رہتے تھے، مسلم فکر و عقائد کے درون خانہ اختلاف نے اس کی پرتوں کو بالکل پیاز کے چھلکوں کی پرت کی مانند شبیہہ دے دی تھی، چنانچہ انکی مختلف اقسام و نوادرات ِ فکر انکے محرک افراد کے میلانات و رجحانات اور افتاد طبع کے سبب پائی    جاتی تھیں۔

مسلم معاشرت (سوسائیٹل اٹیٹیوڈ ) کے سامنے روایت پسند قدیم موقف اور جدید عصری خواہشوں کی طرف لوگوں کے میلانات و رجحانات نے  فکری مسائل لا کھڑے کردیے تھے،مسلم سماجوں کے مقامی فرق  نے  جدیدیت کی قبولیت کے ضمن میں قبولیت کی  اہلیت کے  کھاتے میں نئے سوالات پیدا کردیے تھے ۔

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کچھ کی جدیدیت بس لباس کی تبدیلی اور زبان کی تبدیلی کا نام تھا،تو کچھ کو جدیدیت ہر شئے  میں مطلوب و مقصود نظر آیا کرتی  تھی،کچھ کو جزوی جدیدیت بھی کام کی شئے  لگتی تھی،کچھ کو مذہب ہر جدیدیت کی اصل  محرک  کُل کے طور پر دکھتا  مفاہمتی موقف دکھتا تھا،کوئی مردوں کو جدید بنانا چاہتا تھا مگر عورتوں کو پردہ کی دیوار میں ہی رکھنا چاہتا تھا(جیسے سید احمد خان )کسی کی نگاہ میں امیروں کو جدیدیت کا حق حاصل تھا(سید صاحب) اور  عام طور سے غریبوں کو حسرت بھری نگاہوں سے سرد آہ بھر کر کدال زمین  پر مار کر سرمایہ کار سے اپنے  پسینے  کے حق کا مطالبہ  کرنا محبوب لگتا تھا،اس ضمن میں  انکا ماننا تھا کہ پسینے  کا یہ حق تجارتی مصنوعات میں اصل منافع پیدا کرنے کا اہم وحقیقی  عنصر کا درجہ رکھتا  ہے، (بورژوا کے خلاف پرولتاریوں کے اولین رجحانات )۔

جبکہ  قدیم رجحان کے علاقوں کے جدت پسند حکمران سیاست میں کسی کی شرکت کے سرے سے قائل نہیں  تھے یہاں وہ قدیم موقف میں جزوی تبدیلی کو ہی اپنے مفاد میں عمدہ تصور کیا کرتے تھے،مگر ساتھ ساتھ وہ جدید دنیا کا حصہ بننے کے لئے  بھی اشتیاق مند  ہوا کرتے تھے چنانچہ انہوں نے ،اس ضمن میں ظاہری  معروضیت کو اپنی جدت کاری کا شاہکار بنا کر پیش کرنا چاہا، لہذا انہوں نے ثقافتی جدت کو ہی فکری جدت پر زیادہ ترجیح دی  تھی چنانچہ سیاسی و ثقافتی جدیدیت کو چابی بنا کر معاشرے کی تبدیلی لانے کا خواب دیکھنے والوں میں رضا شاہ پہلوی،امان اللہ اور اتا ترک نمایاں نام تھے اور ان سب کا استاد اس ضمن میں اتا ترک تھا۔

اتا ترک فری میسنز اور مسلم قوم پرستی کی  عالمی لہر:

جسکی بابت جدید تحقیقات یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ وہ باقاعدہ فری میسنز جیسی سامراج بدل جدیدیت پھیلاؤ  عالمی خفیہ تنظیم کا نا صرف بالذات  رکن تھا بلکہ   انکے لاجز کا باقاعدہ  ممبر تھا،ایک موقف یہ بھی ملتا ہے کہ ان لاجز نے ہی اسکو انگریزوں اور فرانسیسیوں کے خلاف کامیاب کروایا تھا اور ساتھ ان سے معاملات حل کرائے تھے۔ بلکہ بیسویں صدی کے  اواخر سے پہلی جنگ عظیم کے بعد تک ترک قوم پرستی چلانے والے قوم پرست افراد(ینگ ٹرکس) کا بھی اس  تنظیم سے خفیہ تعلق تحقیقات نے بیان کیا ہے، بیسویں صدی کے وسط سے ادب تک فری میسنز کے تذکرے اُبھر آئے تھے،تھیوڈور ہزرل کی صیہونیت سرمایہ داری نظام کی حامل ریاستوں میں قبولیت عامہ حاصل کر رہی تھی، یہاں  تک کہ ٹالسٹائی کو ابھی روس میں اس ضمن میں بہت  کچھ زیر ِ زمین  نمودار ہونے کا بخوبی ادراک حاصل تھا بہرحال قصہ کوتاہ جدید مسلم دنیا کی ترک قوم پرستی  بعد ازاں مسلم دنیا کو لسانی و نسلی بنیاد پر جدید ریاست کا سبق سکھانے والا پہلا تصورکار بن گئی   تھی،اسی دوران یہ دعویٰ  سامنے آیا کہ صیہونی دانشمندوں کی کوئی مدون تحریریں آشکار ہوئی ہیں جن میں انکے مستقبل کے عالمی نمونے ملتے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ یہودیوں نے ان تحریروں کی بابت الزام کو خاص اہمیت دینے کی جگہ کام   دن رات کرینگے ،ہم نے کام کے موقف کو زیادہ اہمیت دی اور انکے مخالفین نے بس الزام لگانے کی نشستوں و تحریروں کے علاوہ عملی سدِباب کے ضمن میں کچھ نہیں کیا ہے،لیکن  یہ ضرور واضح ہے کہ مسلم اُمت میں امت یا امہ کا تصور کمزور ہوتا گیا اور قوم پرستی کی عصبیت پروان چڑھتی گئی،جس نے تاحال ایک قومی محاذ آرائی کو جگہ دی ہے ۔

ہم جانچتے ہیں کہ ترک قوم پرستی کی تقلید میں جو شاخ مسلم قلب میں پھوٹی وہ شاخ عرب قوم پرستی کی تھی اور جس کی تنظیمی باقیات آج ہم میں عرب لیگ یا افریقن لیگ  کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہیں، یہی عرب قوم پرستی بعد ازاں شریف مکہ کے مکوی دور امارت میں  خود ترکوں کے گلے پڑگئی تھی،لہذا وہابیت کے مخالفین یہاں ایک سنگین تاریخی گمراہی اور تعصب کا مظاہرہ کرتے دکھتے  ہیں کیونکہ وہ ترکوں سے جنگ عظیم اوّل کے دوران لڑنے مرنے والا آل سعود کو تصور کرتے ہیں،حالانکہ محمد بن عبدالوہاب اور اہل سعود کا جد امجد انیسویں صدی کےاختتام تک وفات پاچکے تھے،جس وقت پہلی جنگ عظیم چھڑی اس دوران شریف مکہ جو برائے نام عثمانی عامل مکہ ہوا کرتے تھے حجازپر قابض تھے،جن کی باقیات آج اردن کے شاہی خاندان کے روپ میں ملتی ہیں  ،ویسے بھی  آل عثمان کی مسلم علاقوں  پر گرفت دو صدی قبل ہی ڈھیلی پڑنا شروع ہوچکی تھی، اور انکی حقیقی حکمرانی بس موجودہ ترک علاقوں،طرابلس ،کچھ افریقی مقبوضات اور ملحقہ علاقوں تک محدود ہوچکی تھی،وہاں کے گورنر یا عاملین حکومت حقیقی معنوں میں بہت حد تک آزاد و خودمختار  ہوا کرتے تھے،مگر نسبت عثمانی سلطنت کی طرف کیا کرتے تھے،انکی جانب سے مرکزی مالیات میں رقوم کی ترسیل بہت  محدود و مقید ہوچکی تھی،جس کے سبب عثمانی سلطنت شدید مالی بحران کا شکار رہتی تھی اور اسے اکثر و بیشتر یہودی ساہوکاروں سے سودی قرض لینے پڑتے تھے۔

چنانچہ  آل سعود کے مذہبی مخالفین یہاں  ہاشمی النسل شریف مکہ اور آل سعود کو ایک ایک قرار دیکر وہابیوں کو عثمانیوں سے غداری کرنے والا قرار دیتے ہیں،یہاں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے  کہ لارنس آف عریبیہ اور برطانیہ نے شریف مکہ  سے اپنے سازشی معاملات مقامی نسلی حکومت کے قیام کے ضمن میں  طے کئے تھے اور وہی انکے بعد امارت پر فائض ہوئے تھے، جسے بعد ازاں نجد کے آل سعود نے شریف مکہ کو شکست دیکر ان سے عرب چھینا تھا ناکہ عثمانیوں سے جن کی خلافت کا خاتمہ ۱۹۲۴ تک خود اتا ترک کرچکا تھا اور اور جن کو ۱۹۱۸ تک اتحادی قوتیں شکست فاش سے دوچار کرچکی تھیں  ان سے براہ راست کچھ چھینا تھا ،وہ عثمانیوں کے دور کی تصویر کشی سب اچھا اور عمدہ کے طور پر کرتے دکھتے ہیں جبکہ  جو بذاتِ خود  گزشتہ دوسو سال سے اتنے بے بس و لاچار تھے کہ،حقیقی معنی میں  انکی موجودگی میں ہی مصر،شام و عرب کے بیشتر امراء  خودمختار ہوچکے تھے،ان پر عثمانی اقتدار بس رسمی و خام حالت میں ہی موجود ملا کرتا  تھا، اس ضمن میں صدیوں سے چلی آرہی تورانی فارسی قوم پرستی اور ان سے متعلقہ داستانوں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے،ادب کے محققین نے اس ضمن میں  رومی و سعدی کے قصص و حکایات سے بہت  کچھ اخذ کیا ہے اور شعوبیت کی ایرانی تحریک کی قدامت پر بھی روشنی ڈالی ہے، بہت حد تک خلدون کا تصور عصبیت بھی اس ضمن  میں کسی بھی قسم کی عصبی قوم پرستی کی اہمیت  کو اجاگر کرنے میں بخوبی ہماری عمدگی سے مدد کرتا دکھتا ہے۔

خیر ینگ ٹرکس کو اس  بحث سے  شاید کچھ   خاص  لینا دینا نہیں تھا کیونکہ وہ گزشتہ آخری دو سو سالوں سے کمزور و لاچار نام نہاد خلفا ء اور انکی خلافت سے نجات حاصل کرنا چاہ رہے تھے،ویسے بھی اپنی سلطنت کے زوال سے قبل کبھی ترکوں کو فنی و عملی طور خلیفہ باور نہیں کیا جاتا تھا اور نہ  وہ اس لقبِ خلیفہ  کو عام طور پر بروئے کار لاتے تھے،اس ضمن میں اشتیاق حسین قریشی سمیت کئی محقق مورخین نے کافی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ کب عثمانیوں نے عملی طور پر سلطان کے لقب و خطاب کی جگہ اس سابقہ کو استعمال کرنا شروع کیا تھا،یہ بڑی علمی گمراہی کی روش ہے کہ موجودہ ترک ریاست  تاریخی ڈراموں میں ادب کی آمیزش کرکے  مسلم اور مقامی نسلی قوم پرستی کی ملغوبہ کھچڑی پانچوی نسلی حربی حکمت عملی(ففتھ جنریشن وار ) کے طریقہ کار سے عوام کے ذہنوں میں منتقل کررہی ہے۔

ترکوں کے آخری دور میں کچھ خلفا نے اسلامی سلطنت کے تحفظ اور حریت اسلامی کے نوادرات اپنی ذات وکردار سے دکھانے کی کوشش کی تھی جن میں سلطان عبدالحمید خاص الخاص ہیں مگر انکا حال اگر چہ بہت حد تک بہادر شاہ ثانی جیسا کمزور و لاچار حکمران جیسا تو نہیں تھا مگر خود اپنوں کی سازشوں اور اکیلے فرد کی آواز کے  تناظر میں اتنا اچھا بھی نہیں تھا جیسا ڈرامہ سلطان عبدالحمید میں دکھایا گیا ہے،لہذا سیاسی سطح پر قدامت پرست اور جدت پرست سیاسی مواقفات کا تصادم جاری و ساری تھا،جس میں عبوری دور کے لئے کمال اتا ترک اور رضا شاہ پہلوی کامیاب رہے مگر آخر کار دونوں کی جدت پسند اصلاحات کو اگر چہ سیاسی سطح پر تو پسپائی اختیار کرنی پڑی مگر   انکے ادوار مابعد ہم دیکھتے ہیں کہ بہت کچھ  وہاں کے باشندوں کو  اتنا  جدت پسند ضرور کرواچکے تھے کہ آج تک انکے ادوار کے اثرات سیاسی رجعت  کاری و اسلام کاری  کے باوجود وہاں کے سیاسی و سماجی ڈھانچوں پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

افغانستان میں امان اللہ کا عروج:

انکے مقابل افغانستان میں قدامت پسند سماج اور قبائلی  معاشرت نے کبھی جدیدیت کو ایک محدود اور عبوری تجربہ سے زائد تخیل بننے نہیں دیا  تھا چنانچہ  امیر امان اللہ نے جہاں سیاسی خودمختاری حاصل کرکے نام کمایا تھا  وہیں اس نے اپنے نو پیدا کردہ  نام کو  ثقافتی ،نظریاتی اور تعلیمی موڑ پر ضائع کردیا تھا،اگر چہ اس نے خود کو فرد واحد اور ماخذِ حق و باطل جان کر جو کھیل کھیلے اسکے نتائج اسکو مابعد برداشت کرنے پڑے تھے۔

امیر امان اللہ نے جس طرح تخت حاصل کیا تھاجیسے وہ اپنے بڑے بھائی اور چچا کو ہٹا کر حکمران بنا تھا ،جس طرح اس نے امن کے نام پر تخت قربان   کرنے والے چچا کے احسان کا صلہ اسکو قید و بند کی صورت میں دیا تھا ،جس طرح اسکے باپ کی موت  واقع ہوئی  تھی اور جیسے تحقیقات کے نام پر سارا نزلہ تخت سے دستبردار ہونے والے چچا پر نازل کیا  تھا اس نے درون خانہ چہ مگوئیوں کو پروان چڑھایا تھا اور ،لوگوں میں یہ  بات مشہور تھی کہ شجاع اللہ نامی جس فرد   نے امیر حبیب اللہ کو ہلاک کیا  تھا اور جو انکے ساتھ ہی اس خیمہ میں رات کو موجود تھا ،اس نے یہ کام امان اللہ کے کہنے پر کیا تھا ،اس بات میں کتنی صداقت ہے ہم اس بابت زیادہ کچھ کہنے اور قطعی رائے قائم کرنے کی حالت میں نہیں ہیں،مگر قرائین سے معلوم پڑتا ہے کہ  اس افواہ میں کچھ نا کچھ صداقت کے امکانات محسوس ہوتے ہیں۔

نصراللہ خان کی بابت بیان کیا جاتا ہے کہ اسے خود امیر حبیب اللہ نے اپنا جانشین قرار دیا تھا،اور جب امیر حبیب کی وفات کے بعد اس نے امیر حبیب کے بڑے بیٹے عنایت اللہ  کے حق میں دستبردار ہونا چاہا تو اس کے بڑے بھتیجے   نے اسکو  اپنی   جگہ حکمران تسلیم کرلیا تھا،جبکہ اسکے مقابل امان اللہ اسکی پہلی بیوی سے تیسرا بیٹا  تھا جو اس دوران کابل کا گورنر (نگران) تھا۔چنانچہ اگر اس نے امیر امان کے الزام کے بموجب دو دفعہ حکومت چھوڑی اور اسکے حق میں بھی دستبردار ہوگیا تو کس سبب اس پر اور ایک فوجی افسر پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے قتل کی سازش تیار کی تھی  اور انکے اس ضمن میں کیا سیاسی مقاصد تھے ،چونکہ تخت کی اشتہا تو انہوں نے مابعد ظاہر نہیں کی تھی یہ فائدہ خود امان اللہ کو حاصل ہوا تو ان پر الزام کس بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا، کیا خود سازش سے بچانے کی یہ کوئی عمدہ کوشش تھی ؟یہ امر تحقیق کا محتاج ہے۔

بہرحال اتنا طے ہے کہ جن ڈرامائی بنیادوں پر امیر حبیب کی موت ہوئی اور جس آسانی سے یہ سب ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہوئے وہ بہت حد تک افغان سیاسی روش کے خلاف صورتحال تھی،اور جس آسانی سے بلاجنگ امیر امان اللہ نےتخت حاصل کیا تھا اور بعد ازاں جس طرح  اس نے مستقبل کے خطرے  کے محرک اپنے چچا کو فارغ کیا  تھا،اس پیچیدہ معاملے   نے اسکے خلاف بد اطمینانی کی فضا کو رواج دیا تھا۔

امان اللہ کی عدم بصیرت:

مگر انگریزوں کے خلاف جنگ اور افغان ریاست کی ابتداء  اور آزادی نے اس کو لوگوں کی نگاہ میں  دوبارہ ایک  خاص مقام دلوادیا تھا ،چنانچہ اس نے یہ محسوس کیا کہ وہ اتاترک کی طرح اپنی عوام کا ہر دلعزیز قسم کا رہنما ہے،اور لوگ اسکے ہر حکم ،اصلاح اور تبدیلی کے نعروں پر آمناً و صدقناً کہتے ہوئے اسکے کندھے سے کندھا ملا کر مارچ پاسٹ شروع کردینگے،اس نے امر میں قیاس کرنے میں سنگین غلطی ہی نہیں کی تھی بلکہ سنگین  ٹھوکر بھی کھائی تھی،اس نے قبائلی عصبیتوں،افغان معاشرت و ثقافت کی بابت بھی خوش فہمی اور عدم بصیرت کا مظاہرہ کیا تھا،اوّل یہ کہ ترک اتا ترک سے قبل ہی یورپی معاشرت،تہذیب و تمدن،ثقافت،افکار اور سیاسی فلسفہ سے واقف تھے،وہ خود تین صدیوں سے یورپی اقوام کے مشرقی رخ کی معقول تعداد پر حاکم رہ چکے تھے،انکے لباس ،طور اطوار،سیاسی معاملات میں مغربی لہر کے اثرات بہت پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے،جنگ عظیم اوّل سے  کچھ عشروں  قبل تک برطانیہ ترکوں کا اہم اتحادی رہ چکا تھا،لہذا  ینگ ٹرکس، اور ترکی  میں رہائش پذیر یہودیوں اورعیسائیوں نے جو بیسویں صدی کے اختتام تک کافی حد تک  مغرب زدہ ہوچکے تھے کا مقابلہ و تقابلہ قدامت پرست دیہی اور خانہ بدوش افغان قبائل کی معاشرت سے نہیں کیا جاسکتا ہے چنانچہ قیاس غالب یہی ہے کہ  ،ان علمیاتی مسائل کی  مابعد سماجیات و اثرات کی بابت امان اللہ قطعی  نا واقف تھا،اس نے ترک شہری تمدن و معاشرت پر افغان قبائلی معاشرت کو غلط طریقہ سے قیاس کیا تھا،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب اتا ترک سے اس نے مشورہ  لینا چاہا تو اس نے اسکو چند اہم ہدایتیں دیں جن کو سمجھنے میں اس نے پھر عدم بصیرت،عجلت اور عدم دور اندیشی کا مظاہرہ کیا تھا،بلکہ اس نے اتا ترک کے مشوروں کو غلط جگہ استعمال کیا  تھا کیونکہ اتا ترک افغان معاشرت سے بالکل ناواقف تھا۔

بہرحال اس نے جنگ کے بعد اپنی خارجہ پالیسی میں کافی توازن  کا مظاہرہ کرتے ہوئے انقلابی روس سے تعلقات استوار کئے اسی طرح اس نے رضا شاہ پہلوی کے ایران سے روابط قائم کئے،اتا ترک کا تو وہ ویسے بھی پرویز مشرف کی طرح شیدائی ہوا کرتا  تھا  ،چنانچہ جب اسکے ارد گرد ہر طرف سے مغربی افکار،نظریات اور معاشرت سے پیوست شدہ مشرقی مغربی اصلاحاتی اقدامات پہنچے تو اس نے  خود اور اپنی ریاست کو بھی اسی عالمی  رنگ میں رنگنا چاہا۔

اسی طرح اس کو یہ گمان تھا کہ روس و برطانیہ اسکے ناصرف دوست اور  اتحادی ہیں بلکہ وقت ضرورت اسکو امداد بھی دینگے،یہاں یہ امر فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ،علمی حلقوں میں یہ امر    قابلِ بحث ہے کہ آیا امان اللہ کے خلاف منفی مبالغہ آرائی میں برطانوی پس پشت سازشیں بھی شامل تھیں یا نہیں  ؟جس نے ثقافتی انقلاب کو اسلام کے خلاف قرار دینے کے لئے اخبارات کو بہت کچھ مدد دی تھی؟ اس بابت بھی سچ یہی ہے کچھ تحقیق سے کہہ نہیں سکتے ہیں،مگر اسی قسم کے ہتھکنڈے برطانیہ  ماضی جدید میں شریف مکہ کی مدد میں عثمانی سلطانوں کے خلاف استعمال کرچکا تھا اور اسی مجرب نسخہ کو بعد ازاں امریکہ نے بعد ازاں افغانستان میں روس مخالف جنگ میں بخوبی استعمال کیا تھا ۔

اہل مغرب کی منافقت اور حقیقت پسندی:

کہنے کو اہل یورپ دوسروں کے مذاہب پر علمی تحقیق کے نام پر جس طرح تنقید کرنے میں ماہر ہیں اسی طرح بہ وقت ضرورت تنقید شدہ مذہبی اقدار کے کسی جزو  کو وہ اپنے مخالف کے خلاف  یا صریحاً اپنے مفاد میں بروئے کار لانے میں بھی پیچھے نہیں رہتے ہیں جیسے مسلم قانونِ  دیت کو انہوں نے ریمنڈ ڈیوس کے حق میں بخوبی  استعمال کیا تھا جو انکے مفاد میں گئی ،چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے لئے دیت و قصاص کو ظالمانہ قرار دیا مگر خود کے ایجنٹ کو بچانے کے لئے اسکو استعمال کیا، حالانکہ انسانی حقوق اور انصاف پر بحث میں مغرب کے تربیت یافتہ  اہل علم اور انکی امداد یافتہ این۔جی۔اوز۔ اور افراد ایسے اسلامی قوانین کو ظالمانہ کہنے میں پیش پیش رہتے ہیں،یہاں پر وہ براہ راست قرآن و سنت پر نام لئے بغیر بس مولوی کی  تنقید کے ضمن میں گرجتے برستے نظر آتے ہیں، جس کے لئے انکو بیرون ملک سے مختلف حکومتی فنڈنگ ایجنسیز رقوم فراہم کرتی ہیں  ،اس طرح جو امریکی اور اہل یورپ آج جہاد کے خلاف کیا کچھ نہیں لکھتے  پھرتے ہیں انہی نے ہم کو معلوم ہے کہ افغان جنگ میں  ماضی قریب میں جہاد کی حمایت میں کتب کو تراجم کراکے بٹوایا تھا ،اس ضمن میں علامہ مودودیؒ کی کتاب الجہاد فی الاسلام کے تراجم اور نسخوں کی کثرت سے طباعت اور تقسیم کی بابت باتیں سننے کو ملتی ہیں۔

امان اللہ کا ثقافتی انقلاب:

امان اللہ کو ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے جدید طرز کے اسکولوں اور کالجوں کا چلن ۔امیر حبیب کے اتبع میں ذہن بدلا ؤحکمتِ عملی(برین واشنگ ٹیکٹِکس) کے تحت  ڈالا تھا ،جس کے تحت مغربی طرز کی تعلیم اور لباس متعارف  کروایا گیا تھا  اسکو ہم  ثقافتی انقلاب( کلچرل ریولیوشن) کے نام سے  یاد کرتے ہیں، اس انقلاب میں  تبدیلی ( چینج) کا بس   ظاہری اظہاریہ ہی مطلوب و مقصود رکھا گیا تھا حد یہ کہ اس نصاب میں موسیقی تک متعارف کروادی گئی تھی ،امیر امان اللہ  تک شاید علیگڑھ کا بغل تجربہ پہنچ نہیں پایا تھا،اس نے سر سید احمد خان کی طرح جدیدیت کو تحدید کے ساتھ متعارف کروانے کی طرف توجہ نہیں دی تھی، اسکے بالمقابل سید احمد خان مغربی معاشرت کی جگہ مغربی علوم کی ترویج میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے جسکو علمی انقلاب (اکیڈیمک اینڈ انٹیلیکچول ریولیوشن ) کہا جاتا تھا،اور وہ اعلی طبقہ و نسل کے لوگوں کو  جدید مغربی تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیتے تھے مگر عام عوام کی اولاد انکی رو سے انھی قدیم مدرسوں کے ہی  قابل تھی جن کا علیگڑھ  مدارس  کے قیام سے قبل  برصغیر میں چلن تھا، یا جیسا چلن(درس نظامی کے نصاب کا چلن) انکے دور میں شروع ہوتا  دیکھا گیا تھا  یعنی دارالعلوم دیو بند اور مدرسہ منظر الاسلام  کی طرف یہاں اشارہ  مقصود ہے، مگر انہوں نے کسی طرح خاندانی  نظام کی قدامت میں تبدیلی کو پسند نہیں کیا تھا  چنانچہ   سید صاحب نے اسکے ساتھ ساتھ  خاندان سماج و معاشرت کے تحفظ کے لئے خواتین کو قدیم طریقہ پر رکھنے کا ہی حکم دیا تھا،اور انکی گھریلو تعلیم و تربیت میں ہی خاندان کی بقا و وجود کو محفوظ و مامون سمجھا تھا ،چنانچہ جب مولوی ممتاز علی صاحب نے اصلاح نسواں پر عملی و فکری کام کرنے کے لئے ان سے اجازت لینی چاہی تو انکی تیوری کے بل  و مزاج دیکھ کر انکے پسینہ چھوٹنے لگے تھے بلکہ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ  اس معاملہ پر وہ انگریزوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

مگر امان اللہ نے یہاں جو غلطی بعد ازاں صحافت سے متاثر ہوکر سرانجام دی اسکا نتیجہ اسکو مابعد بھگتنا پڑا ، واضح رہے کہ صحافت و جامعات مغربی افکار کی ترویج و پیوند کاری کے اہم علمیاتی منبع ہیں ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۲۷ میں اپنے انجام سے ڈیڑھ دو سال قبل جب حضرت جی اور ملکہ جہاں   دورہ سیاحت پر یورپ نشین ہوئے انکی یاترا میں اٹلی،فرانس،برطانیہ ،جرمنی ،روس ،ترکی اور ایران شامل تھے،اسی دوران انکی اتا ترک و رضا شاہ سے راز و نیاز کی خلوتیں قائم ہوئیں۔انکے سفر میں انکے ساتھ ملکہ ثریا بھی تھیں جو ایک جدید تعلیم یافتہ صحافی پس منظر کی خاتون تھیں جن کے والد بھی ایک آزاد خیال صحافی ہوا کرتے تھے،چنانچہ انہوں نے دورہ کے دوران افغانوں میں رائج پردہ سے اجتناب برتا اسکی خبر اخبارات کےذریعہ افغانوں تک جا پہنچی ،دوسری طرف وطن واپسی پر انہوں نے تمام عام و خاص کو مغربی لباس اپنانے کا حکم دیا پتلون نک ٹائی ،کوٹ وغیرہ پہننے کا حکم نامہ صادر فرمایا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply